• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
آصف زرداری بولے ’’مشرف کی وجہ سے میں نواز شریف کوجِن اور خود کو بونا نہیں بناسکتا ‘‘۔ جنرل حامد جاوید نے بتایا ’’ پرویز مشرف تو وردی اتار کر صدارتی انتخاب میں حصہ لینے پرآمادہ تھے مگر ایک جج صاحب کا ٹیلی فون آگیا ’’ اگر آپ صدارتی الیکشن جیت کر بھی وردی اتارنے کا اعلان کردیں تو بھی بحیثیت صدر آپ کی اہلیت کے مقدمے کا فیصلہ آپ کے حق میں ہوجائے گا ‘‘۔ بے نظیر بھٹو نے صدر مشرف سے کہا کہ ’’ سر انشاء اللہ یکم جنوری کو میں نئے سال کا کیک آپ کے ساتھ کاٹو ں گی‘‘ جنرل علی قلی اکتاہٹ بھرے لہجے میں بولے ’’ میں نے پرویز مشرف جیسا کمزور انسان نہیں دیکھا ‘‘ پرویز الٰہی کا کہنا تھا’’ اگر مشرف وردی میں نہ رہے تو پیپلز پارٹی جیت سکتی ہے ‘‘۔ جنرل مشرف نے کہا ’’صدر بش کے کہنے پر ستمبر 2003میں پہلے سی آئی اے کے ڈائریکٹر جارج ٹینٹ اورپھر اسی سال اکتوبر میں نائب امریکی وزیر خارجہ رچرڈ آرمٹیج نے انہیں ڈاکٹر اے کیوخان کے خلاف ثبوت فراہم کئے‘‘ ۔ جسٹس ناظم صدیقی نے جسٹس افتخار چوہدری کی قبل ازوقت تعیناتی کواپنی بے عزتی قرار دیتے ہوئے یہ بھی بتایا ’’ میرے پاس تو اپنا ذاتی گھر بھی نہیں ہے‘‘۔ جب میں حفیظ پیر زادہ کے دفتر پہنچا تو وہ اُس وقت صدر مشرف کے ممکنہ مواخذے کے دفاع کی تیاری کر رہے تھے اور وفاقی حکومت نے امریکی سفیر کے ذریعے نواز شریف کو پیغام پہنچایا کہ وہ’’ ججز بحالی لانگ مارچ‘‘ میں شریک نہ ہوں‘‘ یہ چند ٹوٹے ’’ایس ایم ظفر کی کہانی ان کی اپنی زبانی ‘‘ سے لئے ہیں گو کہ 880صفحات کی اس کتاب میں،پڑھنے کے لائق تو بمشکل 100صفحات ہی مگر پھر بھی ایوب دور کے وزیر اور مشرف کے زمانے میں سینیٹر رہ چکے ایس ایم ظفر کی یہ کتاب جہاں چڑھتے سورجوں کی’’میں میں‘‘ کی کہانی ہے وہاں بدلتے موسموں میں مٹومٹی ہوتی اسی ’’میں میں ‘‘ کی داستان بھی ہے۔
اسی کتاب سے معلوم ہوا کہ ججز سے تنگ زرداری صاحب ایک میٹنگ میں بالآخر پھٹ پڑے کہ’’ اب ہر جج کے ریکارڈ کی چھان بین ہو گی کیونکہ انہی جج صاحبان کی موجودگی میں مجھے 9سال جیل میں گزارنے پڑے‘‘۔ اسی کتاب سے یہ بھی پتا چلا کہ آصف زرداری چوہدری شجاعت کے صدارت چھوڑنے پر ق لیگ( جسے وہ قاتل لیگ کہہ چکے تھے) سے بھی اتحاد پر راضی تھے ، یہی کتاب بتائے کہ ایک طرف جس دن آصف زرداری مری میں نواز لیگ کے ساتھ ’’میثاق جمہوریت ڈیکلریشن‘‘ پر دستخط کررہے تھے تو دوسری طرف اُسی شام اُنہوں نے اپنے موبائل سے طارق عزیز کو یہ میسج ’’آپ فکر نہ کریں ‘‘ کر کے مشرف کیمپ کو بھی ٹرک کی بتی کے پیچھے لگایا ہوا تھا ، اسی کتاب میں ہے طارق عزیز جو شروع شروع میں یہ کہا کرتے تھے کہ ’’آصف زرداری پر بھروسہ کیا جا سکتا ہے‘‘ مگر جب زرداری صاحب نے مشرف کو گھمن گھیر یوں میں ڈالا تو یہی طارق عزیز کہہ اٹھے ’’سیاستدانوں پر اعتمادکرنا بہت بڑی غلطی ہوتا ہے ‘‘۔ اور پھر ایس ایم ظفر کی اسی کتاب میں یہ بھی پڑھنے کو مِلا چوہدری ظہور الٰہی کے منہ بولے بیٹے اورچوہدری شجاعت اور پرویز الٰہی کے سگے بھائیوں جیسے طارق عزیز کو مفاداتی سیاست اُس موڑ پرلے آئی کہ انہیں ایک دن ایس ایم ظفر سے کہنا پڑا کہ’’ پلیز ابھی جا کر چوہدری صاحبان سے کہیں کہ یوں ساتھ نہ چھوڑیں یہی تو وقت ہے مشرف کا ساتھ دینے کا‘‘۔
اپنی اس کتاب میں جہاں ایس ایم ظفر یہ لکھتے ہیں کہ ایک شام سگار کا دھواں چوہدری شجاعت کی طرف پھینک کر مشرف بولے’’اگر آپ مسلم لیگ کی صدارت چھوڑ دیں تو مسلم لیگ کے لئے بہت کچھ کیا جاسکتا ہے ‘‘جہاں جنرل حامد جاوید انہیں بتاتے ہیں کہ ’’وہ لندن میں بے نظیر بھٹو سے دو مرتبہ ملے‘‘۔ وہاں ایس ایم ظفر نے سابق امریکی وزیر خارجہ کو نڈولیزارائس کی آپ بیتی سے وہ چندلائنیں بھی لیں کہ جس کے مطابق امریکی وزیر خارجہ کا کہناتھا ’’میں نے ٹیلی فون پر مشرف اور بے نظیر بھٹو کو بہت سمجھایا مگر دونوں ایک لمحے کے لئے بھی ایک دوسرے پر اعتبار کرنے کو تیار نہ تھے لیکن آخرکار کئی دنوں کے بعد میری کوششیں رنگ لائیں اور پہلے مشرف راضی ہوئے اور پھر بی بی نے بھی اس شرط کے ساتھ تعاون کی حامی بھر لی۔ امریکہ کی ضمانت پر میں مشرف پر اعتبار کر سکتی ہوں ‘‘۔ اپنی اسی کتاب میں ایس ایم ظفر نے یہ بھی لکھا ’’بے شک جناح ایک جمہوری قائد تھے لیکن وہ جس آئین کے ذریعے نظامِ حکومت چلا تے رہے وہ غیر جمہوری تھا‘‘ اور انہوں نے یہ بھی بتایا’’ 1927میں محمد شفیع اور علامہ اقبال نے قائداعظم کی آل انڈیا مسلم لیگ سے نکل کر اپنی علیحدہ مسلم لیگ بنا لی اور یوں ایک عرصے تک مسلم لیگ جناح اور شفیع دودھڑوں میں بٹی رہی ‘‘۔ یہ تو صرف چند ٹوٹے تھے اس کتاب میں اور بھی بہت کچھ ہے مگر یقین کریں اقتدار واختیار کیلئے 24 گھنٹے سربسجود مفاداتی ٹولے کا ہر کارنامہ ہی ایسا کہ شرمندگی ہی شرمندگی اور ندامت ہی ندامت !
