• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
ہادیٔ برحق ﷺنے فرمایا:الخلقُ عیال اللہ ۔ شاعر نے اس کا ترجمہ یوں کیا:
یہ پہلا سبق تھا کتابِ ہدیٰ کا
کہ ہے ساری مخلوق کُنبہ خدا کا
ڈاکٹر سعید اختر نے یہ حدیث کئی بار پڑھی تھی مگر خانہ کعبہ میں سعودی بزرگ سے ملاقات میں اس کے مفہوم و معانی کی وسعت اور گہرائی کا عالم ہی کچھ اور تھا۔ ڈاکٹر صاحب نے جان لیوا بیماریوں کے شکار نادار و بے وسیلہ انسانوں کی زندگیوں کے لئے اپنا منصوبہ بزرگ کے سامنے رکھا اور دُعا کی درخواست کی۔ بزرگ نے مذکورہ بالا حدیث پڑھی اور سلسلۂ کلام جاری رکھتے ہوئے کہا:آپ کسی انسان کے اہل و عیال کی بہتری چاہیں ، ان کے لئے سکون و آسودگی کا اہتمام کریں تو وہ ساری زندگی آپ کا ممنون و شکرگزار رہتا ہے۔ یہاں تو معاملہ اُس قادرومالک کے کنبے کی خیروفلاح کا ہے، تو وہ کیوں نہ اس میں آپ کا مددگار ہوگا۔ وہ اس میں آپ کے لئے آسانیاں پیدا کرتا چلا جائے گا ‘‘اور پھر واقعی رستے کھلتے چلے گئے۔ ڈاکٹر سعید اختر نے اپنا منصوبہ وزیراعلیٰ شہبازشریف کے سامنے رکھا، اس کے ایک ایک پہلو پر بحث ہوئی۔ امریکہ میں تعلیم و تحقیق میں اعلیٰ کارکردگی کے علاوہ ،طبی میدان میں ڈاکٹر سعید کی خدمات بھی متاثر کن تھیں، محض دعوے نہیں، عملی ثبوت بھی۔ اور راستہ کھل گیا، آسانی پیدا ہوگئی۔
صدیوں پہلے ریاست کا وجود عمل میں آیا اور فرد نے اپنے بیشتر حقوق سرنڈر کئے تو اس کے عوض ریاست نے اِسے جان ، مال، عزت و آبرو کے تحفظ کے علاوہ تعلیم اور صحت کی سہولتیں بہم پہنچانے کاذمہ بھی لیا۔ اور پھر جدید عہد کے کارپوریٹ کلچر نے تعلیم اور صحت کو بھی اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ ابھی زیادہ عرصہ نہیں گزرا ، چند عشرے پہلے تک وطنِ عزیز میں تعلیم ریاست کی ذمہ داری تھی۔ ایلیٹ کلاس کے لئے ایچی سن کالج جیسے اِکّا دُکّا اِداروں کے سوا، عوام الناس کے لئے پرائمری سے لے کر اعلیٰ تعلیم تک سرکاری ادارے تھے۔ ان میں پروفیشنل تعلیم و تربیت کے ادارے بھی شامل تھے جہاں معمولی فیس کے ساتھ اعلیٰ تعلیم کا اہتمام ہوتا اور لوئر مڈل کلاس بلکہ غریبوں کے بچے بھی اپنی محنت و صلاحیت کی بنا پر آگے نکل جاتے۔ اب معاملہ اُلٹ ہے۔ بھاری بھر کم فیسوں والے پرائیویٹ تعلیمی اداروں کا تو ذکر ہی کیا، (جنہیں بعض دل جلے ’’ایجوکیشن مافیا‘‘ کا نام بھی دیتے ہیں)بڑے سرکاری اداروں کو بھی یونیورسٹی کا درجہ دے کر ’’اٹانومس‘‘ بنادینے کا نتیجہ یہ نکلا کہ یہاں بھی فیسیں کئی گنا ہوگئی ہیں۔ کمرشل اپروچ نے ان کا تعلیمی معیار بھی متاثر کیا ہے۔
