• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
پاک بھارت حالیہ کشیدگی سےہمارے ذہنوں پر یہ حقیقت نقش ہو جانی چاہئے کہ بھارت کی موجودہ حزب اقتدار ہو یا حزب اختلاف وہ پاکستان سے کسی نوعیت کے بامقصد مذاکرات کی جانب پیش رفت کی خواہش نہیں رکھتی بلکہ ان کا مقصد ماسوائے اس کے اور کچھ نہیں ہے کہ پاکستان کی حیثیت کو اقوام عالم کی نظر میں کم تر کیا جائے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ پاکستان کے فیصلہ ساز اس حقیقت اور بھارتی ذہنیت کو پیش نظر رکھتے ہوئے اپنی حکمت عملی اور اہداف متعین کر یں۔ اگر اس وقت معاملات کو خارجی سطح پر درست انداز میں منصوبہ بندی کے بعد اقوام عالم کے سامنے رکھا جائے تو کامیابی یقینی ہوگی ۔ میں گزشتہ ایک ماہ سے وطن عزیز سے دور ہوں اور مشرق بعید سے مغربی یورپ تک محو سفر ہوں اس دوران ان ممالک کے پارلیمنٹیرین اور تھنک ٹینک کے کرتا دھرتا افراد سے ملاقاتیں رہیں۔ جب بھی بھارت کے پاکستان سے تعلقات اور بھارت کے عالمی کردار ادا کرنے کی خواہش پر گفتگو ہوئی تو واضح طور پر محسوس کیا کہ عالمی برادری نریندر مودی کی شخصیت کو طنزو مزاح کا نشانہ بناتی ہے۔ تصور یہ کیا جاتا ہے کہ بھارت کی موجودہ قیادت اور بالخصوص ان کے وزیر اعظم ایک بڑبولے انسان ہیں اور حقائق اور اپنی حیثیت سے صرف نظر کرتے ہوئے بیان بازی اور اقدامات کر گزرتے ہیں۔ میری رائے ہے کہ بھارت میں "بڑے" ہونے کا تصور برطانوی راج سے آزادی کے وقت سے ہی موجود تھا اور تعصبات کی بھٹی میں ڈال کر اس کو مزید مضبوط کر دیا گیا کہ جنوبی ایشیاء کی تھانیداری کا حقدار صرف بھارت ہے۔ صدر نکسن نے اپنی کتاب لیڈرز میں جہاں پنڈت جواہر لال نہرو کی تعریف کی وہیں کشمیر کے تنازع کی سب سے بڑی وجہ پنڈت نہرو کے متعصبانہ رویئے کو قرار دیا ہے۔ واجپائی حکومت کے دور میں معاملات کچھ سنجیدہ نوعیت کی جانب گامزن ہونے لگے۔ جب بھارت کے ایٹمی دھماکوں اور اس کے بعد دھمکی آمیز بیانات کی وجہ سے نواز شریف حکومت نے بھی جوابی دھماکے کرنے کا اقدام کیا۔ ورنہ اٹل بہاری واجپائی کے رویوں اور نریندر مودی کے اقدامات بنیادی طور پر ایک ہی ذہنیت کا شاخسانہ ہیں۔ ماضی میں بھی جب پاکستان نے ایٹمی صلاحیت کا عملاً ببانگ دہل اعلان کردیا تو بھارت کی سمجھ میں کچھ کچھ بات آنے لگی۔ ماحول گفتگو کیلئے اس وقت ہی ساز گار ہو گا کہ جب بھارت کو یہ احساس دلادیا جائے کہ پاکستان ماضی کی مانند اینٹ کا جواب پتھر سے دینے کی حکمت عملی پر کاربند ہو جائے گا۔ بھارتی جارحیت جو کنٹرول لائن پر جاری ہے اور وہ پاکستان میں دہشت گردوں کی جو پشت پناہی کر رہا ہے اس کی ان کارروائیوں کو عالمی سطح پر اجاگر کرنے کا فیصلہ بالکل درست ہے۔ مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ اس حوالے سے سفارتی سطح پر کوئی صف بندی ہوتی نظر نہیں آرہی اور نہ ہی سفارتخانے اس حوالے سے متحرک ہیں۔ ابتدائیہ میں عرض کیا تھا کہ آج کل مختلف ممالک کے پارلیمنٹیرین اور تھنک ٹینک کے اراکین سے ملاقاتیں ہو رہی ہیں ان سب کا یہ متفقہ خیال ہے کہ پاکستان کے دفتر خارجہ کے اس اعلان کے بعدکہ وہ عالمی برادری کے سامنے بھارت کا حقیقی چہرہ دکھائے گا۔ ہمارا بھی یہ ہی خیال تھا کہ پاکستانی سفارتخانے اس حوالے سے بہت متحرک ہو جائینگے۔ مگر حقیقت یہ ہے کہ اس حوالے سے کوئی سرگرمی نظر نہیں آرہی۔حالانکہ وزیر اعظم نوازشریف کی مضبوط شخصیت کی سربراہی میں اس ہدف کو حاصل کرنا ممکن ہے۔ کیونکہ نریندر مودی اپنی حرکتوں کی وجہ سے وزیر اعظم نواز شریف کے ہم پلہ شخصیت نہیں رہے۔ مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ وہاں کے ایک پارلیمنٹیرین نے بہت دلچسپ بات کہی کہ آپ کے سفارتخانے اور دفتر خارجہ وزیر اعظم نوازشریف کی شخصیت سے فائدہ اٹھا ہی نہیں سکتے کیونکہ ان میں وہ لوگ بھی شامل ہیں جو ہمیں یقین دلایا کرتے تھے کہ اب نواز شریف کا پاکستانی سیاست میں کوئی کردار نہیں۔ ایسے لوگ بھی شامل ہیں جنہیں گزشتہ نوازشریف حکومت نے ایک اہم ملک میں سفیر مقرر کیا مگر جنرل مشرف نے ان کو ایک غیر اہم ملک میں سفیر مقرر کردیا۔ متعلقہ پارلیمنٹیرین نے مجھ سے کہا کہ اسی زمانے میں وہ صاحب مجھے ملے اور جنرل مشرف کی حمایت میں زمین آسمان کے قلابے ملانے لگے اور ثابت کرنے لگے کہ نواز شریف کا باب بند ہو چکا ہے۔ بھلا ایسے لوگ ان کی شخصیت سے کیا فائدہ اٹھا پائیں گے اور کیا فائدہ اپنے ملک کو پہنچا سکتے ہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ بھارت کو سفارتی دبائو میں لانے کی خاطر مناسب منصوبہ بندی فی الفور کی جائے۔ دفتر خارجہ اور سفارتخانوں کو متحرک کیا جائے کیونکہ دہشت گردی کی کمر توڑنے کے سبب بھارت اب پاکستان میں کسی اور ذریعے سے داخلی عدم استحکام کی کوشش ضرور کرے گا۔ اس کو اس قابل ہی نہ چھوڑا جائے کہ وہ ایسا کرسکے۔
تازہ ترین