• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
وطن ِ عزیز کی سیاست میں تواترسے ’’مائنس ون فارمولا‘‘ کا تذکرہ سنتے آرہے ہیں۔عمران خان کی طرف سے پہلے متحدہ کے قائد اور پھر پیپلز پارٹی کو بھی مائنس زرداری کامشورہ دیاگیا ۔ ایک خیال یہ بھی ہے کہ نون لیگ کو بھی مائنس ون فارمولا پیش کیاگیاہے۔لیکن نون لیگ اسم بامسمیٰ کی طرح جگرمراد آبادی کے موڈمیں دکھائی دیتی ہے ۔درج ذیل شعر ایک فلم ’’پاکیزہ ‘‘ میں اداکار راجکمار نے بھی اپنی گرجدار آواز میں ادا کیاتھا
ہم کو مٹاسکے یہ زمانے میں دم نہیں
ہم سے زمانہ خود ہے ،زمانے سے ہم نہیں
ہماری سیاسی تاریخ میں ’’مائنس ون فارمولا‘‘ کی اختراع اور اصطلاح نئی نہیں ہے۔ یہ وہ قول ِزریں ہے جسے گاہے شرمندہ تعبیر بھی کیاجاتارہا اور اسی ڈاکٹرائن کی کوکھ سے پاکستان کے اس گوشے سے علیحدگی کی تحریک بھی اٹھی جہاں سب سے پہلے جنوبی ایشیا کے مسلمانوں نے اپنے لئے ایک علیحدہ ریاست ( پاکستان )کے لئے عملی کوشش کرتے ہوئے سیاسی جماعت کی بنیاد رکھی تھی ۔ بعدازاں تاریخ کے ایک دلخراش مقام پر مشرقی پاکستان کی اسی نمائندہ سیاسی جماعت عوامی مسلم لیگ سے اس کے لیڈر شیخ مجیب الرحمان کے لئے مائنس ون فارمولا پیش کیاگیاتھا۔ زمانہ حال میں اس قول کی ’’قوالی‘‘ عمران خان سرعت سے کرتے آرہے ہیں۔ماضی میں یہ طرز فکر قومی سلامتی اور حب الوطنی کی آہنی نظریاتی نرسریوں سے موسوم کی جاتی رہی ہے جو خاص نظریات کے نوزائیدوں کی افزائش نسل کیاکرتی تھیں ۔لہذا جب عمران خان کی طرف سے یہ فارمولا دہرایاجاتاہے تو انہیں قومی سلامتی برینڈ لیڈر خیال کیاجاتاہے۔یہ حقیقت ہے کہ عمران خان پاکستان کے عوام کی کثیر تعداد کے محبوب لیڈر ہیںانہیں چاہئے کہ وہ اپنی آزاد اور غیر جانبدار حیثیت برقرار رکھنے کے لئے احتیاطی تدابیر اختیار کیاکریں۔
مقبوضہ کشمیرمیں آزادی کی موجودہ خون رنگ لہر کے بعد تو پاکستان بھر سے مودی سرکار کیلئے مائنس ون فارمولا کی صدا بلند ہوئی۔ دونوں ممالک کے نیم خواندہ اور غیر ذمہ داران تو تیسری عالمی جنگ کابگل بجابیٹھے تھے تاہم زیرک اور معاملہ فہموں کا کہنا ہے کہ جنگیں چاہے کتنی ہی عظیم کیوں نہ ہوںان کے اثرات خوشحالی اور تعمیر نہیں ہوا کرتے۔ مودی کی طرف سے فلمی ٹائپ سرجیکل اسٹرائیک نے ان کی پردھان منتری کی حیثیت کو مشکوک بنادیا ہے۔گھر کے ساتھ ساتھ گھاٹ سے بھی مائنس ون فارمولااپلائی کرنے کا نعرہ بلند ہورہاہے ۔پاکستانی میڈیا میں جہاں سومنات گرانے کے لئے ٹاک شوز کئے جارہے ہیں وہاں امن وامان اور بات چیت بھی ایک آپشن کے طور پر موجود ہے لیکن بھارتی میڈیا تو مہابھارت (وہ جنگ جو کورو اور پانڈو کے درمیان لڑی گئی تھی) شروع کرنے کاپرپوزل پیش کررہاہے۔بھارتی میڈیا غالباََ سمجھ رہا ہے کہ اگر دونوں ممالک کے درمیان جنگ ہوئی تو بھارتی چینلز کے حصے میںزیادہ اشتہارات آئیںگے۔بھارتی میڈیائی اور عسکری سورمائوں کو یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ ثقافتی جنگیں توبلاشبہ سلولائیڈاور سنیمائوں میں لڑی جاتی ہیں لیکن اصلی جنگیں تو محاذوں پر ہوتی ہیں اور جنگوں اور سرجیکل اسٹرائیک کے حجم میں بڑا فرق ہوتاہے۔
