• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
پاکستان کی ریاست کو سیاست نے یرغمال بنا رکھا ہے۔ ہمارے سیاسی رہنما ضدی اور خود نمائشی میں مبتلا ہیں۔ حالات کے جبر نے ان کے قول و فعل کے تضاد کو نمایاں کرنا شروع کردیا ہے۔ نیب کے سربراہ ان حالات میں جب احتساب بہت ضروری اور قانون اپنا راستہ بنانے کی کوشش کر رہا ہے ملک سے باہر ہیں۔ اس حوالے سے کئی باتیں اشرافیہ کے حلقوں میں بازگشت کر رہی ہیں ۔ کوئی بھی حقیقت بتانے پر راضی نظر نہیں آتا۔ اس وقت پیپلز پارٹی اندرون خانہ بھی خلفشار کا شکار ہے۔ سندھ میں ان کی پرانی حلیف جماعت ایم کیو ایم استعفوں کی سیاست سے باہر آتی نظر نہیں آتی۔ وہ استعفوں کو بطور سیاست خوب استعمال کررہی ہے۔ مگر اسمبلی کو چھوڑنے کے معاملہ پر ان کا جواب ہے کہ اب اسمبلی ان کو نہیں چھوڑ رہی۔ اگر اس طرح سے ان کی سیاست کو سہارا ملتا ہے تو یہ کھیل جاری رہنا ضروری ہے۔ میاں نواز شریف کی سرکار کو اندازہ ہے کہ جمہوریت کی حفاظت نظریات سے نہیں کی جاسکتی۔ ویسے بھی اب کوئی قومی نظریہ تو ہے نہیں۔ ہاں ایک نظریہ ضرورت ایسا ہے جس کو جمہوریت کے چیمپئن مانتے ہیں اور تو اور سابق صدر آصف علی زرداری ہوں یا جنرل مشرف دونوں ایک ہی طرح سوچتے نظر آتے ہیں۔
سابق صدر آصف علی زرداری دورسے للکارا مارتے نظر آتے ہیں۔ جب وہ وطن عزیز میں تھے تو ایک دن اتنا طیش آیا کہ الامان و الحفیظ۔ پاکستان کے عسکری اداروں کو دھمکی دے ڈالی۔ ببانگ دہل فرمایا کہ وہ اینٹ سے اینٹ بجا دیں گے۔ پھر جب اپنے دوستوں اور حلیفوں کی طرف دیکھا تو کوئی بھی ان کے ساتھ متفق نظر نہ آیا۔ اپنی پارٹی کے لوگ ہی صفائی دینے لگے تو احساس ہوا کہ فارغ ہونے کے بعد جذبات کمزوری بن جاتے ہیں۔بیرون ملک دوستوں اور مہربانوں سے رابطہ کیا اور مغلیہ دور کی طرح اپنا شہزادہ بلاول زرداری ضمانت کے طور پر پیش کردیا۔ بلاول زرداری کوسختی سے تاکید کی کہ نواز حکومت سے کسی صورت میں بھی چھیڑ چھاڑ نہ کرنا۔ انہوں نے گزشتہ پانچ سالوں میں بڑی مروت سے ہمارا ساتھ دیا ہے۔ پھر بلاول زرداری بھی حالات کی نزاکت کوسمجھ گیا ہے۔ ابھی زیر تربیت ہے اس میں ابھی اتنا حوصلہ نہیں کہ وہ عوام میں جا کر ان کے ساتھ کھڑا ہو سکے۔ وراثتی سیاست عمومی طور پر جمہوریت کے خلاف ہوتی ہے اور پھر ایسی جمہوریت جو صرف اور صرف اشرافیہ کی پسندیدہ ہو اور ان کی ہی حفاظت کرے اور عوام کی ساکھ کو دائو پر لگادے۔
