• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
بین الاقوامی سرمایہ دارانہ نظام آزاد معیشت اور مالیاتی منڈیوں کی بڑھتی ہوئی بلا شرکت غیرے طاقت کے خلاف دنیا بھر میں لاکھوں افراد کے ارادے دن بدن زور پکڑ رہے ہیں امریکہ کے شہر نیو یارک سے شروع ہونے والی یہ ’’سوچ‘‘ اب 93 ممالک کے 1102 شہروں میں پھیل چکی ہے ’’وا ل اسٹریٹ پر قبضہ کرو‘‘(occupy wall)کے نام سے شروع ہونے والے مظاہروں میں لاکھوں افراد سرمایہ دارانہ نظام کے خلاف سڑکوں اور گلیوں میں مظاہرے کرتے رہے ہیں مظاہرین حکومت کی جانب سے بچت اسکیموں ، اقدامات اور بینکوں کے خلاف سراپا احتجاج بنے ہوئے ہیں اور یہ ’’بغاوت‘‘ شمالی امریکہ اور یورپ کے بعد اب ایشیاء افریقہ، آسٹریلیا اور جنوبی امریکہ میں بھی پھیل چکی ہے۔
امریکہ میں طبقاتی جدوجہد اور کشمکش نے اتنی شدت اختیار کرلی ہے کہ سوویت یونین کی طرح اس کے بھی بکھر جانے کا ڈراب حقیقت کا روپ دھارنے لگا ہے آج امریکہ سالانہ 3 کھرب ڈالرز کا خسارہ اٹھا رہا ہے اس کی آمدنی اخراجات سے کم ہے اس کے قرضوں کا حجم 150 کھرب ڈالر سے تجاویز کر چکا ہے ابھی چند ماہ قبل امریکی ماہرین نے اوباما کو بتایا تھا کہ عراق و افغانستان کی بے معنی جنگ پر 1280بلین ڈالرز خرچ ہو چکے ہیں تو امریکی صدر کو مزید قرضہ حاصل کرنے کیلئے کانگریس سے ووٹ حاصل کرنا پڑا تھا اس سے نہ صرف امریکی معیشت بلکہ پوری دنیا کا معاشی نظام ایک بھونچال کا شکار ہو گیا تھا لیکن امریکہ کا حکمران طبقہ امریکی معاشرے کے چوٹی کے ایک فیصد خوشحال طبقے پر ٹیکس لگانے کے بجائے عوام ہی کو (جوکہ ننانوے فیصد ہیں) مزید بدحالی ، غربت اور لاچارگی کی طرف دھکیلنے میں مصروف ہے۔ اگر کساد بازاری اور سرمایہ داری سے صرف ایک طبقہ متاثر ہوتا تو شاید صورتحال پر کسی نہ کسی طرح قابو پایا جاسکتا تھا لیکن ’’وال ا سٹریٹ پرقبضہ کرو‘‘ تحریک کی بازگشت اور جدوجہدنہ صرف پورے امریکہ بلکہ دنیا کے 1102شہروں تک سنی جاسکتی ہے ان مظاہرین اور سرمایہ دارانہ نظام کے خلاف تحریک چلانے والوں کا کہنا ہے کہ وہ ان ننا نوے فیصد عوام کی نمائندگی کر رہے ہیں جو ایک فیصد طبقے کے استحصال کے مارے ہوئے ہیں ان کا یہ بھی نعرہ ہے کہ دولت کی غیر منصفانہ تقسیم ، بغیر محنت کےمعاوضہ اور مراعات ، غریبی اور بے روزگاری کے خاتمےکیلئے نہ صرف نظام تبدیل کیا جائے بلکہ امیروں کو زیادہ ٹیکس دینا چاہئے۔
