• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
اس سال ستمبر کا مہینہ تاریخی اہمیت اختیار کرگیا ہے ۔ دنیا بھر میں جنگ عظیم دوئم کے خاتمے کے 70 سال مکمل ہونے پر تقریبات منعقد کی گئیں ۔ اس ضمن میں سب سے بڑی تقریب چین کے شہر بیجنگ میں منعقد کی گئی۔ اسی ستمبر میں 1965ء کی جنگ کے 50سال بھی مکمل ہوگئےاور پاکستانی قوم نے 6ستمبر کو اپنا 51واں یوم دفاع انتہائی جوش و خروش کیساتھ منایا ۔ اسی سال5 ستمبر کو کراچی ٹارگٹڈ آپریشن کے دو سال بھی مکمل ہو گئے ۔ یہ ستمبر پاکستانی قوم کیلئے اس لئے بھی بہت زیادہ اہمیت کا حامل ہے کہ آج ہم یوم دفاع اس احساس کیساتھ منا رہے ہیں کہ ہم دہشت گردی اور انتہا پسندی کیخلاف جاری جنگ میں فتح یاب ہو رہے ہیں۔
دوسری جنگ عظیم کے خاتمے پر سالانہ تقریبات کا انعقاد اس لئے نہیں کیا جاتا کہ اس جنگ میں کچھ قوموں کو فتح یا ان کی مخالف قوموں کو شکست ہوئی ۔ جنگ چاہے کوئی بھی ہو ، وہ صرف اور صرف تباہی و بربادی لاتی ہے ۔ فاتحین کیلئے بھی اور مفتوحین کیلئے بھی اسے یاد کرنا تکلیف دہ عمل ہوتا ہے ۔ جنگ عظیم دوئم کے خاتمے کی سالانہ تقریبات کا انعقاد اس لئے کیا جاتا ہے کہ یہ جنگ فاشزم (فسطائیت ) کی شکست پر منتج ہوئی ۔ یہ تقریبات فاتح اور مفتوح ممالک دونوں میں اس لئے منعقد کی جاتی ہیں کہ لوگ آج بھی فاشزم سے اپنی نفرت کا اظہار کرتے ہیں۔ وہ رواداری اور امن سے محبت کرتے ہیں ۔ چین نے اس ضمن میں جو تقریب منعقد کی ، اس کا بنیادی مقصد یہ نہیں تھا کہ جنگ عظیم دوئم میں جاپان پر چین کی فتح کی باتوں کو دہرایا جائے بلکہ اس تقریب کا مقصد امن کے پیغام کو عام کرنا تھا ۔ تقریب میں جو بینرز آویزاں کئے گئے تھے ، ان پر فاختہ کی تصاویر بنی ہوئی تھیں ۔ فاختہ امن کی علامت ہے ۔ اسی طرح پاکستانی قوم یوم دفاع اس لئے نہیں مناتی کہ ایک جنگ کو یاد کیا جائے بلکہ وہ اس لئے مناتی ہے کہ بھارتی جارحیت کیخلاف اس نے اپنا دفاع کامیابی سے کیا۔ یہ دن جارحیت کیخلاف نفرت کا اظہار ہے اور دفاع کے بنیادی حق کی تائید کرتا ہے ۔ یہ ٹھیک ہے کہ جنگوں میں اگلے محاذوں پر افواج لڑ رہی ہوتی ہیں ۔ مسلح افواج کے افسران اور جوان اپنی جانوں کی پروا کئے بغیر دشمنوں کا مقابلہ کررہے ہوتے ہیں لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ جن جنگوں میں عوام اپنی مسلح افواج کا ساتھ دے رہے ہوتے ہیں ، ان جنگوں میں زیادہ کامیابی ملتی ہے ۔ دوسری جنگ عظیم میں اتحادیوں کو فاشسٹس ( فسطائیوں ) اور نازیوں پر اس لئے فتح حاصل ہوئی کہ دنیا بھر کے لوگوں نے فاشزم کیخلاف اتحادی افواج کا ساتھ دیا ۔ اسی طرح 1965ء کی پاک بھارت جنگ میں بھی پوری پاکستانی قوم اپنی مسلح افواج کیساتھ لڑ رہی تھی ۔ پاکستانیوں نے اس وقت جس قومی جذبے کا مظاہرہ کیا ، اس کی مثال قوموں کی تاریخ میں بہت کم ملتی ہے ۔ آج بھی جب پاکستان کیلئے بڑا چیلنج سامنے آتا ہے تو اس سے نمٹنے کے لئےیہی کہا جاتا ہے کہ 1965ء والے قومی جذبے اور اتحاد کے مظاہرے کی ضرورت ہے ۔ دہشت گردی اور انتہا پسندی کیخلاف آج جو جنگ لڑی جا رہی ہے ، اس میں بھی پوری پاکستانی قوم مکمل طور پر اپنی مسلح افواج اور دیگر سیکورٹی و قانون نافذ کرنے والے اداروں کا ساتھ دے رہی ہے ۔ 1965ء والا قومی جذبہ آج پھر دکھائی دے رہا ہے ۔ دہشت گردی اور انتہا پسندی کیخلاف یہ قومی جنگ ہی نہیں ہے بلکہ یہ دہشتگردوں اور انتہا پسندوں کیخلاف عالمی جنگ ہے اس میں جو کامیابیاں حاصل ہو رہی ہیں ، ان کا بنیادی سبب بھی یہی ہے کہ پاکستان کے عوام اس جنگ میں ساتھ ہیں ۔
دہشت گردی اور انتہاپسندی کیخلاف جنگ میں کامیابیوں کے باعث مسلح افواج اور عسکری قیادت کیلئے عوام کے دلوں میں محبت اور ستائش کا جذبہ بڑھ رہا ہے ۔آج افواج پاکستان دراصل پاکستانی قوم کا غرور ہیں ۔ کچھ حلقے اس بات کو غلط رنگ دے رہے ہیں اور یہ سمجھ رہے ہیں کہ سیاست دانوں اور سیاسی حکومتوں کی مقبولیت کم ہو رہی ہے ۔ وہ ان خدشات کا اظہار بھی کررہے ہیں کہ موجودہ سیاسی نظام اس صورت حال میں زیادہ دیر نہیں چل سکے گا حالانکہ ایسی بات نہیں ہے ۔ موجودہ عسکری قیادت کے بارے میں غلط اندازے قائم نہیں کئے جانے چاہئیں ۔ ماضی کی عسکری قیادتوں کے برعکس موجودہ عسکری قیادت کی اپروچ بہت مختلف ہے۔ ماضی میں عسکری قیادت نے کبھی مذہب کے نام پر اقتدار میں آنے کا جواز پیدا کیا ، کبھی کرپشن کے خاتمے کیلئے سیاسی حکومتوں کو برطرف کیا اور کبھی روشن خیالی کے نام پر حکومت کی لیکن جو نعرہ انہوں نے لگایا تھا ، اس کے مطابق کام نہیں کیا ۔ موجودہ عسکری قیادت نے سیاست سے الگ ہو کر دہشت گردی اور انتہا پسندی کیخلاف اپنا کام شروع کر دیا ۔ لوگوں نے دہشت گردی کیخلاف جنگ میں پاکستان کی مسلح افواج کی قربانیوں اور ان کے عزم کو دیکھتے ہوئے ان کا بھرپور ساتھ دیا ۔ پاک فوج آپریشن ضرب عضب سے پہلے آپریشن راہ راست میں بھی حیرت انگیز کامیابی حاصل کر چکی ہے ۔ جدید دنیا کی تاریخ میں اپنی سرزمین پر گوریلا جنگ کرنے والے دہشت گردوں پر فتح حاصل کرنے کی بہت کم مثالیں موجود ہیں ۔ پاک فوج نے آپریشن راہ راست کے بعد دہشت گردوں کیخلاف دیگر آپریشنز بھی کئے اور ان میں کامیابی حاصل کی ۔ اس وقت آپریشن ضرب عضب بھی کامیابیوں کیساتھ جاری ہے ۔ یہ آپریشن شمالی علاقہ جات میں ہو رہا ہے ۔ اس کے علاوہ بلوچستان میں بھی دہشت گردوں کیخلاف آپریشن ہو رہا ہے ۔ وہاں بھی بہت بڑی کامیابیاں حاصل ہو ئی ہیں ۔ ان کی وجہ سے بلوچستان کے حالات میں بہت بہتری آئی ہے ۔ اسی طرح کراچی میں بھی ٹارگٹڈ آپریشن جاری ہے اور خود کراچی کے عوام یہ محسوس کر رہے ہیں کہ یہ آپریشن کامیاب ہو رہا ہے ۔ اگر سیاسی حکومتوں نے اپنے اندر سے کرپشن ختم نہیں کی اور میرٹ پر تقرریاں نہیں کیں اور گڈ گورننس نہیں دی تو پھر بقول شاعر ہے جرم ضعیفی کی سزا مرگ مفاجات۔