پورے ملک میں قومی ایکشن پلان پر کام ہو رہا ہے مگر سندھ میں اس کی رفتار کچھ زیادہ تیز ہے اور نتائج بھی مثبت آرہے ہیں۔ سندھ میں نوکر شاہی جو کئی سالوں سے بھتہ مافیا میں تبدیل ہو چکی تھی۔ اس کا حال سب سے خراب ہے۔ چیف سیکرٹری سے لے کر سیکشن آفیسر تک سب کو فکر لگی ہے۔ کچھ تو ملک سے فرار بھی ہو چکے ہیں۔ سندھ کے وزیر اعلیٰ جناب قائم علی شاہ اگرچہ اپنے آپ کو کپتان کہتے ضرور ہیں مگر وہ سخت اذیت کا شکار ہیں۔ ان کے اپنے لوگ سب کے سامنے نظریں بدل رہے ہیں۔ چند دن پہلے جب سابق صدر آصف علی زرداری کے دوست اور بزنس پارٹنر کوعسکری اداروں نے قابل گرفت کیا تو وزیر اعلیٰ سندھ کا کیا خوب بیان آیا۔ ایک اتنا اہم آدمی پکڑا اور مجھے خبر نہ ہوئی۔ پھر اتنا اہم ایک عرصہ سے من مانی کر رہا تھا۔ اپنی پارٹی کے لوگ اس کی سیاست اور بزنس سے ڈرتے تھے۔ جب مکافات عمل ہوا تو اپوزیشن لیڈر جناب خورشید شاہ کا نعرہ مستانہ خوب تھا کہ اب جنگ ہوگی۔ جب طبل جنگ کا پتہ لگا تو فوراً قلابازی لگائی اور جنگ کو اخلاقی اور قانونی لبادے کی وردی پہنا دی۔ مگر تیر اگر نکل جائے تو جنگ روکنی مشکل ہوتی ہے۔
پاکستان میں سیاست کی جنگ کبھی بھی ختم نہیں ہوتی۔ اس کی بنیادی وجہ عدم اعتماد ہے۔ وزیر اعظم پاکستان کی کوشش ہے اور ایک سابقہ معاہدہ کے مطابق انہوں نے بھی اپنے پانچ سال پورے کرنے ہیں۔ اس سلسلہ میں فریقین میں مکمل اتفاق تھا۔ مگر جمہوریت کی دیکھ بھال نے معاملات کو خراب کردیا۔ جمہوریت کی ڈھال دوستوں اور حلیفوں کے لئے یکساں تھی مگر اب یہ ڈھال صرف حکومت استعمال کررہی ہے سابقہ حلیف جمہوری ڈھال کی وجہ سے عدم تحفظ کا شکار ہیں۔ اس وقت کسی بھی جمہوری ملک کو دیکھ لیں وہاں معاشی ترقی کی رفتار سست ہوگی۔ پھر دنیا کی معیشت میں عالمی معاشی اداروں کے مفادات کاروباری سے بن گئے ہیں۔ ہمارے ملک میں جمہوریت کی حفاظت کے لئے آئی ایم ایف بہت ہی سرگرم عمل ہے۔ وہ قرض اس لئے دیتا ہے کہ اس قرض کی مدد سے جمہوریت کو چلایا جائے اور چلایا جا رہا ہے مگر قرض ایک وبال جان ہے اس قرض نے زرمبادلہ کے ذخائر میں مصنوعی اضافہ تو دکھایا ہے مگر معیشت میں گراوٹ بدستور ہے پھر ٹیکس کے نظام کو جس طریقے سے ملک میں رائج کرنے کی کوشش ہورہی ہے وہ عوامی اور سماجی مفاد کے خلاف ہے۔ پاکستان کے وزیر خزانہ کو اندازہ نہیں وسائل کو مسائل بنانے سے معیشت ہمیشہ بیمار ہی رہتی ہے۔ اس وقت حکومت کا خزانہ بھرا ہو ا نظر آ رہا ہے مگر ہماری سرکار کی جیب خالی ہے۔ ایک طرف ڈالر کو مصنوعی طریقے سے قابو کیا جارہا ہے۔ گزشتہ تین ہفتوں میں ڈالر کی قیمت میں تقریباً پانچ روپے کا اضافہ ہوا ہے اور دوسری طرف پٹرول کی قیمت میں کمی دنیا بھر کی معیشت اوراسٹاک مارکیٹ کو ہلا رہی ہے۔ ہمارے ہاں اشرافیہ، سیاست دان اور نوکر شاہی ہر وقت کمانے کے چکر میں لگے رہتے ہیں پٹرول کی قیمت کم ہوتو کمائی ، پٹرول کی قیمت بڑھ جاتے تو کمائی، آج کل پٹرول کی مصنوعی قلت سے ملک پر قابض یہ تینوں گروہ مستفید ہو رہے ہیں۔ یہ بدانتظامی اور بدعملی حالات کی وجہ سے ہے۔ کوئی اس کی ذمہ داری لینے کو تیار نہیں۔ کیا کسی صوبے کی اپیکس کمیٹی اس صورت حال کا جائزہ لے کر کوئی کارروائی کر سکے گی؟
اس ٹیکس نظام میں تبدیلیوں کی ضرورت ہے مگر جو لوگ کام کر رہے ہیں وہ لکیر کے فقیر ہیں۔ اگر بیرون ملک سفر کرنے والوں کی آمدنی کا جائزہ لیا جائے تو کئی ہزار ایسے لوگوں کا پتہ چل جائے گاجو ہر ماہ سفر کرتے ہیں مگر ان کی آمدنی کا کوئی ریکارڈ نہیں ہے۔ شہروں میں زمینوں کی خرید و فروخت کے معاملات میں ٹیکس کو اہمیت نہیں دی جاتی۔ سرکار کو ٹیکس نظام کو بدلنے کے لئے آئی ایم ایف سے مزید وقت لینا پڑے گا۔ کتابیں تاریخ بھی ہوتی ہیں اور مکافات عمل کے بعد کا تذکرہ اور موازنہ بھی ۔ اس سال پاکستان میں ایک ہی موضوع پر دو کتابیں ناموں کی مماثلت سے تقریباً ایک جیسی ہیں۔ شکر ہے مصنف حضرات صابر ہیں۔ دونوں کتابیں آپ بیتی اور جگ بیتی کا مرکب ہیں۔پہلی کتاب کا نام ہے۔’’ ہم بھی وہاں موجود تھے‘‘ (داستان حیات) لیفٹیننٹ جنرل (ر) عبدالمجید ملک۔
دوسری کتاب کا نام ہے ۔’’ ہم بھی وہیں موجود تھے۔‘‘ (آپ بیتی) سابق ایم ڈی پی ٹی وی جناب اختر وقار عظیم۔
جنرل عبدالمجید ملک کی کتاب اس سال کے پہلے عشرے میں آئی وہ بھٹو صاحب کے زمانے میں سینئر جرنیل تھے اور چیف بننے کے مضبوط امیدوار۔ ان کی دوستی بھٹو صاحب کے دست راست اور سابق گورنر مصطفیٰ کھر کے ساتھ تھی پھر مصطفیٰ کھر کی بھٹو سے بھی ٹھن گئی۔ جنرل ضیاء کی چاپلوسی نے بھٹو صاحب کو پھنسا لیا اور چیف بن گئے۔ جنرل مجید ملک فارغ ہوگئے۔ پھر خوب سیاست کی۔
دوسری کتاب کے مصنف اختر وقار عظیم کو لکھنے کاوصف اپنے والد پروفیسر وقار عظیم سے ملا۔ اختر وقار عظیم نے حالات اور سیاست پر خوب نظر رکھی، جنرل ضیاء اور بعد کے عسکری دور کو خوب دیکھا اور جمہوریت کا راگ الاپنے والے ان کے سامنے تھے پھر مشرف کو بھی بھگتایا۔
دونوں کتابیں پاکستان کی تاریخ اور جمہوریت کا نوحہ ہیں۔
تازہ ترین