• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین (6؍ ستمبر 2015ء) سے ایک ہفتے کے دورے پر لاہور تشریف رکھتے ہیں۔ ان کی ہمشیرہ بختاور زرداری بھی ان کے ہمراہ ہیں۔ بلاول ہائوس لاہور میں، عرصہ دراز بعد، پاکستان پیپلز پارٹی کی سیاسی سرگرمیاں ایک نئے پُر جوش انداز میں سامنے آنے یا لانے کی کوشش ہو رہی ہے۔ چیئرمین بلاول بھٹو کی آمد سے پنجاب کی سیاسی سرزمین پر عوامی ہریالی کے نمودار ہونے کے آثار اور پیغامات دکھائے جا رہے ہیں۔
چیئرمین نے اپنی آمد کے فوراً بعد منعقدہ اجلاس میں شرکاء کی تقریریں یا مختلف سیاسی حوالوں سے متعدد موضوعات پر ان کے خیالات سنے، خود چیئرمین نے اپنے خطاب میں کہا ’’مفاہمت نہیں اب مزاحمت، بلدیاتی انتخابات میں مسلم لیگ ’’ن‘‘ کی اینٹ سے اینٹ بجا دیں گے۔‘‘ پیپلز پارٹی کے اس اجتماع سے جنوبی پنجاب کے جنرل سیکرٹری شوکت بسرا اور سینئر نائب صدر حیدر زمان قریشی نے مشترکہ طور پر بھی چیئرمین کی ترجمانی کی، موقع پر موجود اخبار نویسوں اور الیکٹرانک میڈیا کو بتایا ’’طلبہ مزدور اور کسان دوست پالیسیاں اپنائیں گے، پنجاب کے تمام اضلاع کا دورہ خود کروں گا اگر کسی ضلع میں نہیں جا سکا تو وہاں کے کارکن انہیں اپنے درمیان ہی سمجھیں۔ جمہوریت کی مضبوطی کے لئے حکومت کے ساتھ ہیں تاہم حکومت نے جمہوریت کا جنازہ نکال دیا ہے۔ آئین کے مطابق کسانوں پر ود ہولڈنگ ٹیکس نہیں لگ سکتا۔ کسان کنونشن کے مقام اور تاریخ کا جلد اعلان کیا جائے گا۔ الیکشن کمیشن کے ارکان نے جلد استعفیٰ نہ دیئے تو بھرپور اجتماع کریں گے۔
بلاول ہائوس کے ترجمان جمیل سومرو نے وقت ضائع کئے بغیر اس سب کی تردید کر دی، ایک وضاحتی بیان جاری کیا جس کے مطابق ’’میڈیا بریفنگ میں جو کہا گیا وہ درست نہیں۔ بلاول بھٹو زرداری نے پارٹی عہدیداروں سے ملاقات میں بلدیاتی انتخابات اور ٹیکسوں پر بات نہیں کی تھی۔ بلاول بھٹو صرف عہدیداروں سے ملاقاتیں کر کے ان کے خیالات سن رہے ہیں۔‘‘
چیئرمین پاکستان پیپلز پارٹی کی پنجاب آمد پر جوش اور ہوش کے مابین پینڈلم کی مانند ڈولتی ہوئی یہ کیفیت ہی پاکستان پیپلز پارٹی کے آج کے قومی چہرے کی دھندلاہٹ کا عکس ہے! پاکستان پیپلز پارٹی کی تاریخ کے پیش نظر ہمیں سب سے پہلے خود چیئرمین بلاول بھٹو زرداری پر ایک گفتگو کی ناگزیر ضرورت محسوس ہونی چاہئے۔
