• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
کہتے ہیں دودھ کا جلا چھاچھ بھی پھونک کر پیتا ہے۔ باہر والے جب گھر کا راستہ دیکھ چکے ہوں تو اس کے مکین چلنے والی تیز ہوا کی سرسراہٹ سے بھی چونک جاتے ہیں اور جس نومولود نے ابھی پاؤں پاؤں چلنے کی خوشی میں کلکاریاں بھی نہ ماری ہوں اسے ٹھوکر کھا کر گرنے کا خوف دامن گیر رہتاہی ہے۔ کچھ ایسا ہی حال پاکستان کی جمہوریت کا ہے۔ 68 سالہ تابناک ماضی ہے کہ بھلے دو تہائی اکثریت بھی حاصل کر لو دھڑکا ہر دم لگا رہتا ہے کب پاؤں کے نیچے سے زمین سرکی اور اقتدار کا سنگھاسن دھڑام سے نیچے آیا۔ بے شک اٹھارویں ترمیم کے ذریعے تاریخ کو دہرانے سے روکنے کیلئے مضبوط بند باندھ دیا جائے لیکن وہ کیا ہے نا کہ ان الفاظ کی گونج کہ’’ آئین کیا ہے،محض چند کاغذات کا مجموعہ جسے میں جب چاہوں پھاڑ کر پھینک دوںـ‘‘ چین نہیں لینے دیتی۔ دل کے بہلانے کو میثاق جمہوریت کی مالا جتنی بھی جھپتے رہو دماغ ’’معاہدے قرآن و حدیث نہیں ہوتے‘‘ کی باز گشت محو نہیں ہونے دیتا۔ کوئی لاکھ قسمیں کھا کر اپنی وفاداری کا یقین دلانے کی کوشش کرے لیکن ق لیگ اور پیٹریاٹ کی یادیں ماضی کو بھولنے نہیں دیتیں۔ پارلیمنٹ کی بالا دستی اور جمہوریت کی مضبوطی کیلئے جتنی قراردادیں منظور کر لی جائیں عملی طور پر ان کی اہمیت کا سوچ کر ایک ہوک ضرور اٹھتی ہے۔
سیاسی اور عسکری قیادت تمام اہم قومی معاملات پر مکمل ہم آہنگی کا پرچار کرتی رہے،ایک ہفتے میں اعلیٰ سطح کی سیاسی اور عسکری قیادت کے درمیان دو بار ملاقات ہو، دہشت گردوں کی بیخ کنی سے جرائم پیشہ عناصر کی پشت پناہی کرنے والوں کیخلاف کارروائی کیلئے اتفاق رائے ہو، مشرقی اور مغربی سرحدوں کی حفاظت سے چین پاکستان اقتصادی راہداری منصوبے کی تکمیل ،بلوچستان میں را کی مداخلت کے ثبوتوں سے لیکر مسئلہ کشمیر کو اقوام متحدہ میں اٹھانے تک یکساں مؤقف پایا جاتا ہو ،پھر بھی کھسر پھسر اور سازشی تھیوریاں ہیں کہ ختم ہونے کا نام نہیں لیتیں۔ دھرنے کا اعلان ہوتا ہے تو حکومت کے خاتمے کی باتیں شروع کردی جاتی ہیں، ماڈل ٹاؤن میں پولیس کی فائرنگ سے بے گناہ افراد جاں بحق ہوجاتے ہیں تو جمہوری حکومت کے دھڑن تختے کی صدائیں بلند ہوجاتی ہیں۔ پارلیمنٹ کے سامنے تاریخی دھرنا اور احتجاج ہوتا ہے تو جمہوریت کا کاؤنٹ ڈاؤن شروع کر دیا جاتا ہے، عسکری قیادت جوانوں سے خطاب میں جمہوریت کی مکمل حمایت اور بھرپور تعاون کرنے کا واضح اعلان کرے پھر بھی کہا جاتا ہے کہ نہیں دال میں کچھ کالا ہے، تحریک انصاف کے ارکان کے استعفے قبول نہیں ہوتے تو دما دم مست قلندر کا شور بپا ہوتا ہے، انہی استعفوں کو قبول کرنے کی تحاریک قومی اسمبلی میں پیش ہوتی ہیں تو نئے انتخابات کی باز گشت پر مکالمے شروع ہوجاتے ہیں، جوڈیشل کمیشن کا قیام عمل میں آتا ہے تو ترکی کے ماڈل کی مثالیں پیش کرنا شروع کردی جاتی ہیں، عدالت عظمیٰ اہم مقدمات پر فیصلے صادر کرتی ہو تو کہا جاتا ہے اس بار جو کچھ ہونا ہے وہ عدالتوں کے ذریعے ہو گا، وفاقی کابینہ کے رکن سازش کے الزام پر عہدے سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں تو باور کر لیا جاتا ہے کہ اب جمہوریت کے دن گنے جا چکے ہیں۔ مسلح افواج کے جوان سیلاب میں گھرے بہن بھائیوں کی مدد کو لپکتے ہیں اور عسکری قیادت آپریشن ضرب عضب کو منطقی انجام تک پہنچانے کے عزم کے اظہار کیلئے اگلے مورچوں پر پہنچتی ہے تو شگوفے چھوڑے جاتے ہیں کہ بس بھئی بس زیادہ حکومت نہیں ،عمران فاروق قتل کیس اور منی لانڈرنگ کی تحقیقات لندن میں ہوتی ہیں لیکن اس کا خمیازہ جمہوریت کا بوریا بستر گول ہونے کی صورت میں بھگتنے کی گپ شپ لگائی جاتی ہے،متحدہ قومی موومنٹ پارلیمنٹ اور صوبائی اسمبلی سے مستعفی ہوجاتی ہے،انہیں منانے کی کوششیں بے سود نظر آتی ہیں تو فتویٰ جاری کردیا جاتا ہے کہ جمہوریت اس ملک میں چل ہی نہیں سکتی، تحریک انصاف کے چیئرمین تین وکٹیں گرانے پر دوبارہ فارم میں آجائیں تو تماشائی پلان بی،سی اور ڈی کا ذکرکرتے ہوئے اس بار امپائر کی انگلی ہر صورت میں اٹھنے کا یقین کامل ظاہر کردیتے ہیں، استحصال کے شکار کسان اپنے جائز مطالبات کیلئے مال روڈ کو بند کر دیں اور اسلام آباد کی طرف لانگ مارچ کا اعلان کریں تو فرض کر لیا جاتا ہے کہ اب جمہوری حکومت کے خاتمے کی تحریک کا ہراول دستہ کسان ہوں گے۔ چھوٹا بھائی ،بڑے بھائی کو نوے کی دہائی کی سیاست شروع کرنے کے طعنے دیتے ہوئے خطرناک نتائج کی دھمکیاں دے تو نجی محفلوں میں یار دوست جمہوری حکومت کو اکتوبر یا زیادہ سے زیادہ دسمبر تک کا وقت دیتے نظر آتے ہیں۔الیکشن کمیشن کے ارکان کے استعفوں کا مطالبہ کیا جائے تو باور کر لیتے ہیں کہ اب ملک میں انتخابات نہیں،کچھ اور ہی ہوگا۔
الیکشن کمیشن کے ارکان اگر کسی بھی دھونس یا دباؤ کے تحت مستعفی ہونے سے انکار کر دیں اور انکیخلاف احتجاج کا اعلان سامنے آ جائے تو بھی ہمیں جمہوری حکومت کی چولیں ہلتی نظر آتی ہیں، امریکی صدر اپنی مشیر سوزن رائس کو ایف پاک پالیسی اور خطے کی صورتحال کے جائزے کیلئے بھیجیں اور وہ اسلام آباد میں جرمن وزیر خارجہ کے ہمراہ حفیظ پاشا جیسے ’’امپورٹڈ حکمرانوں‘‘ سے ملاقاتیں کریں تو نگران حکومت کے قیام کی سرگوشیاں سنائی دینے لگتی ہیں۔ بد عنوانوں کیخلاف جاری احتساب کا دائرہ پنجاب تک وسیع کرنے اور وزیراعظم کے انتہائی قریبی وفاقی وزیر کے مبینہ منی لانڈرنگ کے اعتراف پر تحقیقات کرنیکا مطالبہ سامنے آئے تو قیافہ لگایا جاتا ہے کہ جمہوری حکومت کیخلاف چارج شیٹ تیار ہو چکی ہے، وزیر اعظم بے شک ایپکس کمیٹی کے اجلا س کی صدارت کرتے رہیں لیکن شغل میلہ لگانیو الوں کو یہی یقین ہے کہ ملکی معاملات کی باگ دوڑ ان کے ہاتھ سے گئی کہ گئی۔ کیا اس سیارے پر جسے زمین کہا جاتا ہے کوئی اور مخلوق بھی ایسی ہے جو ہماری طرح ہر لمحہ بے یقینی کا شکار ہو لیکن ہر چیز میں سازشی تھیوری پر اس کا ضرور یقین ہو۔ بتدریج مضبوط ہوتی جمہوریت کے مستقبل کے بارے میں آخر ہم سب بطور قوم خدشات سے دوچار کیوں رہتے ہیں۔ اس بار کہیں اسلئے تو نہیں کہ جب جمہوری حکومت خود اکیسویں ترمیم کے ذریعے اونٹ کو خیمے میں گردن ڈالنے دے گی تو وہ پورا اس کے اندر گھسنے کی کوشش تو کرے گا۔ دیکھا نا میری سوچ کا کمال،بالآخر میں بھی تو اسی پاکستانی عوام کا نمائندہ ہوں جسے جمہوریت ہر وقت خطرے میں گھری ہی نظر آتی ہے۔
تازہ ترین