ادھر طبی سہولتوں کا عالم بھی ناگفتہ بہ ہے۔ خادمِ اعلیٰ نے سرکاری اسپتالوں کی ایمرجنسی میں مفت ادویات کی فراہمی کا حکم جاری کیا لیکن سرکاری اسپتال اور ان میں ضروری سہولتیں بڑھتی ہوئی آبادی اور پھیلتی ہوئی بیماریوں کے لئے نہایت ناکافی ہیں۔ مشیرصحت سلمان رفیق ، فرض شناس رفقا کے ساتھ صحت کے شعبہ میں بہتری کیلئے مقدور بھر کوشش کر رہے ہیں۔ پنجاب ہیلتھ فاؤنڈیشن بھی اصلاحِ احوال کے لئے سرگرمِ عمل ہے لیکن اس میں دیگر مسائل کے علاوہ وسائل کی کمی بھی آڑے آجاتی ہے۔
لیکن الحمد للہ پاکستانی سوسائٹی میں اہلِ خیر اور جذبۂ خیر کی کمی نہیں۔ اِن میں دردمند دل رکھنے والے ڈاکٹر بھی ہیں۔ امریکہ میں پاکستانی ڈاکٹر اپنی پیشہ ورانہ قابلیت کی خاص شہرت رکھتے ہیں (اس کے لئے انہیں اپنے اداروں میں ضروری سہولتیں بھی دستیاب ہیں)۔ ہم نے جدہ میں اپنے 12سالہ قیام کے دوران دیکھا، سعودی شہری اپنے علاج کے لئے امریکی (یا یورپی) ڈاکٹروں کے علاوہ پاکستانی ڈاکٹروں کا انتخاب کرتے حالانکہ وہاں دیگر عرب ممالک سے آئے ہوئے ان کے ہم زبان ڈاکٹربھی موجود ہوتے لیکن سعودیوں کی ترجیح پاکستانی ڈاکٹر ہوتے۔شاہ عبداللہ مرحوم کے ذاتی معالج پاکستانی ڈاکٹر جناب غلام اکبر نیازی تھے۔
امریکہ میں چودہ ، پندرہ برس کے بعد ڈاکٹروں کے لئے پیسہ کوئی مسئلہ نہیں رہتا۔ تب اِن میں سے بعض کو وطن کی یادستاتی ہے اور اہلِ وطن کی خدمت کا جذبہ انگڑائی لینے لگتا ہے۔ وہ واپس آکر اسپتال بناتے ہیں لیکن اتنے مہنگے کہ عام آدمی کی سکت سے باہر۔ لیکن ڈاکٹر سعید اختر (اور ان کے رفقا) کی سوچ مختلف تھی۔وہ 30سال قبل امریکہ گئے تھے۔ وہاں کے بہترین اداروں میں تعلیم و تحقیق کے مدارج طے کرنے کے ساتھ انہیں طبی و تعلیمی خدمات انجام دینے کا موقع بھی ملا۔ 15سال قبل، جب وہ ٹیکساس یونیورسٹی کے ہیلتھ سائنسز سینٹر میں یورالوجی ڈیپارٹمنٹ کے چیئرمین کے طور پر خدمات انجام دے رہے تھے ، انہوں نے وطن واپسی کا فیصلہ کیا۔ اسلام آباد کے ایک بڑے اِدارے میں طبی خدمات انجام دیتے ہوئے، انہیں بڑے تلخ مشاہدات کا سامنا ہوا۔ علاج اتنا مہنگا کہ عوام کی بڑی تعداد اس کی متحمل نہیں ہوتی چنانچہ قابلِ علاج مرض بھی، بروقت علاج نہ ہونے کے باعث ناقابلِ علاج ہوجاتا ہے، وہ غریب نوجوان، بروقت علاج نہ ہونے کے باعث کینسر جس کے سارے جسم میں پھیل گیا تھا اور وہ بزرگ خاتون جو دور دراز کے گاؤںسے آئی تھی، اس کے لئے بس کے کرائے کی ادائیگی بھی آسان نہ تھی، اسپتال کی ابتدائی فیس کے لئے بھی اس نے ادھار پیسے لئے تھے اور اب ڈاکٹر صاحب نے اِسے مہنگی دوائیوں کی پرچی تھمادی تھی جس پر اس کی بے بسی آنسوؤں کے ساتھ ایک سسکی میں ڈھل گئی تھی۔ ڈاکٹر سعید اختر نے گردوں(کڈنی) کے امراض کے لئے جدید ترین سہولتوں سے آراستہ انسٹی ٹیوٹ اور ریسرچ سینٹرکے قیام کا فیصلہ کیا جہاں بے وسیلہ لوگوں کا مفت علاج ہو۔ جگر(لیور) کے امراض جناب نوازشریف کی خصوصی توجہ کا مستحق رہے ہیں۔ اپنے گزشتہ دور میں انہوں نے اس کی طرف خصوصی توجہ دی تھی۔اس میں ڈائلیسز کی مفت سہولتیں بھی شامل تھیں۔ پرویز مشرف نے آتے ہی، یہ سب کچھ بند کردیا ۔ اخبار نویس نے پریس کانفرنس میں اس طرف توجہ دِلائی تو ڈکٹیٹر نے رعونت کے ساتھ جواب دیا، یہ آپ کیا معمولی مسئلہ لے بیٹھے۔ ’’حضور! یہ لاکھوں انسانوں کی زندگیوں کا مسئلہ ہے۔‘‘ لیکن ڈکٹیٹر نے سنی اَن سنی کردی تھی۔ شہبازشریف کے اصرار پر ڈاکٹر سعید اختر نے کڈنی کے ساتھ لیور کو بھی شامل کر لیا۔ ایک تحقیق کے مطابق پاکستان میں 40% امراض کاآغاز گردے اور مثانے سے ہوتا ہے، تقریباً ایک کروڑ افراد ہیپاٹائٹس کے مریض ہیں اور WHO کے مطابق اس حوالے سے دُنیا میں پاکستان دوسرے نمبر پر ہے (پہلے نمبر پر مصر ہے)۔ بارہ لاکھ مریضوں کو جگر کی ٹرانسپلاٹیشن کی ضرورت ہے، ان میں 3لاکھ کے لئے یہ ضرورت شدید تر ہے۔
الخلق عیالُ اللہ…اور اللہ اپنے کنبے کے لئے دلِ دردمند رکھنے والوں کے لئے آسانیاں پیدا کرتا چلا جا رہا ہے۔ وزیراعلیٰ نے ڈی ایچ اے فیز VI لاہور سے ملحق نالج سٹی میں اس کے لئے 50ایکڑ (400کنال) زمین عطیہ کی ہے۔ 14اگست کو اس کا سنگ بنیاد بھی رکھ دیا گیا۔ پاکستان کڈنی اینڈ لیور انسٹی ٹیوٹ ریسرچ سینٹر کی رجسٹریشن اور پنجاب اسمبلی سے اس کی توثیق بھی ہوچکی۔ حکومتِ پنجاب کی طرف سے ’’سیڈمنی‘‘ کے طور پر 46 کروڑ 90لاکھ کی منتقلی کے علاوہ رواں مالی سال کے بجٹ میں بھی اس کے لئے 3ارب روپے رکھے گئے ہیں۔ اپنی نوعیت کے اس عظیم الشان منصوبے کے لئے اہلِ خیر کا تعاون بھی درکار ہوگا۔ ڈاکٹر سعید اختر اور ان کے رفقا کو یقین ہے، زکوٰۃ اور صدقات و خیرات میں دُنیا میں پہلے نمبر پر شمار ہونے والے پاکستانی اہلِ خیر انہیں مایوس نہیں کریں گے۔
تازہ ترین