میرے حساب سے سرمایہ دارانہ نظام اپنے بدترین دور میں بھی صرف سرمایہ داروں کا محافظ ہی نظر آتا ہے۔ 2008 میں امریکہ سے جنم لینے والا یہ معاشی بحران آج یورپ کو بھی لپیٹ میں لینے کیلئے پر تول رہا ہے۔ امریکی جنگی جنون کے علاوہ امریکی فنانشل سیکٹر جس میں بینک بروکریج ہائوسز، انوسٹمنٹ کمپنیاں، اسٹاک بروکر فنڈز انشورنس کمپنیاں، میوچل فنڈز اور ریٹنگ کمپنیاں وغیرہ شامل ہیں، اس بحران کے ذمہ دار ٹھہرائے گئے ہیں جنہوں نے زیادہ سے زیادہ استحصال اور فوری فائدے کے حصول کی تگ و دو میں سارے اصول و ضوابط اور ساری اخلاقیات کو بالائے طاق رکھ دیااورسٹے بازی کو باقاعدہ سائنس کی شکل دے دی جہاں ہر ممکن نقصان کے اندیشے یا رسک کو پہلے ہی معلوم کرکے اس کا بندوبست کرلیا جاتا ہے یہاں تک کہ دیوالیہ ہوتے ہوئے بینکاروں اور بڑی بڑی موٹر کمپنیوں کو بچانے کیلئے 787بلین ڈالرز ان کی جیبوں میں ڈال دیئے لیکن ننانوے فیصد شہریوں کا کوئی خیال نہ کیا۔ امریکی حکومت نے اس بحران کے پیدا ہونے کے بعد سب سے پہلے جس چیز کو بچانے کی کوشش کی وہ یہی مندرجہ بالا فنانشل سیکٹر ہے سینکڑوں ارب ڈالر(اندازاـ 805بلین )ان اداروں میں بانٹے گئے تاکہ وہ سنبھل سکیں۔(اور پھر سے استحصال کرسکیں)دلچسپ بات یہ ہے کہ یہ رقم قرض لیکر حاصل کی گئی تھی۔ جس کا سود اور اصل زر اب امریکی عوام کے ٹیکس سے منہا کیا جارہا ہے۔جبکہ قرض دار عوام جن کو مکانات خریدنے کیلئے قرض دیا گیا تھا اور جو قسط وار قرض ادا کررہے ہیں معاشی بحران کی وجہ سے قرض ادا نہ کرسکے تو ان کے مکانات قرق کرکے انہیں سڑک پر لاکھڑا کیا گیا نتیجہ یہ ہوا کہ ان کے سر پر چھت رہی اور نہ پیروں تلے زمین۔ اب انکے پاس سوائے ’’وال اسٹریٹ پر قبضہ کرو‘‘کے سوا کچھ چارہ نہ تھا۔
اس وقت یورپی یونین،امریکا اور دیگر ممالک کی یورپ کے معاشی معاملات پر فکرمندی کی اصل وجہ اٹلی، اسپین، آئس لینڈ، یونان اور آئرلینڈ ہے۔ اٹلی کا اس وقت قرضوں کا حجم 26 کھرب ڈالر ہے۔ یونان کا قصہ بھی کچھ مختلف نہیں۔اس بحران کے سر اٹھانےسے پہلے ہی یونان بجٹ خسارے کا شکار تھا لیکن 2009میں یہ خسارہ بڑھ کر پیداوار کا 15فیصد ہوگیا۔ دوسری طرف اس خسارے کو پورا کرنے کیلئے قرضوں کا سہارا لیا گیا جو آج لگ بھگ 500بلین ڈالر تک پہنچ گیا ہے۔ ان قرضوں پر سود کی ادائیگی کی شرح میں اضافے سے یونان کی معیشت کی بدحالی میں مزید اضافہ ہو اہے۔ 2010 کا معاشی بحران آئی ایم ایف اور یورپی یونین کی 115 بلین ڈالرز کی مالی امداد مل جانے کے باوجود آج بھی شدید دبائو کا شکار ہے کہ اس کے قرض میں 180 فیصد کا اضافہ ہوا ہے۔ معاشی ماہرین کے مطابق اگر کسی ملک کی جی ڈی پی کا 60فیصد حصہ قرض پر مشتمل ہو تو اس معیشت کو مستحکم تصور کیا جاتا ہے مگر یورپی ممالک کی جی ڈی پی کا سو فیصد حصہ قرض کے بوجھ تلے دبا ہوا ہے جبکہ یونان کے قرض میں 180 فیصد اضافہ ہوا ہے۔ اس طرح 2008 میں آئرلینڈ کی حکومت نے ملک میں ’’معاشی بدحالی‘‘ کا اعلان کیا لیکن ابھی قرض کا ڈول نہیں ڈالا گیا تھا۔ اس کے بعد دنیا سے قرض لینے کا سلسلہ شروع ہوا۔ موجودہ سال یعنی 2015کے آتے آتے یہ سلسلہ دراز سے دراز ہوتا گیا اور آج 46لاکھ کی آبادی پر مشتمل یہ ملک 60 ارب ڈالرز کا مقروض ہے۔ وجہ ؟ امریکہ کی امامت میں قائم سرمایہ دارانہ نظام کی اندھی تقلید، پیروڈی، چربہ اور آسان لفظوں میں نقل۔ہر بار مسئلے کے حل کیلئے آخری اجلاس کا نامعقول بہانہ بناکر یورپی یونین پھر سے نئے اجلاس کی دعوت دے دیتی ہے۔ اب تک چار بار ’’چوٹی کانفرنس‘‘ منعقد کی جاچکی ہے جبکہ پانچواں چوٹی اجلاس بلایا جارہا ہے۔ اس اجلاس میں قرض کے بوجھ کو 2020 تک 120 فیصد تک کم کرنے کے موضوع پر غور و خوض ہوگا۔
دنیا میں چین کے بعد سب سے زیادہ زرمبادلہ کا حامل ملک جاپان ہے لیکن اس کا کیا کیجئے کہ مسلسل دو دہائیوں تک مستحکم معیشت کا حامل تصور کیا جانے والا جاپان اب معاشی پریشانی کا شکار نظر آتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جاپانی وزیراعظم کو یہ کہنا پڑا کہ یورپ اور امریکہ کی معاشی پریشانیوں کو ہم ایشیا(جاپان)میں داخل ہونے نہیں دیں گے۔اس کو روکنے کیلئے جن اقدامات کی ضرورت ہے وہ کئے جائیں گے۔ وزیراعظم کے ان الفاظ سے معاشی بحران کی شدت کا بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔ حال ہی میںاخبار میں یہ خبر بھی شائع ہوئی ہے کہ ٹوکیو میں ایک جاپانی نے غربت کے ہاتھوں تنگ آکر اپنی بیوی اور دو بچوں کو قتل کرکے خود کو ہلاک کرلیا۔ میرے حساب سے یورپی یونین کی جانب سے معاشی بحران سے نکلنے کیلئے چین سے امداد کی اپیل کئے جانا اور مغربی دنیا کے عوام کا اپنے حکمرانوں اور خود سرمایہ دارانہ نظام پر اعتماد کا فقدان نظر آنا دراصل مغرب میں معاشی ناہمواری، عدم مساوات اور جنگ و جدل کا نتیجہ ہے اور لوگ زوال پذیر معیشت سے پیدا ہونے والی کساد بازاری، بیروزگاری، غربت اور مہنگائی پر بلبلا کر سڑکوں پر نکل آئے ہیں ، یورپ اور امریکہ میں اعتماد کا بحران پیدا ہوچکا ہے اور مغربی دنیا کے 99 فیصد عوام ’’وال اسٹریٹ پر قبضہ کرو‘‘ جیسی تحریکوں کے ذریعے سرمایہ دارانہ نظام کو مسترد کرچکے ہیں ۔ میں نے کہیں پڑھا ہے کہ سرمایہ دار ہر حال میں برا ہے کہ کوئلہ جب گرم ہوتا ہے تو ہاتھ جلاتا ہے اور ٹھنڈا ہوتا ہے تو ہاتھ کالے کرتا ہے۔
تازہ ترین