• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
عام انتخابات میں مبینہ منظم دھاندلی کی تحقیقات کرنے والے عدالتی کمیشن کی رپورٹ جاری ہونے کے بعد پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان نے تیس جولائی کو چیف الیکشن کمشنر جسٹس سردارمحمد رضا کو ایک خط تحریر کیا۔ چھ صفحات پر مبنی اس خط میں انہوں نے چیف الیکشن کمشنر سے استدعا کی کہ عام انتخابات کو شفاف بنانے میں ناکامی کے ذمہ داران کے خلاف نہ صرف انضباطی اورقانونی کارروائی کی جائے بلکہ ان کے خلاف فوجداری مقدمات بھی قائم کئے جائیں اور تحقیقاتی کمیشن کی رپورٹ کے مختلف نکات کا حوالہ دیتے ہوئے تشریح کی کہ الیکشن کمیشن غیر جانب دار اور شفاف انتخابات کے انعقاد میں واضح طور پر ناکام رہا ہے، چارج شیٹ پیش کرتے ہوئے سپریم کورٹ کے جج سے الیکشن کمیشن کے سربراہ بننے والے جسٹس سردار محمد رضا سے کہا گیا کہ وہ الیکشن کمیشن کی طرف سے کئے گئے اقدامات کے بارے میں تفصیلی وضاحت پیش کریں۔
شاید یہی وہ لب و لہجہ تھا جو ایک آئینی ادارے کو ایک آنکھ نہیں بھایا اور چیف الیکشن کمشنر جسٹس سردار محمد رضا کی سربراہی میں الیکشن کمیشن نے اس خط کا بغور جائزہ لینے کے بعد کپتان کو جو جوابی خط بھیجا وہ ان کی آمرانہ طبعیت پر ناگوار گزرا۔ جوابی خط پا کر جناب عمران خان نے الیکشن کمیشن کو رگیدنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ تحریک انصاف کو یہ بات ذہن نشین رکھنی چاہئے کہ الیکشن کمیشن کے سیکرٹری کی طرف سے بھیجے گئے جوابی خط کے متن کو چیف الیکشن کمشنر کی مکمل تائیدحاصل ہے۔ انہی کی سربراہی میں الیکشن کمیشن کے منعقدہ اجلاس میں عمران خان کے خط پر اظہارناپسندیدگی کیا گیا اور واضح کیا گیا کہ ایک آئینی ادارے کو مخاطب کرنے کے لئے جو الفاظ استعمال کئے گئے وہ کسی طورمناسب نہیں ہیں۔ جواب میں یہ بھی باور کرایا گیا کہ الیکشن کمیشن سے وضاحت صرف کوئی مجاز اتھارٹی طلب کر سکتی ہے اور بطور سیاسی جماعت تحریک انصاف کو یہ استحقاق حاصل نہیں ہے۔ الیکشن کمیشن مستقبل کی منصوبہ بندی کے بارے میں قانون سازی کرنے والے ادارے یعنی پارلیمنٹ کو آگاہ کر چکا ہے اور تحقیقاتی کمیشن کی رپورٹ کی روشنی میں جو کیا گیا اور جو آئندہ کیا جائے گا ،یہ فیصلہ کرنے کا اختیار بھی الیکشن کمیشن کو ہے جس کے کام میں کسی کو مداخلت کی اجازت نہیں دی جاسکتی۔ لیکن درجنوں انتخابی پٹیشنوں کے فیصلے خلاف آنے کے بعد یکے بعد دیگرے الیکشن ٹریبونلز کے تین فیصلے حق میں آئے تو خان صاحب ایک بار پھر پرانے طرزعمل پر لوٹ آئے اور الیکشن کمیشن کے ان چاروں ارکان سے فوری مستعفی ہونے کا مطالبہ کردیا جن کی مدت ملازمت کو آئین میں تحفظ دیا گیا ہے۔
انتہائی اہم قانونی اور انتظامی عہدوں سے لے کر ہائی کورٹ کے ججز تعینات رہنے والے الیکشن کمیشن کے معززارکان کو دھمکی دی گئی کہ اگر وہ رضاکارانہ طور پر مستعفی نہ ہوئے تو الیکشن کمیشن کے باہر دھرنا دیا جائے گا۔ لگتا ہے خان صاحب گزشتہ سال کے دھرنے کی ناکامی کو ابھی تک ذہنی طور پر قبول نہیں کر پائے اور وہ اب الیکشن کمیشن کے ان ارکان کے استعفے لے کر اپنی خفت مٹانا چاہتے ہیں جن کی تقرری میں ان سے بھی مشاورت کی گئی تھی۔ یہاں میں قارئین کو عام انتخابات سے قبل اسی الیکشن کمیشن کے سربراہ کی تعیناتی میں تحریک انصاف کی دلچسپی سے بھی آگاہ کردوں جس ادارے کو اب اپنی محاذ آرائی کی سیاست کے لئے تختہ مشق بنایا جا رہا ہے، ہوا یوں کہ جب چیف الیکشن کمشنر کی تقرری کے لئے وزیر اعظم اور قائد حزب اختلاف کے درمیان مشاورت ہوئی تو بطور قائد حزب اختلاف چوہدری نثار نے عمران خان کو بھی اعتماد میں لینے کے لئے پیغام بھیجا تو انہوں نے کہا کہ آپ متعلقہ نام موبائل پر ٹیکسٹ کردیں جس پر انہیں وہ ٹیکسٹ کیا گیا اور انہوں نے موبائل مشاورت کے ذریعے اپنی رائے دے دی۔ اب جناب اسی الیکشن کمیشن کو مضبوط اور با اختیار بنانے کے غم میں گھلے جا رہے ہیں جس کے سربراہ کی بھی تقرری کو سنجیدہ نہیں لیا گیا تھا۔ لوگ ابھی تک نہیں بھولے کہ عام انتخابات کے بعد دھاندلی کے نام پر اس ادارے کا جو مذاق اڑایا گیا اس نے فخر الدین جی ابراہیم جیسے فرشہ صفت انسان کو بھی مستعفی ہونے پر مجبور کر دیا تھا۔ یہ وہی الیکشن کمیشن ہے جس نے کنٹونمنٹ بورڈز،ضمنی انتخابات اورخیبر پختونخوا کے بلدیاتی الیکشن منعقد کرائے اور اب جب اعلیٰ عدالتوں سے ریٹائرڈ معزز ججوں کی مدت ملازمت میں صرف نو ماہ باقی رہ گئے ہیں تو کون سی ایسی قیامت برپا ہو گئی کہ انہیں ہٹانے کی رٹ لگا دی گئی ہے۔ کوئی بھی ذی شعور جانتا ہے کہ آئین کے تحت الیکشن کمیشن کے ارکان کو ہٹانے کے لئے صرف سپریم جوڈیشل کمیشن سے رجوع کیا جا سکتا ہے۔
اب آتے ہیں اس نئی محاذآرائی سے جڑے انتہائی اہم پہلو کی طرف۔ ایک لمحے کوفرض کر لیں کہ اگر الیکشن کمیشن کے ارکان دباؤ میں آ کر رضا کارانہ طور پر مستعفی ہو جائیں یا ریفرنس دائر ہونے کے بعد سپریم جوڈیشل کونسل ان کے خلاف فیصلہ سنا دے تو فوری طور پر الیکشن کمیشن کی تشکیل کیسے ممکن ہو گی کیوں کہ اس وقت پارلیمنٹ کی انتخابی اصلاحات کمیٹی80 فیصد کام مکمل کر چکی ہے جس میں چیف الیکشن کمشنر اور ارکان الیکشن کمیشن کی تقرری سمیت انقلابی اصلاحات شامل ہیں۔
ایسی صورت میں اگر ان کی تقرری آئین کے تحت کی جاتی ہے تو الیکشن کمیشن کے حوالے سے کی جانے والی انتخابی اصلاحات آئندہ عام انتخابات کے لِئے بے سود ہو جائیں گی۔ اگر کسی کی خواہش پر اس وقت الیکشن کمیشن کی تشکیل کر دی جائے تو انتخابی اصلاحات پر قانون سازی کے بعد کس طرح اسے چند ماہ بعد ہی دوبارہ تحلیل کر کے نیا الیکشن کمیشن قائم کیا جا سکے گا۔ اگر مقصد آئندہ انتخابات کو آزاد اور شفاف بنانا ہی ہے تو تحریک انصاف کو بخوبی آگاہ ہونا چاہئے کہ الیکشن کمیشن آف پاکستان اپنی کمزوریوں اور کوتاہیوں کا اعتراف پوسٹ الیکشن ریویو رپورٹ میں خود کر چکا ہے، اسی رپورٹ میں دی گئی تین سو سے زائد سفارشات کی روشنی میں سال 18-2014 کا اسٹرٹیجک پلان بنا کر 162 اہداف کے حصول کے لئے عمل درآمد شروع کیا جا چکا ہے۔ دھاندلی کی تحقیقات کرنے والے کمیشن کی رپورٹ کی روشنی میں مزید سفارشات تیار کر کے انتخابی اصلاحات کمیٹی کے حوالے کر دی گئی ہیں جن پر قانون سازی کے لئے حتمی شکل دی جا رہی ہے۔ان سفارشات میں الیکشن کمیشن کی انتظامی اور مالی خود مختاری سے لے کر ریٹرننگ افسران سمیت تمام انتخابی عملے کے خلاف انضباطی کارروائی کے اختیارات تک وہ سب کچھ شامل ہے جو عمران خان، تحریک انصاف یا ملک میں شفاف انتخابات کے خواہاں کسی بھی فرد یا ادارے کی خواہش ہو سکتی ہے۔ اس صورتحال میں جب آئندہ الیکشن کو شفاف اور جمہوریت کو مضبوط بنانے کا کام تکمیل کے آخری اورحساس مرحلے میں ہے، وفاقی دارالحکومت سمیت دو صوبوں پنجاب اور سندھ میں بلدیاتی الیکشن کے شیڈول کا اعلان ہو چکا ہے۔ الیکشن کمیشن کو تحلیل کرنے کا مقصد سارے عمل کو پٹری سے اتارنے کے مترادف ہو گا جس کے نتائج بتدریج جڑ پکڑتی جمہوریت کے لئے تباہ کن ہوں گے۔
تازہ ترین