• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
جانے کیوں سِرل المیڈا کی ڈان کی خبر پر مجھے اُٹھے طوفان پہ کسی قربانی کے بکرے کی یاد ستائے جا رہی ہے۔ شاید مملکتِ خداداد کو نظرِبد سے بچانے کو ایک بار پھر کسی قربانی کے بکرے کی ضرورت آن پڑے۔ تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو، کچھ ایسا ہی طوفان اسامہ بن لادن کی اسلام آباد سے ذرا دُور کاکول اکیڈمی کے مفصل میں موجودگی اور امریکی دراندازوں کی جارحیت پسندانہ کارروائی سے ہم کتنے دم بخود ہو کر رہ گئے تھے۔ ایک طرف دُنیا کے سب سے بڑے دہشت گرد کی ایبٹ آباد میں موجودگی کی شرمندگی اور ہماری عقابانہ نگاہوں کی مبینہ غفلت کی بے بسی، اوپر سے امریکی دستوں کی اتنی کھلی اور بے مزاحمت چیرہ دستی پر اوسان تو خطا ہونے ہی تھے۔ لیکن خفگی اور غضبناکی کے عدم اظہار پر اور کچھ نہیں تو کسی کو تو قربانی کی زینت بنا کر سینے کی آگ ٹھنڈا کرنا تو بنتا ہی تھا۔ امریکہ کی اس سینہ زوری پر ایک ملاقات میں ہماری سلامتی کے گمنام سالار نے امریکہ کی اس دیدہ دلیری پہ اپنے اور اپنے سے بھی بڑے کے جن مشتعل جذبات کا اظہار کیا اُنہیں سُن کر جیسے ہم تین خاکیوں کے اوسان تقریباً خطا ہوتے ہوتے رہ گئے۔ زیرک صدر آصف علی زرداری نے خوب ہوشیاری دکھائی اور نیویارک ٹائمز میں ایک مضمون لکھ مارا اور عندیہ یہ دیا کہ دُنیا کا بڑا دہشت گرد ہماری انٹیلی جنس کی نشاندہی (Lead) پر ہی امریکیوں کے ہاتھ چڑھا اور یہ ہمارے تعاون کی ایسی مثال ہے جو عالمی رائے عامہ کی تسلی کیلئے باعثِ اطمینان ہونی چاہئے۔ لیکن غلغلہ تھا کہ تھمنے کا نام لینے کو نہ تھا کہ آخر قومی غیرت کی یوں پامالی کون محبِّ وطن ہے کہ ہضم کر پاتا۔ بھلا! آصف زرداری کی اِس ڈھٹائی پر مبنی شریک ثواب ہونے کی درفنطنی کو کوئی کیوں درخورِاعتنا سمجھتا۔ امریکہ کا تو ہم نے کیا بگاڑنا تھا، باہم جُوتم پیزار نے خوب تماشا دکھایا۔ اچانک ایک عجوبۂ روزگار شخص جس کا نام منصور اعجاز تھا، کفن پھاڑ میدان میں اُترا۔ خبر یہ نکلی (Leak) یا بوئی گئی (Planted) کہ امریکہ میں پاکستان کے سفیر حسین حقانی نے منصور اعجاز کے ساتھ مل کر ایک میمو (یادداشت) تیار کیا تاکہ منصور اعجاز کے ذریعہ امریکہ کے ایڈمرل ملن کو پاک فوج کے خلاف رام کیا جا سکے اور زرداری حکومت کو زمین بوس ہونے سے بچایا جا سکے۔ میموگیٹ کا معاملہ قومی سلامتی کیلئے ایک بڑا مسئلہ بن گیا اور بات سپریم کورٹ تک پہنچی۔ ہماری اہم ترین ایجنسی کے سربراہ نے اپنی ہی وفاقی حکومت کے خلاف بیانِ حلفی داخل کیا اور یوں انتظامیہ کے سول اور فوجی بازو باہم دست و گریباں ہو گئے اور معاملہ حسین حقانی کی سفارت سے علیحدگی کی صورت میں ٹھنڈا پڑا۔ یہ علیحدہ بات ہے کہ اُس دوران صدر زرداری مسلح ہو کر ایوانِ صدر میں مورچہ بند ہو گئے تھے۔ اُن کا نفسیاتی بریک ڈائون بھی ہوا، جس کا تعلق اصل میں اُن کے سندھ سے دیرینہ جگری یار کی بے وفائی کے صدمے کے ناقابلِ یقین جذباتی جھٹکے سے تھا۔
