• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
دور فلک جب دہراتا ہے موسم گل کی راتوں کو
کنج قفس میں سن لیتے ہیں بھولی بسری باتوں کو
میخانے کا افسردہ ماحول تو یونہی رہنا ہے
خشک لبوں کی خیر منائو کچھ نہ کہو برساتوں کو
(ناصر کاظمی)
اس ہفتے کی سب سے بڑی اور بری خبر بیرسٹر عبدالحفیظ پیرزادہ کی اس دارفانی سے روانگی کی تھی۔ حفیظ پیرزادہ صاحب ہمارے آئین 73ء کے مصنف ہیں۔ وفاقی وزیر اور ایم این اے رہ چکے ہیں اس کے علاوہ انتہائی کامیاب وکیل کی حیثیت سے انہوں نے اپنا لوہا منوایا ہے اور بے شمار کیسوں میں سپریم کورٹ اور ہائی کورٹ میں اپنی قابلیت کے جوہر دکھائے ہیں۔ خدا انہیں اپنے جوار رحمت میں جگہ دے اور ان کے پسماندگان کو صبر جمیل عطا فرمائے۔ یہ فانی دنیا ہے اور سب نے چلے جانا ہے کوئی جلد اور کوئی بدیر لیکن اچھے لوگ اپنی روانگی کے وقت اپنے پیچھے اپنے اچھے کارناموں اور یادوں کے خرانے چھوڑ جاتے ہیں۔ پیرزادہ صاحب کا شمار بھی ایسے ہی لوگوں میں ہوتا ہے۔ وہ پیپلز پارٹی کے بانی ممبر اور ذوالفقار علی بھٹو کے بااعتماد ساتھی تھے۔ پھر آہستہ آہستہ پیپلز پارٹی کی سیاست سے دور ہوگئے اور اب آخر میں تو ساری توجہ اپنی وکالت کو دے رہے تھے۔ ان کی وفات پر چند چینلز نے ان کی یاد میں پروگرام بھی نشر کئے اور اخبارات نے ان کی وفات کی خبر صفحہ اول پر جلی حروف میں لگائی۔ وہ ایک کامیاب وکیل اور بڑے پائے کے سیاستدان ہونے کے علاوہ اپنی سوشل زندگی میں بڑی باغ و بہار طبیعت کے مالک تھے۔ مجھے ان کے ساتھ ڈنر میں شریک ہونے کا اتفاق ہوا ہے آخری دو ڈنر تو ہم نے لندن میں بریگیڈیئر نیاز کے گھر پر سابق صدر جنرل پرویز مشرف کیساتھ کئے۔ اب بریگیڈیئر نیاز بھی اس دنیا میں نہیں ہیں مگر پرانی محفلوں کی یادیں باقی ہیں۔ سندھ ہائیکورٹ میں ان کی وفات کی خبر سن کر انہیں خراج عقیدت پیش کرنے کیلئے کام معطل کردیاگیا۔ یہ ایک خوش آئند بات ہے وہ اس اعزاز کے حقدار تھے۔ ڈاکٹر عاصم کو دی جانے والی خوراک کا مینو رینجرز کی طرف سے کسی چینل نے بتایا جس میں جوس سے لیکر سویٹ ڈش تک کے تمام آئٹم شامل ہیں۔ اس مینو کو دیکھ کر کافی لوگ رینجرز کی حراست میں جانے کیلئے تیار ہیں خاص طور پر جبکہ دو نرسیں اور دو ڈاکٹر بھی دیکھ بھال کررہے ہوں۔ ایسے حالات میں قید کاٹنے کا ایک اپنا ہی مزہ ہے جس کیلئے کافی بے روزگار لوگ ترس رہے ہیں۔ باقی خوفزدہ وزراء اور بیورو کریٹس پر اس مینو کا کوئی اثر نہیں ہوا۔ وہ یا تو روپوش ہونے کی ٹھان رہے ہیں یا ملک سے باہر نکلنے کے مختلف آپشنزدیکھ رہے ہیں کہ کس راستے سے جائیں۔ ماضی قریب میں تو کافی لوگ مکمل پروٹوکول کے ساتھ باہر گئے تھے مگر اب ڈاکٹر عاصم کی گرفتاری کے بعد فضائی راستے سے بدعنوان لوگوں کا جانا مشکل ہوگیا ہے اور ان کی پریشانیوں میں اضافہ ہورہا ہے۔