اپنے ہاں تو واقعی یہ کہاوت حرف بہ حرف سچ لگے کہ قائدین کی بہتات کا مطلب قیادت کا فقدان کیونکہ ہر رہنما کی اپنی سمت اور اپنا شعور ، اپنی بیماریاں اور اپنا علاج اور یوں نہ صرف راستہ مشکل، وحدتِ مقصد ختم، قوم تقسیم اور منزل دوربلکہ کشتی ہمیشہ منجدھار میں، اپنے ہاں طلسماتِ رہبری تو دیکھئے کہ ایک طرف اسلام کے نفاذ کی کوششیں تو دوسری طرف گورا صاحب کے نظام کیلئے جدوجہد اور ایک طرف انتخاب کے بل بوتے پر ترقی کی باتیں اور دوسری طرف احتساب کے زور پر انقلاب کے خواب مگر حقیقت یہ کہ نہ پہلے کبھی کچھ ہوا اور نہ آئندہ کچھ ہوگا کیونکہ یہاں کے سب مگرمچھ یہ جانتے ہیں کہ اسی کنفیوژن میں ہی ان کی بقاء، اور پھر اُس ملک میں بھلا کچھ اچھا ہو بھی کیسے سکتا ہے کہ جہاں کا نعت خواں لٹیروں کا فرنٹ مین بن کر 80 کروڑ ہنڈی کے ذریعے بیرونِ ملک بھجوا دے، جہاں قبروں میں لٹکے بابے جعلی پنشنر بن کر ماہانہ ایک ارب سے بھی زیادہ کھا جائیں، جہاں ہلالِ امتیاز یافتہ میگا کرپشن اسکینڈل کا حصہ ہو، جہاں پرائڈ آف پرفارمنس زیرِ حراست ، جہاں تمغہ ء امتیاز لینے والا اشتہاری ، جہاں مدارس کی رجسٹریشن وزارتِ انڈسٹری کرے اور جہاں کا قانون ایسا کہ دو بااختیار شوقینوں کی خاطر چند گھنٹوں کے لئے اسلحہ لائسنسوں سے پابندی اٹھے اور انہیں لائسنس ملتے ہی یہ پابندی پھر سے لاگو ہو جائے۔وہاں جو ہوسکتا ہے اور جو ہوتا ہے وہ آپ ایس ایم ظفر کی زبانی ہی سن لیں ’’ایک طرف بے بس مشرف فوج پربھروسہ کئے بیٹھے تھے لیکن دوسری طرف حال یہ تھا کہ ایک میٹنگ میں جنرل ندیم تاج کے منہ سے اچانک نکل گیا ’’ پتا نہیں جنرل مشرف کب خوش فہمیوں سے نکلیں گے ‘‘ اورجن دنوں ’’ صدارت بچائو مہم‘‘ میں مشرف کی امیدوں کا واحد مرکز جنرل کیانی تھے تو انہی دنوں ایک شام جنرل کیانی نے مجھے آرمی ہائوس بلایا، مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ شلوار کُرتے میں ملبوس آرمی چیف علیک سلیک کے بعد صوفے پر بیٹھتے ہی بولے ’’میں پیچیدہ باتوں کا قائل نہیں ، صاف اور کھری بات کروں گا آپ کو زحمت اس لئے دی ہے کہ مشورہ لے سکوں کہ صدر مشرف کا EXIT FORMULA کیا ہونا چاہئے‘‘اور یہ بھی ایس ایم ظفر ہی بتاتے ہیں کہ ’’جونہی صدر مشرف نے استعفیٰ دے کر اپنی تقریر ختم کی تو چوہدری ہاؤس میں بیٹھے وہ تمام رہنما جن کا کل تک قبلہ و کعبہ مشرف تھا وہ اس وقت ہر برائی مشرف کے کھاتے میں ڈال رہے تھے‘‘۔
تازہ ترین