• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
پاکستان کے محب وطن شہریوں کو وقت گزرنے کا احساس شدت سے ہے مگر وقت بدل نہیں رہا۔ وقت کے بدلنے میں سب سے بڑی رکاوٹ ہمارا فرسودہ سرکاری نظام اور جمہوریت ہے۔ اگرچہ جمہوریت نے چند لوگوں کی تو تقدیرہی بدل دی ہے وہ فرش سے عرش پر نظر آتے ہیں۔ ہماری جمہوریت سیاسی اشرافیہ کے مطابق بہترین انتقام ہے مگر اس ستم کا نشانہ پاکستان کے عوام ہیں جو جمہوریت کے نتیجہ میں ذلیل و خوار ہو رہے ہیں۔ ہماری اعلیٰ عدلیہ کوشش تو کر رہی ہے کہ نظام کو کسی طور پر درست کیا جائے مگر ان کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ نوکرشاہی ہے جو نچلے درجے سے لے کر اعلیٰ درجہ تک قانون اور اصولوں کو خاطر میں نہیں لاتی۔ اپنی مرضی کے فیصلے مسلط کرتے رہتی ہے۔ جب یہ معاملہ عدلیہ میں جاتا ہے تو اندازہ ہوتا ہے ملکی نظام کو ناکام بنانے میں نوکر شاہی اور سیاسی اشرافیہ کا گٹھ جوڑبہت مضبوط ہے۔ اس گٹھ جوڑ کے نتیجے میں دھاندلی، بے ایمانی اور کنبہ پروری ہو رہی ہے اور عوام کے بنیادی حقوق کو سلب کیا جارہا ہے۔ حالیہ دنوں میں ملکی اداروں پر عدم اعتماد نے ہمارے سیاسی نظام کو دائو پر لگا دیا ہے۔ نیب کا ادارہ ایک عرصہ سے احتساب کا ڈھول بجا رہا ہے اور خوب زور شور ہے۔ مگر احتساب معاشرے اور نظام میں نظر نہیں آتا۔ دعوے تو بہت ہیں مگر حقیقت میں سب کچھ ایسا نہیں ہے۔ معاشرہ میں بے ایمانی، دھوکا دہی اور ناانصافی کا پرچار ایسے ہوتا ہے جیساکہ یہ سب کچھ اس نظام میں ضروری ہے، کسی ادارے کا احتساب نہیں ہوا۔ ملکی قوانین خواص کیلئے نرم اور عوام کیلئے امتحان ہیں۔ اس صورت حال نے ملکی معیشت کوبھی برباد کرکے رکھ دیا ہے۔ داخلی صورت حال میں فوج کا کردار بہت اہم ہوتا جا رہا ہے۔ فوج دہشت گردی کے خلاف جنگ میں سول اداروں کو مسلسل مدد فراہم کر رہی ہے۔ اس وقت دہشت گرد خاصی حد تک منتشر ہو رہے ہیں مگر ملک کے اندر کرپشن میں ملوث لوگ دہشت گردوں کے ساتھ رابطے میں بھی نظر آتے ہیں اور ان پر سول انتظامیہ کی گرفت نہ ہونے کے برابر رہ گئی ہے۔ معاشرہ میں کرپشن اور دہشت گردی میں ملوث لوگوں پر قانونی کارروائی میں ہمارے سول ادارے اپنی مکمل کارکردگی دکھانے میں ناکام رہے ہیں اور اس ہی وجہ سے ایپکس کمیٹیوں کی ضرورت محسوس کی گئی اور نتائج بہت اچھے رہے۔ سندھ میں حالات بدلتے نظر آ رہے ہیں۔ چند دن پہلے حسب معمول محترم سرفراز شاہ کے ہاں گفتگو ہو رہی تھی۔ محترم سرفراز شاہ صاحب میرے نظریہ جمہوریت سے کچھ کچھ متفق نہیں تھے۔ جمہوریت کا تعلق نظام سے ہوتا ہے۔ انہوں نے ایک واقعہ بھی بیان کیا جب بہت سال پہلے حضرت شاہ صاحب نوجوان تھے اور ان کا پسینہ گلاب تھا۔ سرکاری ملازمت کی ابتدا تھی وہ ملتان میں اپنے فرائض سرانجام دے رہے تھے۔ پاکستان ابھی ایک تھا۔ اس وقت مشرقی پاکستان میں ایک ملازمت کے سلسلے میں انہوں نے خط محکمہ ڈاک مغربی پاکستان کے توسط سے رجسٹرڈ کرکے روانہ کیا۔ کئی دن تک جواب نہ آیا تو سوچا کہ خود ہی ڈاک خانہ سے معلوم کیا جائے۔ ایک مقامی ڈاک خانہ ان کے دفتر کی حدود میں تھا۔ حضرت شاہ صاحب بنفس نفیس وہاں گئے۔ وہاں پوسٹ ماسٹر صاحب ایک عمر رسیدہ ملازم تھا۔ اس نے شاہ صاحب کی شکایت کو اہمیت نہ دی اور ٹال دیا کہ آ جائے گا جواب،چند دن تو لگ ہی جاتے ہیں۔ شاہ صاحب نوجوان تھے۔ ضبط کیا اورواپس لوٹ آئے۔ مگر ان کو اس سرکاری ملازم کے رویے پر شکایت تھی سو انہوں نے پوسٹ ماسٹر جنرل مغربی پاکستان، صدر پاکستان اور دیگراداروں کو اپنی شکایت لکھ کر سپرد ڈاک کردی۔ چند دن کے بعد صدر پاکستان کے دفتر سے خط آگیا کہ اس معاملے کے سلسلے میں متعلقہ محکمہ کو کارروائی کی ہدایت کردی گئی ہے۔ اور ساتھ ڈاک کے محکمہ کا خط بھی آیا جس کے مطابق متعلقہ افسر کے رویے کا نوٹس لیا گیا ہے اور اس کو معطل کردیا گیا ہے۔ اور ساتھ ہی ان کا رجسٹرڈ خط بھی واپس آگیاجس پر درج تھا، پتہ نامکمل ہے۔ اس لئے واپس کیا جاتا ہے۔ پھر دو چار دن کے بعد ان کے دفترمیں گیٹ پر متعین عملہ نےبتایا کہ مقامی پوسٹ ماسٹر جناب شاہ صاحب سے ملاقات کا متمنی ہے۔ اس کو بلا لیا گیا۔ وہ بزرگ خاصے بے چین نظر آ رہے تھے۔ انہوں نے تمہید باندھی کہ سرفراز صاحب آپ میرے بچوں کی عمر کے ہیں۔ غلط فہمی ہوئی میرا رویہ ایسا نہ تھا۔ آپ کی شکایت کی وجہ سے مجھے معطل کردیا گیا ہے۔ میری ترقی اور ریٹائرمنٹ میں زیادہ عرصہ نہیں ہے۔ آپ کی شکایت کی وجہ سے میری ترقی کا موقع ختم ہو سکتا ہے اور ریٹائرمنٹ کے بعد میری پنشن میں اضافہ بھی نہیں ہوگا۔ اگر آپ شکایت واپس لے لیں تو میرا معاملہ درست ہو سکتا ہے۔ سرفراز شاہ کو اندازہ تھا کہ خط پر پتہ درست نہ تھا سو انہوں نے کہا ، میں آپ کو لکھ کردیتا ہوں کہ میں شکایت واپس لے رہا ہوں۔ یوں وہ بزرگ خوشی خوشی رخصت ہوئے۔ اب سرفرازشاہ صاحب کہہ رہے تھے وہ تمام خط و کتابت میرے پاس محفوظ ہے۔ جب نظام میں لوگ اپنی ذمہ داری محسوس کرتے تھے اور عوام کی شکایت پر کارروائی بھی ہوتی تھی اور یہ رویہ ایک جمہوری نظام کو مضبوط کر سکتا تھا۔ مگر پہلےکہ جمہوریت مضبوط ہوتی، فریقین ہی بے وقعت ہوگئے اور ملک ٹوٹ گیا۔ کاش جمہور کی آواز سنی جاتی ، جمہور کو اہمیت ملتی تو ملک نہ ٹوٹتا۔ اس گناہ میں مغربی پاکستان کے سب لوگ شریک تھے۔ اس کے بعد ہی جمہوریت کا دور تو شروع ہوا۔ مگر جمہور کو مسلسل نظر انداز کیا گیا۔اب ایسے میں جمہوریت پر کون اعتبار کرے۔ پھر ہم مارشل لا کے نظام پر اعتراض کرتے ہیں۔ مارشل لا کو کندھا دینے والے ہمارے ہی سیاست دان تھے۔ اور اب تک یہ سیاست دان اور اشرافیہ کے بزنس مین کسی بھی جمہوری نظریہ پر یقین نہیں رکھتے۔ یہ دھونس اور دھاندلی پر یقین رکھتے ہیں اور ہم پر مسلسل حکومت کر رہے ہیں۔
اس وقت ملک میں سیاست اور انتخابات پر کئی سوال اٹھ رہے ہیں۔ اعلیٰ عدالت اور الیکشن کے ٹریبونلز انتخابی نظام میں خرابیوں کی نشاندہی کر رہے ہیں۔ اگرچہ منظم دھاندلی کا کوئی ثبوت نہیں ہے مگر انتظامات میں بدانتظامی اور طریقہ کار میں عدم شفافیت 2013کے انتخابات پر فرد جرم ضرور ہے۔ اب ایک طرف تو نظام میں احتساب کی منصوبہ بندی ہو رہی ہے دوسری طرف سیاسی جماعتوں اور سیاسی لوگوں کا رویہ بڑا ہی پریشان کن ہے۔ وہ بیک وقت عدالتی افراد کو نشانہ ستم بنا رہے ہیں جو کہ ان کی اپنی جمہوریت کیلئے خطرہ ہے۔ سندھ کے بعد تبدیلی اور احتساب کا سلسلہ دوسرے صوبوں تک پھیلتا نظر آ رہا ہے ایسے میں ضروری ہے کہ اندرون ملک قانون اور عدالتوں کو مضبوط کیا جائے۔ ہمارے ارد گرد ممالک میں پاکستان میںدہشت گردی کے حوالے سے کافی سوال کئے جا رہے ہیں اور اس ہی وجہ سے بھارت سے بات چیت ممکن نہیں ہے۔ پھر افغانستان کے لوگ بھی ہمارے ہاں دہشت گردی میں ملوث نظر آ رہے ہیں۔ پاکستان کی بڑی کوشش ہے کہ افغانستان سے معاملات خوش اسلوبی سے طے ہوسکیں۔ ایسے میں اندرون ملک امن ضروری ہے اور معیشت کی مضبوطی بھی ہماری بقا کیلئے ضروری ہے اور اس وقت آئی ایم ایف کی مشاورت ملکی معیشت کو مضبوط نہیں کر رہی ہے۔ اسٹاک مارکیٹ کا بحران دنیا بھر میں طوفان لا رہا ہے اور پاکستان کو اس سے بچانا ضروری ہے اور اس کیلئے ضروری ہے کہ پاکستان کے عوام کو حوصلہ اور اعتماد دیا جائے۔ کیا وزیر اعظم کوئی کرشمہ دکھا سکیں گے!!!۔
تازہ ترین