• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
گزشتہ کالم میں سندھ حکومت کے ان تحفظات کے حوالے سے صورت حال کا تجزیہ کیا گیا تھا ، جو اس نے صوبے میں نیب ، ایف آئی اے اور دیگر وفاقی اداروں کی کارروائیوں پر ظاہر کئے تھے ۔ وزیر اعلیٰ سندھ سید قائم علی شاہ نے نہ صرف ان تحفظات سے وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف کو آگاہ کیا تھا بلکہ وفاقی اداروں کی کارروائیوں پر احتجاج بھی کیا تھا۔ وزیر اعلیٰ سندھ نے شکایت کی تھی کہ وفاقی ادارے کارروائی سے پہلے حکومت سندھ کو آگاہ نہیں کرتے۔ لیکن اب بات حکومت سندھ کے تحفظات سے بہت آگے نکل چکی ہے۔ سندھ ہائر ایجوکیشن کمیشن کے چیئرمین ڈاکٹر عاصم حسین کی گرفتاری سے سندھ حکومت کو پیغام مل گیا ہے کہ اس کے تحفظات کی کوئی اہمیت نہیں ہے۔ ڈاکٹر عاصم حسین کا عہدہ صوبائی وزیر کے برابر ہے اور وہ سندھ کابینہ کے رکن ہیں ۔ وزیر اعلیٰ سندھ کو بھی معلوم نہیں تھا کہ ان کے رکن کی گرفتاری کس ادارے نے کی ہے ۔ اب یہ سندھ حکومت اور پیپلز پارٹی کی قیادت پر منحصر ہے کہ وہ اس طرح حکومت چلانا چاہتے ہیں یا نہیں ۔ ان کے پاس دو ہی راستے ہیں کہ وہ نیشنل ایکشن پلان کے نام پر ہونے والی کارروائیوں کو چپ کرکے برداشت کرے یا حکومت چھوڑ دے ۔ تیسرا کوئی راستہ نہیں ہے ۔
سندھ کے سینئر وزیر اطلاعات اور تعلیم نثار احمد کھوڑو کا کہنا ہے کہ کچھ قوتیں چاہتی ہیں کہ سندھ میں پیپلزپارٹی کی حکومت نہ رہے ۔ انہوں نے یہ بھی سوال کیا ہے کہ کرپشن کے خلاف کارروائی دوسرے صوبوں میں کیوں نہیں ہو رہی ہے ؟ پیپلز پارٹی کے رہنماؤں کے اس طرح کے خدشات اور سوالات اپنی جگہ درست ہوسکتے ہیں مگر حقیقت یہ ہے کہ دہشت گردی اور کرپشن کے ’’ شیطانی گٹھ جوڑ ‘‘ کو توڑنے کے نام پر جو کارروائیاں ہورہی ہیں، انہیں روکنا پیپلز پارٹی کے بس میں نہیں ہے اور نہ ہی پیپلزپارٹی فی الوقت سیاسی طور پر اس پوزیشن میں ہے کہ وہ ان کارروائیوں کے بارے میں کوئی سوال کرسکے ۔ پیپلز پارٹی کے پاس آپریشن کا رخ متعین کرنے کا بھی کوئی اختیار نہیں ہے ۔ البتہ اس کی طرف سے خدشات کے اظہار پر کوئی پابندی نہیں ہے۔ پاکستان مسلم لیگ (ق) کے سربراہ چوہدری شجاعت حسین کچھ روز قبل کراچی آئے تو ان سے کسی صحافی نے سوال کیا کہ اگر آصف علی زرداری پر ہاتھ ڈالا گیا تو کیا ہو گا ؟ اس پر چوہدری شجاعت حسین کا کہنا تھا کہ وہی ہو گا ، جو منظور خدا ہو گا ۔ تیسری دنیا کے ملکوں میں یہی ہوتا آرہا ہے ، جو اس وقت پاکستان میں ہو رہا ہے ۔
سیاست دانوں کی تاریخ کے ساتھ ساتھ اپنے عہد کے حالات پر بھی گہری نظر ہونی چاہئے ۔ جو سیاست دان اپنے عہد کے حالات کا تاریخ کے تناظر میں ادراک نہیں کر سکتے ، وہ اسی طرح بندگلی میں پھنس جاتے ہیں۔ ماضی میں سیاسی حکومتوں کو کرپشن کی بنیاد پر برطرف کر دیا جاتا تھا اور بعد ازاں کرپشن کے الزامات ثابت نہیں ہو ئے تھے لیکن اب ایسا نہیں ہے۔ حالات بہت بدل گئے ہیں۔