ڈیڑھ برس ہوتا ہے، سندھ کے مکلی کرکٹ اسٹیڈیم میں منعقدہ کلچرل فیسٹیول کی اختتامی تقریب سے جناب بلاول کے خطاب کو ایک تاریخی گواہی کے طور پر ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔ ذوالفقار علی بھٹو کے نظریاتی وارث قوم پرست نواسے نے کہا تھا ’’ڈرو اس وقت سے جب پوری قوم تمہارے خلاف اکٹھی ہو کر دما دم مست قلند کا نعرہ بلند کر دے گی اور تمہیں بھاگنے کا راستہ نہیں ملے گا، تم لاشوں کے ڈھیر لگا کے جنت کے دروازے کھولنا چاہتے ہو، ایسا ممکن نہیں، اگر تم سمجھتے ہو دہشت گردی کر کے مجھے بھی دوسروں کی طرح خاموش کرا لو گے تو یہ تمہاری بھول ہے۔ تمہیں ہر قدم پر میری للکار کا سامنا کرنا پڑے گا، میں تمہیں عبرت کا ایسا نشان بنا دوں گا تمہارے جنازے کے لئے ایک کندھا بھی نہیں مل سکے گا۔ بدقسمتی سے ہمیں غلط تاریخ پڑھائی گئی، ہمارے معتدل مذہب کو انتہا پسندی کے روپ میں دنیا کے سامنے پیش کیا گیا۔ ہم دہشت گرد نہیں بلکہ دہشت گردوں کا نشانہ بن رہے ہیں۔ ہمارا ملک، ہماری تہذیب، ہماری ثقافت اور ہماری میراث انتہائی خطرے میں ہے۔ دہشت گرد چاہتے ہیں کہ ان کے قوانین نافذ ہوجائیں اگر ایسا ہوا تو ہمارے، ہماری بیٹیوں اور بہنوں کے ساتھ بھی ملالہ جیسا سلوک ہو گا جبکہ ہمارے بیٹے بھی اعتزاز کی طرح موت کی بھینٹ چڑھ جائیں گے، صرف یہی نہیں بلکہ کراچی میں مزار قائد، لاہور میں مینار پاکستان اور لاڑکانہ میں گڑھی خدا بخش کے ساتھ بھی وہی سلوک کیا جائے گا جو زیارت میں قائداعظم کے گھر کے ساتھ کیا گیا‘‘
اس چیلنج، اس للکار، کو ڈیڑھ برس گزر گیا، پھر یہ سنائی نہ دی، اک خلاء پیدا ہوا، ڈیڑھ برس میں اس خلاء کو جنرل راحیل شریف کی قیادت میں افواج پاکستان کی جاں گسل جدوجہد اور لازوال قربانیوں نے پُر ہی نہیں کیا، بلکہ راحیل شریف کو پاکستانی قوم رزم گاہ شہادت کی عظیم ترین علامت کے طور پر پاکستانی قوم اپنے جذبات کے تاریخ ساز ایوان میں سجائے ہوئے ہے، خدانخواستہ اس سے مراد چیئرمین اس قومی للکار، وقت کی اس حیات آمیز صدا کی نفی نہیں، ان کے سامنے زمین کی سنگلاخ حقیقتوں کی تصویر کشی ہے یعنی آپ نے نعرہ مستانہ دیا، اس کے بعد آپ کی آواز اور چاپ کا قوم انتظار کرنے لگی لیکن واقعات کے دھارے میں آپ کہیں اور نکل گئے؟ اب یہ شہادت گاہ آپ کی امانت نہیں رہی حالانکہ عالمی دہشت گردوں نے جن جماعتوں کو پاکستان کی دھرتی پر اپنے لئے فیصلہ کن رکاوٹ ڈیکلیئر کیا تھا، اس میں پہلا نام پاکستان پیپلز پارٹی کا قرار دیا گیا، اس فیصلے کے ساتھ ’’الیکشن 2013ء میں سڑکوں پر آئے تو نام و نشان مٹا دیں گے!‘‘ اور ٹائمنگ ہی قیادت اور سیاست کی کامیابی میں واحد کلید ہے، للکار اور قومی انتخابات دونوں مواقع پر آپ اور آپ کی جماعت نے اس ٹائمنگ کو کھو دیا، آپ واقعات کے گرداب کا شکار ہوئے اور جماعت ’’شہادت‘‘ ہمارا چوتھا سنگ میل ہے‘‘، کا عہد فراموش کر کے موت سے ڈر گئی!