بات یہ ہے کہ ہمارا سیاسی نظام کہیں سے بھی جمہوری نہیں بلکہ جاگیرداری کا نظام ہے۔ یہاں تو جو وزیراعظم فیوڈل نہیں ہوتے وہ بھی اقتدار میں آکر فیوڈل رویہ اپناتے ہیں۔
ہمارے سیاستدان چونکہ کرپشن میں ڈوبے ہوتے ہیں تبھی روز کرپشن کی بڑی کہانی نظر آتی ہے۔ پچھلے 12 برسوں میں سیاسی نظام بہتری کے بجائے ابتری کی طرف جا رہا ہے لہٰذا آج کرپشن کیخلاف جنگ میں وہ پیچھے ہوتے جا رہے ہیں اور عوام ان سے مایوس ہو چکے ہیں اور وہ اب انکی طرف نہیں دوسری طرف دیکھ رہے ہیں۔
دہشت گردی اور انتہا پسندی کیساتھ ساتھ آپریشن کا دائرہ کرپشن تک بھی وسیع کر دیا گیا ہے ۔ سیکورٹی اداروں کو اس کا مینڈیٹ نیشنل ایکشن پلان کے تحت دیا گیا ہے ۔ نیشنل ایکشن پلان کے نکتہ ۔ 6 کے تحت دہشت گردوں کی مالی معاونت اور سرپرستی کرنے والوں کیساتھ ساتھ ان کے سہولت کاروں کیخلاف بھی کارروائی کی جائے گی ۔ اگرچہ یہ کارروائی کرپشن کیخلاف نہیں بلکہ مالیاتی دہشت گردی یا دہشت گردی سے جڑی معیشت کیخلاف ہے لیکن اس کارروائی نے پاکستان کے عوام کے دلوں میں کرپشن سے پاک معاشرے کی امنگ بھی پیدا کر دی ہے ۔ دہشت گردی اور انتہا پسندی کیساتھ ساتھ کرپشن بھی ایک ایسا عفریت ہے ، جس سے پاکستانی قوم نجات حاصل کرنا چاہتی ہے ۔ جس طرح گزشتہ تین عشروں سے دہشت گردی اور انتہا پسندی کیخلاف کسی نے سنجیدگی سے اقدامات نہیں کئے تھے اور گہرے پانیوں میں اترنے سے گریز کیا تھا ، اسی طرح پاکستان بننے کے بعد کرپشن کیخلاف بھی کسی نے سنجیدہ مہم نہیں چلائی ۔ دہشت گردی سے جڑی معیشت اور مالیاتی دہشت گردی کیخلاف پاکستان کے سیکورٹی اداروں نے جو کارروائیاں شروع کی ہیں ، اس سے عوام بہت خوش ہو رہے ہیں اور یہ مطالبہ کر رہے ہیں کہ لوٹ مار کرنے والوں کا سخت احتساب کیا جائے ۔ ان عوامی امنگوں کے بعد نیشنل ایکشن پلان میں عمومی مفہوم والی کرپشن کیخلاف اگر کوئی نکتہ یا شق شامل نہیں ہے تو اس میں شامل کر لی جانی چاہئے کیونکہ عوام جس قدر دہشت گردی اور انتہا پسندی سے پریشان ہیں ، اسی قدر وہ کرپشن سے بھی تنگ آ چکے ہیں ۔ عوامی حمایت سے بڑی بڑی جنگیں جیتی جا سکتی ہیں تو اور بھی بہت بڑے کام کئے جا سکتے ہیں ۔ کرپشن صرف پیسہ کمانے کا نام نہیں ہے بلکہ میرٹ اور انصاف کے بنیادی اصولوں کیخلاف جو بھی کام کیا جائے گا ، وہ کرپشن ہے ۔ پاکستان کے عوام امن کیساتھ ساتھ میرٹ اور انصاف پر مبنی معاشرہ قائم کرنا چاہتے ہیں ۔ اگر دہشت گردی کیخلاف جنگ میں فتح حاصل کرنی ہے تو اس جنگ سے کرپشن کے خاتمے کی جو امنگیں وابستہ ہو گئی ہیں ، انہیں لازمی طور پر پورا کرنا ہو گا تاکہ 1965ء والا جو قومی جذبہ دوبارہ بیدار ہوا ہے ، اسے برقرار رکھا جا سکے ۔
تازہ ترین