اطلاع ہے کہ ماہرہ خان، فواد خان ،علی ظفر اور استاد راحت فتح علی خاں سمیت دیگراب پاکستانی پروڈیوسرز اور ڈائریکٹرز کو بھی دستیاب ہوا کریںگے۔یہ سچ ہے کہ پاکستانی فنکار بیرون ملک خصوصاََ بھارت میں ملک کا نام روشن کررہے ہوتے ہیں لیکن یہ بھی سچ ہے کہ جب پاکستانی فنکاروں کو بالی وڈ کے درجہ دوم فلم میکرز اپنی فلموں میں کاسٹ کرلیتے ہیں تو پھر یہ امن کے سفیراپنے ملک کی مین ا سٹریم الیٹ کا فون سننا بھی گوارا نہیں کرتے۔سچاواقعہ ہے پاکستان کے ایک ’’کنگ خان‘‘ نے اپنے Mentor(استاد)کا کئی ماہ تک ٹیلی فون نہ سنا۔ پاکستانی اسٹارز جو بالی وڈ سے مائنس ہوئے ہیں وہ پاکستانی مارکیٹ میں آسانی سے پلس ہوجائیں گے ۔کرکٹ لائم لائٹ میں شاہد آفریدی کا نام بھی مائنس ہوتادکھائی دیتا ہے۔ٹیسٹ سیریز سے محمد حفیظ کا نام مائنس ہونے کا وقت بھی آگیاہے۔جنرل ریٹائرڈ مشرف کے خلاف پاکستان کی عدالتوں میں کئی مقدمات زیر سماعت ہیں۔ مگر جیسے ہی ان کانام ایگزٹ کنٹرول لسٹ سے مائنس ہوا وہ فوراََ دبئی پہنچے اورچند روز بعدامریکہ میں ایک نجی تقریب میں ڈانس کرتے ہوئے اچھے خاصے پلس دکھائی دئیے۔صحافی سر ل المیڈا کے نام کے بعدای سی ایل سے ایان علی کانام نکلنے کی باری بھی آنی چاہئے۔
مشرف ملک سے مائنس ہوکر پلس ہوگئے۔ الطاف بھائی کو مائنس کرنے کے فارمولاپر عمل کیاگیاتو متحدہ ملٹی پلائی دکھائی دی۔پی ٹی آئی تو پلس اور مائنس ہونے والوں کی سمہ سٹہ دکھائی دیتی ہے۔جس میں پی پی پی ،نون اور قاف لیگ سمیت دیگرپارٹیوں سے مائنس اور پلس ہونے والے لوگ جوق در جوق شامل ہوتے رہے ہیں۔
شاہ محمود قریشی پیپلز پارٹی سے اور جہانگیرترین قاف لیگ سے مائنس کئے گئے اور پی ٹی آئی میں پلس کردئیے گئے۔پیپلز پارٹی کو مائنس کرنے کے فارمولے پر عمل درآمد جنرل ضیاالحق کے دور میں شروع کیاگیا جس کے تحت 5جولائی کو مارشل لا اور بعد ازاں 4اپریل کو بھٹو صاحب کو پھانسی دے دی گئی ۔مائنس ون فارمولاکی کہانی آگے بڑھی اور پھر بالترتیب شاہ نواز بھٹو،میرمرتضیٰ بھٹو اورمحترمہ بے نظیر بھٹو شہید کو مائنس کیاگیا۔
بیگم نصرت بھٹو کی موت کو بھی مائنس ون فارمولا کے ضخیم رجسٹر میں ہی درج کیا جانا چاہئے۔ غموں اور دکھوں کے پے درپے وارسہتے ہوئے نصرت بھٹو اس جہانِ فانی سے مائنس ہوئیں۔ قومی سیاست ہو یا عوام کے دل و دماغ میں کسی کے لئے پسندیدگی کا مقام اسے پلس اورمائنس کرنے کا اختیار بھی خود عوام کے پاس رہنا چاہئے۔ سوال یہ بھی اٹھتا ہے کہ کوئی سیاسی شخصیت یا گروہ اس قدر طاقتور کیوں ہوجائے کہ پھر اسے مائنس کرنا پڑے؟؟ اس مائنس ، پلس ،مٹی پلائی اور ڈیوائڈکی کہانی سے متعلق شاعر نے کہاتھاکہ… جمع تُم ہو نہیں سکتے ،مجھے منفی سے نفرت ہے ،تمہیں تقسیم کرتاہوں ،تو حاصل کچھ نہیں آتا۔۔۔حق حکمرانی صرف عوام کا حق ہے جسے مائنس نہیں کیاجاناچاہئے۔



.
تازہ ترین