8؍ ستمبر 2015کو، چیئرمین پاکستان پیپلز پارٹی بلاول بھٹو زرداری لاہور میں ہیں، کسان کنونشن بلانے کا اعلان کیا گیا، ہر ضلع کا دورہ کرنے کا نعرہ لگایا گیا، مزدوروں اور غریبوں کی ترستی اور بلکتی زندگیوں کے بجھے چراغوں کو امید اور کامیابی کی روشنیوں سے روشن کرنے کا عزم سامنے آیا، اب یہ تاریخ دل میں ازبر کر لیں، پھر اس لمحے کا آپس میں ذکر ضرور کیجئے گا جب کسانوں کا قومی کنونشن منعقد ہو رہا ہو، جب مزدوروں اور غریبوں کے لئے سڑکوں کی خاک چھاننے جیسے ہجوموں کو لیڈ کیا جا رہا ہو، جب اقلیتوں، عورتوں اور بچوں کے حقوق کی خاطر پورے پنجاب میں تحریک برپا ہو رہی ہو، وہ تاریخ ان لوگوں کو ضرور بتایئے گا جنہوں نے آج سے چیئرمین کی موجودگی کے لمحوں میں، یہ اعلانات سن کر کائونٹ ڈائون شروع کر دیا ہے!
اللہ کے بندو! ایک منظور وٹو کی پنجاب میں صدارت نے پاکستان پیپلز پارٹی کی ساری نظریانی اور عملی جدوجہد کا سر جھکا کے رکھ دیا، آپ آخر عوام کے ساتھ کیا کرنے جا رہے ہیں، آپ ذوالفقار علی بھٹو کے نقوش قدم کو مصلحتوں کی مسافتیں طے کرنے کے لئے کیوں استعمال ہو رہے ہیں؟
جناب بلاول بھٹو! پہلی ٹائمنگ کھو چکے، دوسری کے لئے وہ کراچی کے جلسہ عام میں نمودار ہوئے، جس کے بعد والد گرامی، نے انہیں نظریات کی پوٹلی سمیت بیرون ملک بھجوا دیا، خود سیاست کی عملیت پسندی کے وژن کے ذریعہ پاکستانیوں کے لئے جنت ارضی کی تعمیر شروع کر دی، ایسا ہی کوئی لمحہ تھا جب انہوں نے لاہور میں فرمایا ’’منظور وٹو بہترین انتخاب ہیں!‘‘
انسان فانی ہے، ابدیت کی کیفیت سے ایک درجہ نیچے رہنے ہی میں اس کی سلامتی ہے!
پاکستان میں دائیں بازو کی سیاست پروان چڑھائی گئی ہے۔ ضیاء نے پاکستان کے معاملے میں قائداعظم کے نظریاتی نرخرے سے سارا خون چوس لیا۔ ملک میں قائداعظم کے افکار ترقی پسندوں اور پاکستان پیپلز پارٹی کو روند ڈالا، اگر چیئرمین بلاول ہی وہ جنگجو ہیں جسے عوامی جنت کی سالاری کا اعزاز حاصل ہونے جا رہا ہے۔ سب وہ اپنے والد گرامی کے میڈیا ایڈوائزر ڈاکٹر قیوم سومرو ، سابق وزراء ہائے اطلاعات قمر الزمان کائرہ اور فردوش عاشق اعوان سے پوچھیں، تم لوگوں کو اقتدار کے پانچ برسوں میں ترقی، لبرل اور بائیں بازو کے دانشوروں اور حامیوں کی ایک بھی قومی کانفرنس منعقد کرنے کی توفیق بھی ہوئی؟
چھوڑیں، گہرے پانیوں میں اترنے کی مصیبت میں مبتلا نہ ہوں، بلاول، تاریخ کے گواہ پاکستانی عوام سے آج ہی اپنی تقریر کے دوران ایک سوال پوچھ لیں،
’’بتائو، میرے نانا ذوالفقار علی بھٹو زندہ ہوتے، حلقہ این اے 122کا الیکشن ہوتا، بیرسٹر عامر حسن نام کا کوئی جیالا ایاز صادق کے مقابلے میں اترتا، میرے نانا نے لاہور میں ضرب برپا کئے رکھنی تھی؟
جناب چیئرمین! ذوالفقار علی بھٹو سے منظور وٹو تک کے سفر نے پاکستانی عوام کو’’ ذلتوں کے مارے لوگ‘‘ جیسی کہانیاں دوبارہ پڑھنے پر مجبور کر دیا ہے؟
تازہ ترین