سیاسی حکومتوں اور سیاست دانوں کو اس مقام پر لا کھڑا کیا جاتا ہے ، جہاں وہ کرپشن کے الزامات کا دفاع کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہوتے اور بھر لوگ غیر جمہوری قوتوں کو خوش آمدید کہتے ہیں ۔ ہمارے ہی عہد میں سیاست دانوں اور سیاسی جماعتوں کی کرپشن کی وجہ سے جمہوریتیں ناکام ہوئی ہیں ۔ پاکستان میں سیاست دانوں اور سیاسی حکومتوں نے محتاط رویہ اختیار نہیں کیا ۔ انہوں نے اپنے بارے میں کرپٹ ہونے کے تاثر کو ختم کرنے کی کوشش نہیں کی ۔ انہوں نے اپنے اوپر لگنے والے کرپشن کے الزامات کا دفاع کرنے کی بھی زحمت نہیں کی اور انہوں نے کرپشن کے خاتمے یا احتساب کے لئے کوئی مضبوط جمہوری نظام بھی وضع نہیں کیا ۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ پاکستان کے حالیہ جمہوری وقفے میں اقتدار میں رہنے والی پاکستان پیپلز پارٹی ، پاکستان مسلم لیگ (ن) اور دیگر سیاسی جماعتوں نے اپنی پارٹی کے اندر اور باہر کے ہمدرد لوگوں کے انتباہ کا بھی خیال نہیں کیا ۔ پیپلز پارٹی میں تو خاص طور پر ایسے لوگ فرنٹ پر آگئے ، جن کا پیپلز پارٹی سے کوئی تعلق بھی نہیں تھا ۔ ان لوگوں نے جو کچھ کیا ، ان پر تو صرف احتساب کرنے والے ادارے ہی کرپشن کا الزامات عائد نہیں کررہے بلکہ پارٹی کے اندرونی حلقے بھی ان الزامات کی تائید کررہے ہیں ۔ اس کا یہی نتیجہ نکلنا تھا ، جو پیپلز پارٹی کی قیادت اور سندھ حکومت کی موجودہ مشکلات کی صورت میں سامنے آیا ہے ۔
موجودہ حالات میں لوگ ان قوتوں کا ساتھ دیں گے جو ملک میں دہشت گردی اور کرپشن کے خاتمے کی کوششیں کر رہی ہیں اور ان کوششوں کے مثبت نتائج لوگوں کو سامنے بھی نظر آرہے ہیں ۔ لوگ یہ سوال نہیں کریں گے کہ دہشت گردی اور کرپشن کے حالات کیوں کر پیدا ہوئے ۔ بظاہر لوگوں کو حالات ٹھیک سمت میں جاتے ہوئے نظر آرہے ہیں ۔ یہ تاثر بھی قائم ہو گیا ہے کہ سیاسی قوتیں ناکام ہو چکی ہیں اور حالات کی درستگی ان کے بس کی بات نہیں۔ اس تاثر میں پیپلز پارٹی کے سوالات اور خدشات پر بہت کم لوگ ہی توجہ دیں گے۔ پیپلز پارٹی کا یہ مطالبہ کہ دوسرے صوبوں میں بھی کارروائی ہونی چاہئے ، کسی حد تک پورا ہوسکتا ہے ۔ کارروائی کا دائرہ سندھ سے باہر بھی وسیع ہو سکتا ہے اور اس کا زیادہ امکان ہے ۔ لیکن اس وقت چونکہ سندھ میں پیپلز پارٹی کی حکومت ہے اور سندھ میں نیشنل ایکشن پلان کے تحت زیادہ کارروائیاں ہورہی ہیں ، جنہیں پیپلزپارٹی اپنے خلاف تصور کررہی ہے ۔ لہذا پیپلز پارٹی کے لئے یہ آزمائش ہے کہ وہ اس صورت حال سے نکلنے کے لئے کیا حکمت عملی اختیار کرتی ہے لیکن افریقہ اور ایشیا میں بعض حالیہ تجربات سے یہ بات واضح ہو گئی ہے کہ جہاں سیاسی جماعتیں اپنے بارے میں کرپٹ ہونے کے تاثر یا اپنے خلاف کرپشن کے الزامات کا عوامی سطح پر موثر دفاع نہیں کر سکی ہیں ، وہاں جمہوریت کی ناکامی پر لوگوں نے دکھ کا اظہار نہیں کیا ہے ۔ پیپلز پارٹی اور دیگر سیاسی جماعتوں کی قیادت کو یہ ضرور سوچنا چاہئے کہ غلطی کہاں ہوئی ہے ؟
تازہ ترین