لوگ رینجرز کے چھاپوں سے بے حد خوش ہیں اور ہر وقت مزید چھاپوں کی بریکنگ نیوز سننے کیلئے ٹی وی سے چپکے بیٹھے ہیں۔ اگر ایک دن خبر نہ آئے تو لوگ بڑی جلدی مایوس ہوجاتے ہیں۔ 90دن کے ریمانڈ میں گئے ہوئے چند لوگ چھوڑ بھی دئیے گئے ہیں۔ پہلے گرفتاری پر جوش و خروش سے بریکنگ نیوز آتی ہے۔ مگر چھوڑتے وقت کسی کو کانوں کان خبر نہیں ملتی۔ یہ عمل تشویشناک ہے اگرچہ اس وقت لوگوں کو رینجرز اور وفاقی اداروں پر مکمل اعتماد ہے لیکن رہائی سوالیہ نشان بن جاتی ہے جس کا جواب دینا مشکل ہی نہیں ناممکن بھی ہے۔ اگرچہ وفاقی اور صوبائی حکومت بضد ہیں کہ وہ اپنی مرضی سے آزادانہ طور پر حکومتی امور نمٹا رہی ہیں مگر دیکھنے سے صاف ظاہر ہے کہ فوٹو کھینچوانے کیلئے موجودہ حکمران ہیں جبکہ کام کرنے والے لوگ کوئی اور ہیں۔ ڈاکٹر عاصم کی گرفتاری کے بعد وزیر اعلیٰ قائم علی شاہ کے بیانات کہ انہیں اعتماد میں نہیں لیا گیا ریکارڈ پر ہیں مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ حکومتی عہدیداروں کو اگر اعتماد میں لیا جائے تو یہ ٹارگٹ کو پہلے سے بتا دیں گے اور ٹارگٹ ریڈ سے پہلے ہی غائب ہوجائے گا۔ یہی وجہ ہے کہ انفارمیشن اور مشن کو اس کی کامیابی سے پہلے مکمل طور پر راز میں رکھا جاتا ہے اور کامیاب ہوتے ہی بریکنگ نیوز آ جاتی ہے۔ کام کی رفتار اگرچہ کافی سست ہے مگر صحیح سمت میں جاری ہے۔ اب اگر اسے ادھورا چھوڑا گیا تو پھر کبھی بھی کامیابی نہیں ہوگی اور ہمیں اسی نظام کے تحت جینا پڑے گا۔ جو لوگ اربوں روپیہ لیکر ملک سے باہر جاکر بیٹھ گئے ہیں انہیں واپس لانے کیلئے ابھی تک کوئی مثبت اقدامات نہیں کئے گئے۔ اگرچہ ایڈیشنل ڈائریکٹر ایف آئی اے جاوید اکبر ریاض صاحب کا کہنا ہے کہ اگر حکومت کسی شخص کو باہر ملک سے گرفتار کرکے لانا چاہے تو یہ کوئی مشکل کام نہیں۔ شاہ رخ جتوئی اور توقیر صادق کے کیسوں کو انہوں نے پراسس کیا تھا۔ دونوں ملزمان پاکستان پہنچ گئے اور ابھی تک پابند سلاسل ہیں۔ اس کا مطلب ہے کہ جو لوگ ابھی تک بیرون ملک آزادی سے گھوم رہے ہیں یا تو ان کے کیس زیادہ سنگین نوعیت کے نہیں ہیں یا حکومت ابھی ان کی گرفتاری میں سنجیدہ نہیں ہے۔ کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ پہلے اندرون ملک والوں کو تو پکڑ لیں پھر باہر والے بھی آ جائیں گے۔ رینجرز کی عمدہ کارکردگی دیکھ کر عمران خان نے اپنے صوبے میں بھی رینجرز کو کرپٹ افسران کو گرفتار کرنے کی پیشکش کردی ہے۔ مجھے امید ہے کہ چیف منسٹر پنجاب بھی جلد ہی ایسا کوئی بیان دیں گے کیونکہ کرپشن تو پنجاب میں بھی ہے اگرچہ اس کا گراف سندھ سے بہت کم ہے۔ آصف زرداری نے اپنی مفاہمت کی پالیسی ترک کرکے وزیر اعظم کو کھری کھری سنا دی ہیں جسے لوگ دھمکی بھی کہہ رہے ہیں۔ میاں صاحب بھی اب مضبوط اعصاب کے مالک ہوگئے ہیں اور چھوٹی موٹی دھمکیوں کو خاطرمیں نہیں لاتے۔ اب دیکھئے اونٹ کس کروٹ بیٹھتا ہے۔ آخر میں صوفی تبسم کے حسب حال اشعار قارئین کی خدمت میں پیش کرتا ہوں۔
اس ضبط محبت نے آخر یہ حال کیا دیوانے کا
ہر آہ میں صورت شیون کی،ہر شک میں رنگ افسانے کا
اب کس سے تبسم راز کہیے، اب صبر و وفا کا دور نہیں
اب دنیا کے وہ طور نہیں، اب اور ہے رنگ زمانے کا
تازہ ترین