• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
دنیا کی ابھرتی ہوئی اقتصادی طاقت چین کی گرتی ہوئی معیشت کے اثرات پاکستان کی اسٹاک مارکیٹس تک بھی پہنچ گئے اور چینی معیشت پر خدشات اور عالمی مارکیٹ میں خام تیل کی قیمتوں میں کمی عالمی اسٹاک مارکیٹوں کو لے ڈوبی ہے۔ چین کے اسٹاک ایکسچینجوں میں ریکارڈ کمی کے بعد جاپان، ہانگ کانگ، بھارت اور پاکستان کی اسٹاک مارکیٹوں میں بھی شدید مندی دیکھی گئی۔ گزشتہ کاروباری ہفتے کے پہلے روز پیر 24 اگست کو کراچی اسٹاک مارکیٹ میں تاریخ کی بدترین مندی ہوئی جس میں مقامی سرمایہ کاروں کے 270ارب روپے سے زائد ڈوب گئے اور KSE-100 انڈیکس 1419پوائنٹس کی کمی کے ساتھ گزشتہ تین ماہ کی کم ترین سطح پر آگیا۔ کراچی اسٹاک مارکیٹ میں گزشتہ ہفتے تقریباً 50 کروڑ ڈالر کا انخلاء دیکھا گیا جبکہ سرمائے میں 269 ارب روپے کی کمی دیکھی گئی جس سے چند روز قبل 36000 پوائنٹس پر ٹریڈ کرنے والا KSE-100 انڈیکس 33000 پوائنٹس کی سطح تک نیچے آگیا۔ تجزیہ کاروں کے مطابق چین کی معاشی صورتحال، عالمی مارکیٹ میں تیل کے گرتے ہوئے نرخ اور ایشیائی مارکیٹوں میں مندی کے باعث غیر ملکی سرمایہ کار بڑی تعداد میں کراچی اسٹاک مارکیٹ سے اپنا سرمایہ نکال رہے ہیں جس کی وجہ سے کراچی اسٹاک مارکیٹ شدید مندی کے گرداب میں ہے۔
گزشتہ ہفتے کراچی اسٹاک مارکیٹ میں ٹریڈنگ کا آغاز ہوا تو 100 انڈیکس آغاز پر ہی شدید گراوٹ کا شکار رہا۔ اسی طرح چینی اسٹاک مارکیٹ سے شروع ہونے والی مندی کے نتیجے میں ٹوکیو انڈیکس 895 اور ہانگ کانگ انڈیکس 1158پوائنٹس کمی کے ساتھ بند ہوا۔ اس کے علاوہ امریکی ڈوؤجونز انڈیکس 530اور ممبئی اسٹاک مارکیٹ 1600 پوائنٹس گرگئی۔ واضح رہے کہ رواں ماہ چینی کرنسی کی قدر میں کمی کے بعد سے اب تک عالمی سرمایہ کاروں کے 5 ہزار ارب ڈالر سے زائد ڈوب چکے ہیں جبکہ چین کے مینوفیکچرنگ کے شعبے میں سست روی کے رجحان اور عالمی مارکیٹوں میں بحران کی وجہ سے دنیا کے 400 امیر ترین افراد جن کے اثاثوں کی مجموعی مالیت 3.98 کھرب ڈالر ہے،کو اپنے کاروبار میں مجموعی طور پر 182 ارب ڈالر کا نقصان اٹھانا پڑا۔ بلومبرگ بلینرز انڈیکس میں نقصان کے شکار امیر ترین افراد میں صرف وارین بوفیٹ نے اسٹاک ایکسچینج کی مندی سے 3.6 ارب ڈالر کا نقصان اٹھایا جبکہ چین کے سب سے امیر ترین شخص وان جنلن جو ڈالین وانڈا کے چیئرمین ہیں، کو عالمی اسٹاک مارکیٹ میں صرف ایک دن میں 3.6 ارب ڈالر کا نقصان ہوا۔ اس طرح انڈیکس ممبران کے مجموعی اثاثوں میں صرف ایک روز میں 76 ارب ڈالر کی کمی ہوئی جو امریکی اسٹاک ایکسچینج کے اسٹینڈرڈ اینڈ پوورز 500 انڈیکس کو 2011ء کے بعد پہنچنے والا دوسرا بڑا جھٹکا ہے۔اسٹاک ایکسچینج کے ساتھ ساتھ خطے کی کرنسیوں میں بھی زبردست گراوٹ دیکھنے میں آئی اور چین، بھارت اور پاکستان کی کرنسیوں کے مقابلے میں امریکی ڈالر مستحکم ہوا جو صرف ایک دن میں 102 روپے سے بڑھ کر 104 روپے تک پہنچ گیا۔ یاد رہے کہ کراچی اسٹاک ایکسچینج کی بہترین کارکردگی کے پیش نظر غیر ملکی سرمایہ کاروں نے اچھے منافع کی خاطر کراچی اسٹاک ایکسچینج کے بلیو چپس شیئرز میں سرمایہ کاری کررکھی تھی جو KSE کے مجموعی سرمایہ کاری کی تقریباً 30% سے زائد تک پہنچ گئی تھی اور خطے کی اسٹاک مارکیٹوں میں زبردست مندی کو دیکھتے ہوئے ان غیر ملکی سرمایہ کاروں نے عالمی اسٹاک مارکیٹوں میں اپنا نقصان پورا کرنے کیلئے پاکستانی اسٹاک مارکیٹوں میں اپنے شیئرز فروخت کرنے شروع کردیئے جس سے