• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
یہ پہلی مرتبہ نہیںہو رہا کہ جمہوری حکمرانوں کی نااہلی اور کرپشن یا کسی دوسری وجہ سے جمہوریت ناکام ہوئی ہو ۔404 قبل مسیح کے وہ مناظر تاریخ میں محفوظ ہیں ، جب ’’ پیلو پونیشیائی ‘‘ جنگ کے باعث یونان تباہ ہو گیا تھا ۔ بھوک ، افلاس ، بیماریوں اور سیاسی انتشار کے باعث لوگ جمہوریت سے اکتا گئے تھے اور اشرافیہ کے ایک گروہ نے کریٹیاس ( Critias ) نامی ایک شخص کی زیر قیادت ایتھنز میں مطلق العنان حکومت قائم کی ۔ ’’ کریٹیاس ‘‘ ایتھنز شہر میں داخل ہوا تو لوگوں نے اس کا پرتپاک استقبال کیا ۔ یہ حکومت ایک سخت گیر ’’ 30 کی مجلس ‘‘ چلاتی تھی ۔ اس مجلس نے کڑے احتساب کے نام پر انتہائی متشدد کارروائیاں کیں ۔ جمہوریت پسندوں کو چن چن کر قتل کیا گیا ۔ ایتھنز میں لوگوں کا مجمع لگایا جاتا تھا اور اس میں جمہوریت پسندوں کو سر عام موت کی سزا دی جاتی تھی ۔ مجلس کا خیال یہ تھا کہ لوگ جمہوریت پسندوں سے نفرت کرتے ہیں ۔ اس لیے وہ ان سزاؤں پر خوش ہوں گے ۔ تقریباً ڈیڑھ ہزار جمہوریت پسندوں کو موت کے گھاٹ اتارا گیا ۔ تقریباً 15 ہزار جمہوریت پسندوں کو جلا وطن کیا گیا ۔ ’’30 کی مجلس ‘‘ کو یقین ہو گیا تھا کہ ایتھنز کو کرپٹ اور نااہل جمہوریت پسندوں سے پاک کر دیا گیا ہے لیکن ٹھیک ایک سال کے بعد ایسا بحران پیدا ہوا کہ عوام کے ساتھ ساتھ اشرافیہ کے لوگ بھی جمہوریت کی خامیاں اور کوتاہیاں بھول گئے ۔ جب تھریسی بیولس ( Thrasybulus ) نامی نوجوان کی قیادت میں جمہوریت پسندوں کا مسلح دستہ کریٹیاس کو شکست دے کر ایتھنز میں داخل ہوا تو لوگوں نے اس کا کریٹیاس سے زیادہ بھرپور طریقے سے استقبال کیا ۔ تھریسی بیولس نے دوبارہ ایتھنز میں جمہوریت بحال کی ۔ یہ جمہوریت پسندوں کا ردعمل اس قدر متشدد تھا کہ انہوں نے سقراط کو موت کی سزا سنا دی ۔ ان جمہوریت پسندوں کے خیال میں سقراط نے ایتھنز کے پڑھے لکھے لوگوں کا جمہوریت پر یقین متزلزل کر دیا تھا ۔
تاریخ کےیہ واقعات عہد نو کی جمہوریت کے رائج ہونے سے بہت پہلے کے ہیں ۔ ہمارے عہد کی جمہوریت کو ’’ سرمایہ دارانہ جمہوریت ‘‘سے موسوم کیا جاتاہے ۔ سرمایہ دارانہ نظام سے بہت پہلے انسانوں میں ایک جمہوری معاشرہ قائم کرنے کی امنگیں پیدا ہو چکی تھیں ۔ جمہوریت سے آگے بڑھ کر اشتراکی سماج کی تشکیل کی خواہش بھی انسان کی بہت پرانی خواہش ہے ۔ جمہوریت رائج ہوتی رہی ، جمہوریت ناکام ہوتی رہی اور پھر جمہوریت بحال ہوتی رہی ۔ تاریخ میں یہ سلسلہ چلتا رہا ۔ یہاں تک کہ انسان سرمایہ دارانہ جمہوریت کے دور میں داخل ہوا ۔ سرمایہ دارانہ نظام تاریخ انسانی کا بدترین استحصالی نظام ہے ، جس نے نو آبادیاتی اور سامراجی نظاموں کے بطن سے جنم لیا ۔ یہ نظام استحصال ، جنگوں ، انتشار اور خونریزی کی بنیاد پر قائم رہتا ہے لیکن اسی سرمایہ دارانہ نظام سے دولت سمیٹنے والی اشرافیہ نے تاریخی تجربات کے پیش نظر یہ فیصلہ کیا کہ جمہوریت کے ذریعہ حکومتیں چلائی جائیں کیونکہ چرچ یا فوج کی طاقت سے مطلق العنان حکومتیں چلانا ممکن نہیں رہا ۔ بدترین معاشی استحصال میں جمہوریت نہ ہو تو انتشار ، تباہی یا انقلاب کے امکانات بڑھ جاتے ہیں ۔ عوام میں مقبولیت کے لحاظ سے ہٹلر سے زیادہ تاریخ میں کوئی مقبول فوجی جرنیل نہیں رہا لیکن جرمنی کے ٹکڑے ہونے کے بعد مغربی جرمنی کے عوام نے اپنے نئے آئین کا پہلا فقرہ یہ لکھا ’’ آمریت کبھی نہیں ‘‘ ۔ سرمایہ دارانہ جمہوریت کو اگرچہ اس نظام کے استحصالی اور استبدادی گروہ کی ایک چالاکی قرار دیا جا رہا ہے لیکن یہ حقیقت ہے کہ جمہوریت انسان کی بہت پرانی خواہش تھی اور اس سے ہی تاریخ کا پرامن ارتقاء ہوتاہے ۔ بدترین جمہوریت کو بھی بہترین آمریت سے اچھا قرار دیا جاتا ہے ۔
پاکستان میں ایک بار نہیں ، باربار جمہوریت ناکام ہوئی ہے ۔ آج پھر ایسے حالات پیدا ہو گئے ہیں کہ جمہوریت خطرات سے دوچار ہے۔یہ بات زبان زدعام ہے کہ سیاست دانوں خصوصاًجمہوری حکمرانوں کو عوام کی کوئی پروا نہیں ہے اور وہ اپنا مال بنانے میں مصروف ہیں ۔ سیاست دانوں کے بارے میں یہ تاثر بھی عام ہے کہ وہ دہشت گردی کو کنٹرول کرنے اور لوگوں کو جان و مال کا تحفظ فراہم کرنے میں بھی ناکام رہے ہیں ۔ دہشت گردی کے خلاف نیشنل ایکشن پلان کے تحت فوج اور دیگر سکیورٹی اداروں نے جو کارروائیاں کی ہیں ، انہیں بھی عوامی سطح پر بہت سراہا جا رہا ہے ۔ دہشت گردوں کے مدد گاروں اور سہولت کاروں کے خلاف بھی کارروائیاں ہو رہی ہیں ، جنہیں کرپشن کے خلاف کارروائیاں تصور کیا جا رہا ہے ۔ بعض کارروائیوں کے بارے میں وفاقی اور صوبائی حکومتوں کو بھی علم نہیں ہوتا ہے ۔ کچھ حلقوں کا یہ خیال ہے کہ جمہوری حکومتیں صرف نام کی رہ گئی ہیں ۔ اس کے باوجود ان کارروائیوں پر بھی لوگ خوش ہیں ۔ پاک فوج کے سربراہ جنرل راحیل شریف کو عوام میں زبردست مقبولیت حاصل ہو رہی ہے ۔ یہ ایسے حقائق ہیں ، جنہیں جھٹلایا نہیں جا سکتا لیکن وقت کے ساتھ ساتھ حقائق بھی تبدیل ہوتے ہیں ۔ سیاست دانوں پر کرپشن کے جو الزامات لگ رہے ہیں ، کوئی بھی شخص ان کا دفاع نہیں کرے گا اور نہ ہی ان الزامات کا اس وقت تک دفاع کرنے کا کوئی اخلاقی جواز موجود ہے ، جب تک کہ سیاست دان خود اپنے آپ کو احتساب کے عمل میں بے گناہ ثابت نہ کر دیں لیکن جمہوریت کا دفاع اس وقت بھی لوگوں نے کیا ، جب جمہوریت پسندوں کی سزا صرف موت ہوتی تھی ۔ جمہوریت کے دفاع کا ہرعہد میں تاریخی ، اخلاقی اور معروضی جواز موجود ہوتا ہے ۔ سقراط پر بھی کچھ لوگ اس لیے ناراض ہوئے کہ اس نے جمہوریت پر لوگوں کا یقین متزلزل کیا تھا ۔ کرپشن بہت بڑا جرم ہے ۔ میرے خیال میں اگر عوام کے نمائندے کرپشن کریں گے اور دولت کے انبار لگانے میں مصروف ہو جائیں تو وہ ناقابل معافی ہیں لیکن احتساب کا ایک مضبوط نظام ہونا چاہیے ، جو جمہوری نظام کا لازمی حصہ ہو ۔ ’’30 کی مجلس ‘‘ احتساب کے ایک آزادانہ اور مضبوط ادارے کا متبادل نہیں ہے ۔ دہشت گردی کے خاتمے کےلیے بھی ایک مضبوط نظام جمہوری نظام کا حصہ ہو ۔ جب تک سیاسی عمل کے ذریعہ دہشت گردی اور کرپشن کا خاتمہ نہیں ہو گا ، تب تک نہ دہشت گردی ختم ہو گی اور نہ کرپشن ۔ اس بحث میں نہیں پڑتے کہ دہشت گردی اور کرپشن کی پشت پناہی کن قوتوں نے کی لیکن یہ حقیقت ہے کہ دہشت گردی کے خلاف نیشنل ایکشن پلان کی منظوری سیاسی قوتوں نے آل پارٹیز کانفرنس میں دی اور سیکورٹی اداروں کو مینڈیٹ بھی سیاسی قوتوں نے دیا ۔ سیاسی مینڈیٹ کے بغیر جب بھی کارروائی کی گئی ، وہ ناکام ہوئی ۔ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ پاکستان ایک وفاق اور کثیر القومی مملکت ہے ۔ اس وقت سیاسی طورپر سب سے کمزور حکومت بلوچستان کی ہے ۔ اگلے روز بلوچستان کے عظیم سیاست دان میر غوث بخش بزنجو کی برسی کراچی میں منائی گئی ۔ برسی کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے بلوچستان کے وزیر اعلیٰ ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ نے یہ بات کہہ دی ہے کہ اب اگر جمہوری نظام کو ختم کیا گیا تو بلوچستان کے لوگ غیر جمہوری قوتوں کے خلاف ڈٹ جائیں گے ۔ ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ نے شاید اس تاریخی تناظر میں بات کی ہے کہ جمہوری قوتوں کو بے اثر کرنے سے پہلے ہی ملک کو بہت نقصان ہو چکا ہے ۔ موجودہ حالات میں مجھے بھی ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ کی تشویش میں صرف حصہ دار بننا ہے ۔ اس کے باوجود اگر جمہوریت ناکام ہوتی ہے تو تاریخ میں یہ پہلی مرتبہ نہیں ہو رہا ۔ ہر جمہوریت کی ناکامی کے بعد جو کچھ قوموں کے ساتھ ہوتا رہا ہے ، وہ بھی تاریخ کا حصہ ہے ۔
تازہ ترین