ایسی ہی صورت، کچھ اہم استثنائوں کے ساتھ، اِس وقت حکومت و مملکت کو درپیش ہے۔ سِرل کی رپورٹ سے، شکر ہے صحافی، اُن کا ذمہ دار ایڈیٹر اور اخبار تو فی الحال کسی عتاب سے بچ گئے کہ فوج نے یہ نتیجہ اخذ کیا کہ اصل ذمہ دار وہ ہیں جنہوں نے ایک ’’غلط اور جھوٹی کہانی‘‘ اخبار کو فیڈ کی یا بہم پہنچائی جس سے قومی سلامتی شکنی (Breach) یا قومی سلامتی کی خلاف ورزی ہوئی اور وہ بھی وزیراعظم ہائوس سے۔ ’’قومی سلامتی پہ یہ وار‘‘ اتنا خوفناک سمجھا گیا کہ کور کمانڈر میٹنگ نے اس پر سخت ردِّعمل کا مظاہرہ کیا، حالانکہ اس سے قبل سول و ملٹری قیادت میں یہ اتفاق ہو چکا تھا کہ اس کی تحقیقات ایک اعلیٰ سطحی کمیٹی کرے گی جو قائم بھی کر دی گئی۔ خبر تو ظاہر ہے اُسی میٹنگ کے شرکا میں سے کسی ایک یا اُس سے زیادہ شرکا سے رپورٹر تک پہنچی جس کے مضمرات یقینا قومی سلامتی سے زیادہ موجودہ آئینی ڈھانچے پہ مرتب ہو سکتے تھے۔ دیکھنے کو تو خبر میں کچھ ایسا نہیں جو روزانہ کی بنیاد پر ہماری معلومات میں نہیں۔ یہ کہ پاکستان دہشت گردوں کے ہاتھوں تنہا ہو رہا ہے، یہ کہ دہشت گردوں کی سرِعام موجودگی ہماری سفارت کاری کیلئے باعثِ ندامت ہے، یہ کہ کشمیریوں کے جمہوری حقوق کی جدوجہد، دہشت گردی کے ہاتھوں آلودہ ہو رہی ہے، اور یہ کہ ہر طرح کے دہشت گردوں کو لگام دینے کی ضرورت ہے اور پاک سرزمین کو اِن سے پاک کرنے کی ضرورت ہے۔ کونسا دن ہے، جب ہم اخبارات میں ایسی خبریں، ایسے شواہد اور ایسے تجزیے نہیں پڑھتے۔ البتہ جو بات ظاہر ہے گراں گزری وہ خبر میں وزیراعلیٰ پنجاب کی تنقید کے حوالے سے تھا کہ اُنہوں نے مبینہ طور پر سیکورٹی اداروں پر یہ اعتراض کیا تھا۔ اگر خبر میں یہ نہ ہوتا تو خبر خبر ہی نہ رہتی۔ اس میں رپورٹر کا کیا قصور جو رہتا ہی تلاش میں ہے کہ اُسے کوئی خبر ملے اور یہی اس کے پیشے کا دردِ سر بھی ہے۔ ایسے میں، جب عمران خان 30 اکتوبر یا اس سے آگے دارالحکومت کو بند کرنے چلے ہیں اور نئے آرمی چیف کی تعیناتی بھی ابھی معمہ بنی ہوئی ہے، سِرل کی خبر نے طوفان بپا کر دیا ہے۔ حالانکہ یہ انتہائی محتاط اور ذمہ دار قسم کا صحافی ہے۔ اچھا ہوا وزیرِ داخلہ نے عقل کے ناخن لئے، جس کا ہمارے ہاں رواج کم ہے، اور سِرل کو باہر کے سفر پہ جانے کی بندش سے مبرا کر دیا گیا ہے۔
اب ذکر پھر سے ایک اور میموگیٹ کا ہو رہا ہے۔ میموگیٹ ون اور میمو گیٹ ٹو میں البتہ کچھ فرق ہیں، لیکن قرائن و عواقب کافی ملتے جلتے ہیں۔ آصف زرداری کے صدارتی محل کی جگہ اس بار وزیراعظم ہائوس سے ’’قومی سلامتی کو دھچکا‘‘ لگا ہے۔ میمو یعنی یادداشت کی جگہ خبر پلانٹ یا فیڈ کی گئی ہے۔ لیکن مقصد بظاہر ایک ہی ظاہر کیا جا رہا ہے کہ اعلیٰ ترین منتخب عہدیدار کے گھر سے یہ راز جس کا سر ہے نہ پیر فاش ہوا ہے اور اس سے قومی سلامتی خطرے میں پڑ گئی ہے۔ میموگیٹ ون میں بھی کسی یادداشت کا ذکر تھا اور اب کے خبر کو فیڈ کرنے کا مُدعا ہے، جس سے قومی سلامتی کی معصوم بی بی کو صدمہ پہنچا ہے۔ جو سوال مجھے حیرت زدہ کیے ہے کہ بھلا ایک مشاورتی و غیررسمی اجلاس کی روداد کو بھونڈے طریقے سے افشا کرنے کا کیا مطلب تھا؟ سیکرٹری خارجہ اپنی رپورٹ باقاعدہ کابینہ یا اس کی قومی سلامتی کی کمیٹی میں پیش کر سکتے تھے۔ بلکہ اُنہیں یہ رپورٹ پارلیمنٹ میں پیش کرنی چاہئے تھی۔ اگر وہ یہی اصرار کرنا چاہتے تھے کہ پاکستان دہشت گردوں کے ہاتھوں تنہا ہو رہا ہے تو اس حقیقت کو ظاہر کرنے میں قومی سلامتی کیوں خطرے میں پڑنے لگی۔ قومی سلامتی کو تو خطرہ اگر ہو سکتا ہے تو وہ یہ ہے کہ ہم اس حقیقت سے آنکھیں بند کئے رکھیں اور اپنی پرانی دُھن میں مصروف رہیں۔ کون نہیں جانتا کہ کالعدم تنظیمیں کھلی پھر رہی ہیں اور خاص طور پر پنجاب میں اُنھیں پوچھنے والا کوئی نہیں۔ انہیں روکنے کی ضرورت پر پارلیمنٹ نے بھی اصرار کیا ہے اور سینیٹ کے پورے ہائوس نے ان کے خلاف بھرپور کارروائی کے ساتھ ساتھ پاکستان کی سرزمین کو کسی بھی دوسرے ملک کے خلاف دہشت گردی کے استعمال کی ممانعت پر بھی زور دیا ہے۔ ہمارے سپہ سالار جنرل راحیل شریف بھی اس عزم کو بار بار دہرا چکے ہیں۔ پھر ایک دوسرے پہ گرد اُچھالنے کا مطلب میری سمجھ سے باہر ہے اگر کوئی ایک فریق دہشت گردوں کو پناہ دینے پہ بضد نہیں ہے۔ جس سرکاری پالیسی کا ہم بار بار اعادہ کرتے نہیں تھکتے کہ دہشت گردی کے خلاف بلاامتیاز کارروائی اُنکے مکمل خاتمے تک جاری رہے گی اور پاکستان کی سرزمین کو دوسرے ملکوں کے خلاف دہشت گردی کرنے کی ہرگز اجازت نہیں دی جائے گی، تو پھر مسئلہ کیوں اٹکا ہوا ہے۔
رکاوٹ یا مشکل کیا ہے؟ اگر سِرل کی خبر کا ملک و قوم کو کوئی فائدہ ہو سکتا ہے تو وہ یہ کہ ہماری دہشت گردی کے خلاف حکمتِ عملی میں جہاں رکاوٹ ہے اسے کیسے دُور کیا جائے۔ پاکستان کی عالمی تنہائی کا ذکر صرف خارجہ سیکرٹری اعزاز نے نہیں کیا، تین سابق خارجہ سیکرٹری بھی یہی کہہ چکے ہیں۔ یہ سب تو غیرمحب وطن نہیں ہیں۔ لیکن فارن آفس کے ترجمان آج بھی سینہ ٹھونک کر کہہ رہے ہیں کہ ہم تنہا نہیں۔ اُنہیں برکس کے بھارت میں ہونے والے اجلاس اور اس کے سائیڈ لائن پہ ہونے والے سمجھوتوں پہ ذرا نظر ڈال لینی چاہئے۔ روس نے ہمارے ساتھ مشقیں کیں، بھارت کو S-400 میزائل اور ایٹمی آبدوز دی۔ چین نے بنگلہ دیش کو 20 ارب ڈالرز اسی طرح کی راہداری کیلئے دیئے ہیں جو وہ ہمیں دے رہا ہے اور بھارت کے ساتھ تجارت و تعاون کے نئے میدانوں میں پیش قدمی کی نوید دی ہے۔ بھارت میں ہونے والے برکس کے اجلاس میں وزیراعظم مودی، چینی صدر اور روسی صدر اس طرح بازو میں بازو ڈال کر کھڑے ہیں جیسے وہ کہہ رہے ہیں کہ ہاں ہم بھی ہیں اور ہم ہیں کہ اُجالے میں سرد جنگ کے خواب دیکھ رہے ہیں۔ چین بھی ہم سے یہی کہہ رہا ہے کہ تصادم کو چھوڑو اور ترقی کی راہ اپنائو۔ جو بات ہمیں سمجھنے کی ہے کہ بھارت ہم سے فوری بڑے تصادم کی بجائے ترقی و تیاری کے ایسے منصوبے پہ توجہ دے رہا ہے، جب 2025ء تک ہم اُس کی دھول کو بھی نہیں چھو سکیں گے۔ دریں اثنا وہ ہمیں افغانستان اور اندرونی خلفشار میں اُلجھائے رکھے گا کہ ہماری معیشت بے پیندے کا لوٹا ہی رہے۔بات پھر ہوش میں آنے کی ہے اور عقل سے رجوع کرنے کی ہے۔ قومی غیرت پہ تلملانے کی نہیں۔ اور نہ ہی ہماری قومی سلامتی کوئی ایسی نازک شے ہے کہ ایک ’’جھوٹی اور بے بنیاد‘‘ خبر ہماری قومی سلامتی کو گڑبڑا دے۔ بڑے چیلنج آگے آ رہے ہیں، ہم آگے ترقی کرتے ہیں یا پھر پاتال میں ڈوب مرنے پہ مصر ہیں۔ خبر کے مناقشے کو مزید بڑھانے کی ضرورت قومی مفاد میں نہیں۔ ایک آدھ قربانی کے بکرے سے گناہ کا کفارہ ادا کرنے میں کیا ہرج ہے۔ لیکن! بھلا اس کا کوئی کیا کرے
خلوت میں بھی ممنوع تھی جو
جلوت میں جسارت ہونے لگی


.
تازہ ترین