کراچی اسٹاک مارکیٹ بری طرح متاثر ہوئی تاہم معیشت دانوں اور کیپٹل مارکیٹ کے گرو کا خیال ہے کہ آنے والے دنوں میں کیپٹل مارکیٹ میں تیزی اور اسٹاک ایکسچینج کی کارکردگی میں بہتری آئے گی جس کا مشاہدہ ہمیں مندی کے دوسرے روز کراچی اسٹاک ایکسچینج میں 700 پوائنٹس کے اضافے سے ہوا جس نے سرمایہ کاروں کے پیر کو ہونے والے نقصان کو تقریباً 50% کم کردیا لیکن اس دوران ایسے چھوٹے سرمایہ کاروں جو بدلے اور ادھار پر اسٹاک کا کاروبار کرتے ہیں، نے دیوالیے سے بچنے کیلئے فوری طور پر شیئرز فروخت کرکے اپنی پوزیشن مستحکم کی۔
مجھ سے کئی قارئین نے اسٹاک مارکیٹ کے کریکشن اور کریش کے بارے میں دریافت کیا ہے جنہیں مختصراً بتاتا چلوں کہ اسٹاک مارکیٹ کے مسلسل بڑھنے پر جب مقامی سرمایہ کار منافع کے حصول کیلئے اپنے اسٹاکس مارکیٹ میں فروخت کرتے ہیں تو یہ کریکشن کہلاتا ہے جس سے اسٹاک مارکیٹ وقتی طور پر گرتی ہے لیکن پھر جلد ہی دوبارہ مستحکم پوزیشن پر آجاتی ہے جبکہ کریش عموماً بیرونی سرمایہ کاروں کے شیئرز فروخت کرنے اور عالمی مارکیٹ میں شدید مندی کی وجہ سے ہوتا ہے جس سے مقامی اسٹاک مارکیٹ کو اپنی اصل پوزیشن میں آنے میں کافی وقت درکار ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ عالمی مارکیٹ میں شدید مندی کی وجہ سے دنیا بھر کا کیپٹل مارکیٹ بحران کا شکار رہا۔ لندن اور یورپ کی اسٹاک مارکیٹ میں 1.68%، پیرس میں 1.4% اور فرینکفرٹ میں 1.23%مندی رہی جبکہ چین نے اپنی گرتی ہوئی اسٹاک مارکیٹ کا سہارا دینے کیلئے شرح سود میں 0.25%اور بینکوں کے ریزرو میں 0.5% کمی کا اعلان کیا تاکہ مارکیٹ میں اضافی پیسے دستیاب ہوسکیں اور اسٹاک مارکیٹ اٹھ سکے جس کی وجہ سے پورے ایشیاء جس کا عالمی معاشی سرگرمیوں میں حصہ 15%ہے، میں مندی کے کالے بادل چھائے رہے۔ معاشی پنڈت قیاس آرائیاں کررہے ہیں کہ اگر چین کی کیپٹل مارکیٹ اور معاشی مندی پر جلد از جلد قابو نہ پایا گیا تو عالمی معیشت پر اس کے منفی اثرات مرتب ہوں گے تاہم ایسی صورتحال میں کراچی، اسلام آباد اور لاہور اسٹاک مارکیٹوں کا انضمام خوش آئند بات ہے جس سے پاکستانی کیپٹل مارکیٹ کا بیرونی سرمایہ کاروں کیلئے پروفائل بہتر ہوا ہے اور ترکی و قطر کے اسٹاک ایکسچینج نے پاکستان کے اسٹاک ایکسچینجوں میں سرمایہ کاری میں دلچسپی ظاہر کی ہے۔ اس کے علاوہ بیرونی سرمایہ کاروں کے شیئر فروخت کرنے سے KSE میں رئیل اسٹیٹ سیکٹر میں 19.6%، کیمیکلز میں 15.3%، سیمنٹ میں 11.8% اور ٹیکسٹائل میں 10.3% اضافی ٹرن اوور دیکھنے میں آیا جس سے نہ صرف کاروباری ہفتے کے آخری روز کراچی اسٹاک ایکسچینج میں 400پوائنٹس کا اضافہ ہوا بلکہ خسارے میں کافی حد تک کمی ہوئی۔
گزشتہ صبح پاکستان کے وژن پر سابق امریکی سفیر کیمرون منٹر اور آئی بی اے کے ڈین ڈاکٹر عشرت حسین کے ساتھ میرا ایک اہم انٹریکشن ہوا جس میں ملک کے ممتاز معیشت دانوں، سینئر سفارتکاروں، صنعتکاروں اور سول سوسائٹی کے نمائندوں نے بھی شرکت کی۔ کیمرون منٹر امریکہ کے اہم تھنک ٹینک ایسٹ ویسٹ انسٹی ٹیوٹ کے صدر ہیں اور وہ میٹنگ میں شرکت کیلئے خصوصی طور پر امریکہ سے کراچی تشریف لائے تھے۔ انٹریکشن کے دوران کیمرون منٹر اور ڈاکٹر عشرت حسین نے بھی یہ اعتراف کیا کہ چین کی اسٹاک مارکیٹ کے کریش ہونے سے دنیا کی اسٹاک مارکیٹ پر مرتب ہونے والے اثرات یہ ثابت کرتے ہیں کہ چین دنیا کی سب سے بڑی معیشت بن گیا ہے جس کی معیشت کے اتار چڑھائو کا اثر پوری دنیا کی معیشت پر پڑے گا۔
تازہ ترین