• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
نظام تعلیم، معیار تعلیم، نصاب تعلیم ایسے موضوعات ہیں جن پر ہر حکومت نے زور دیا ہے۔ پاکستان میں سب سے پہلی آل پاکستان کانفرنس تعلیم ہی کے موضوع پر ہوئی جس کو قائداعظم کا پیغام ملا۔ 67؍سال گزر جانے کے باوجود ہم نا معلوم صحرائوں میں بھٹک رہے ہیں۔ اوسط خواندگی بڑھنے کے بجائے گھٹ رہی ہے۔ ملک میں سرکاری اور نجی 135؍یونیورسٹیوں کے قیام کے باوجود کالجوں کا معیار تعلیم قابل فخر نہیں، عالمی 100؍یونیورسٹیوں میں ہماری کوئی یونیورسٹی شامل نہیں۔ بہ قول ڈاکٹر شاہد حسن صدیقی ’’60؍لاکھ بچّے مدرسوں سے باہر ہیں۔ پاکستان میں صرف 0.52فیصد بچّے ووکیشنل تعلیم حاصل کر رہے ہیں جبکہ عالمی اوسط 16؍ہے۔‘‘
پچھلے کالم میں انٹر کے 50؍فیصد نتائج کا ذکر کیا گیا تھا کہ بچّوں کے والدین ان کے فیل ہونے کے مالی اثرات برداشت نہیں کر سکتے، وہ جو کم آمدنی کی بہ دولت اپنا اور گھر والوں کا پیٹ کاٹ کر ان کی فیس دیتے ہیں نیز ایک سال کا وقفہ نوجوانوں کی عمر میں بھی تبدیلی پیدا کر دیتا ہے۔ آج میں سیکنڈری ہائر اسکولوں اور انٹر کالجوں کے متعلق کچھ عرض کرنا چاہتا ہوں۔ ایف اے اور ایف ایس سی وہ اہم امتحانات ہیں جن کی کامیابی کے بعد امیدوار میڈیکل، انجینئرنگ یا کسی اور شعبے میں داخلہ لے سکتا ہے۔ اس میں صوبائی اور نجی دونوں قسم کے کالج شامل ہیں۔ اس 19/18لاکھ والے شہر میں ایسے کالج بھی ہیں جہاں صرف ایک طالبعلم کا نام رجسٹر میں لکھا ہوتا ہے اور وہ بھی اساتذہ کی نظرکرم سے محروم ہو کر امتحان میں کامیابی حاصل نہیں کر سکتا۔ کراچی کے بعض کالجوں میں نتائج کا اوسط مسلسل گھٹ رہا ہے۔ اس سال انٹرمیڈیٹ بورڈ نے اس خامی کو پکڑا۔ ان میں پری میڈیکل، پری انجینئرنگ اور جنرل سائنس کے امتحانات تھے۔ بورڈ نے ان کالجوں کی ایک فہرست بنائی جن کے نتائج 33؍فیصد کم رہے۔
اب ان کا خصوصی معائنہ کیا جائے گا اور اسٹاف کی کارگزاری اور تدریس کے معیار کی جانچ کی جائے گی۔ تعلیمی اداروں کو تین درجات میں تقسیم کیا گیا ہے۔ اس سال 63؍گورنمنٹ کالجوں، 15؍سرکاری ہائر سیکنڈری اسکول اور 36؍نجی ادارے ایسے تھے جن کا ’’پاس‘‘ اوسط پری میڈیکل میں 33؍فیصد سے کم رہا۔ پری انجینئرنگ میں 52 سرکاری کالج، 15ہائر سیکنڈری اسکول اور 44 نجی ادارے تھے۔ جنرل سائنس میں 10گورنمنٹ اسکول، ایک سیکنڈری ہائی اسکول، 25نجی اسکول شامل تھے۔ بورڈ کا چیئرمین ان کے خلاف کارروائی کرسکتا ہے۔ معمولی سزا یہ ہے کہ ان کو متنبہ کیا جائے اور زیادہ سے زیادہ ان کا بورڈ سے الحاق ختم کردیا جائے۔ اس تجزیے سے ایک بات کا پتہ چلا کہ یہ جو مشہور ہے کہ نجی اسکول، سرکاری اسکولوں سے اچھے ہوتے ہیں، یہ غلط ثابت ہوا لیکن الحاق ختم کرنے سے طالبعلموں کا جو نقصان ہوگا اس کی تلافی کیسے ہوگی؟ بورڈ کے چیئرمین نے اس کا جواب دیا کہ ہم طلبا کے مفاد کو نقصان پہنچانا نہیں چاہتے۔ ان اسکولوں اور کالجوں کا معائنہ فوری بنیاد پر کیا جائے گا اور 6؍ستمبر تک رپورٹ تیار کر لی جائے گی۔
ان کالجوں میں 12؍کالج ایسے تھے جن کے نتائج صفر فیصد رہے، 4؍تعلیمی اداروں نے 10؍فیصد سے کم نمبر حاصل کئے۔ کم نتائج والے نجی کالجوں کے نام بڑے شاندار ہیں جیسے دی کالج آف کمپیوٹر، امریکن کالج، غزالی گرامر ہائر سیکنڈری اسکول، پاک ترک انٹرنیشنل اسکول وغیرہ۔ لاہور جہاں 8؍سرکاری اور 14؍نجی یونیورسٹیاں موجود ہیں، وہاں ایک نئی یونیورسٹی کا اشتہار اخبار میں شائع ہوا ہے اور اس کو پنجاب ہائر ایجوکیشن کمیشن نے اجازت نامہ بھی دے دیا ہے جبکہ اس میں کمپیوٹر، بزنس، بزنس منیجمینٹ اور مشرقی ادویہ کے شعبے ہوں گے۔ اس نے پروفیسروں، ایسوسی ایٹ پروفیسروں، لیکچراروں، رجسٹرار، ڈپٹی رجسٹرار کی درخواستیں طلب کی ہیں۔ عملے کی تعلیمی لیاقت اور تجربہ معلوم کئے بغیر اجازت دینا ایک افسانہ ہی معلوم ہوتا ہے۔
جہاں تک ہمارے تعلیمی معیار کا تعلق ہے تو گزشتہ ایک کالم ’’جنگ‘‘ میں شائع ہوا جس میں ایک انٹر پاس لڑکے کا ذکر تھا۔ وہ جب ملازمت کیلئے انٹرویو پر گیا تو انگریزی میں سوالات پر سٹپٹا گیا اور کہا کہ میں انگریزی بھول گیا وہ اردو میں بھی درخواست نہ لکھ سکا۔ اسی مضمون کا ایک کالم انگریزی اخبار میں شائع ہوا ہے جس کا عنوان تھا:
"Even after 12 years of education was barely literate."
پنجاب میں جو انگریزی پرائمری کلاسوں سے شروع کی جا رہی ہے اس کے اساتذہ کا کیا حال ہے۔ میڈیم انگریزی ہو یا اردو معیاری ہونا چاہئے ورنہ ملک کو اربوں روپے کا نقصان ہوگا۔ وفاقی وزیر برائے منصوبہ بندی و ترقی نے جامعہ کراچی میں کیمیائی اور حیاتی علوم کے ریسرچ سینٹر کی افتتاحی تقریر میں کہا ’’اگلے دس سال میں حکومت کو دس ہزار پی ایچ ڈیز درکار ہوں گے جو وژن 2025 کو شرمندۂ تعبیر کریں گے اور کراچی امن کا گہوارہ اور علم کا کاریڈور بن جائے گا۔
تازہ ترین