• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
یہ واقعہ لاہور کا ہے۔ میرے ساتھ میرا دوست الطاف تھا۔ ہم ایک تیسرے دوست طارق کے گھر مقررہ وقت سے ذرا پہلے پہنچ گئے۔ چونکہ اس کے گھر کی کنجی الطاف کے پاس تھی اس لئے ہمیں کسی قسم کی فکر لاحق نہ تھی۔ وہ تالا کھولنے کی کوشش کرنے لگا۔ اس کی ناکام کوشش اب جھنجھلاہٹ میں تبدیل ہو چکی تھی۔ وہ کافی دیر سے تالے کے ساتھ زور آزمائی کر رہا تھا، ’’یقیناً یہ تالے کی خرابی ہے جس کی وجہ سے یہ نہیں کھل رہا‘‘ اس نے کہا۔ ’’طارق کو بھی اس کے سوا کوئی تالا نہیں ملا تھا۔ ساری کفایت اس کو بس تالے ہی میں کرنی تھی۔‘‘ اس کے بعد اس نے ملکی صنعت کو کوسنا شروع کر دیا۔ ہمارے صنعتکار صرف چیزوں کی شکلیں بناتے ہیں اور ان کو دکھا کر گاہک سے پیسے وصول کرتے ہیں۔ ان کو اس سے غرض نہیں کہ گھر پہنچ کر وہ گاہک کے کام بھی آئے گی یا نہیں؟۔ اس کا غصّہ اب اس مقام پر پہنچ چکا تھا کہ اگلا مرحلے پر وہ تالا کھولنے کیلئے کنجی کے بجائے اینٹ، پتھر کا استعمال شروع کر دے۔ اتنے میں ہمارا دوست طارق آ گیا۔ ’’کیا تالا کھل نہیں رہا؟‘‘ اس نے کنجی اپنے ہاتھ میں لیتے ہوئے کہا۔ اچھا آپ غلط کنجی لگا رہے تھے، اصل میں آج ہی میں نے تالا بدل دیا ہے مگر کنجی چھلّے میں ڈالنا بھول گیا، اس کی کنجی دوسری ہے۔‘‘ اس کے بعد اس نے جیب سے دوسری کنجی نکالی اور پل بھر میں تالا کھل گیا۔
میں نے سوچا ایسا ہی کچھ حال موجودہ زمانے میں مسلمانوں کا ہو رہا ہے۔ موجودہ زمانے نے زندگی کے دروازوں کے تالے بدل دیئے ہیں مگر ان کا حال یہ ہے کہ پرانی کنجیوں کا گچھا لئے ہوئے تالوں کے ساتھ زور آزمائی کر رہے ہیں اور جب پرانی کنجیوں سے نئے تالے نہیں کھلتے تو کبھی تالا بنانے والے پر اور کبھی سارے ماحول پر خفا ہوتے ہیں ۔
ہمارے بیشتر قائدین کا یہ حال ہے کہ ہر ایک نے اپنے ذوق کے مطابق کچھ مذہب دشمن اور کچھ وطن دشمن تلاش کر رکھے ہیں اور ان مفروضہ دشمنوں کی سازش کو مسلمانوں کی تمام مصیبتوں کا سبب سمجھتے ہیں مگر خدا کی دنیا میں اس سے زیادہ بے معنی بات اور کوئی نہیں ہو سکتی۔ یہاں ہر قوم اور ہر شخص کو صرف اپنی کوتاہیوں کی سزا ملتی ہے۔ اس دنیا میں ہر حادثہ جو کسی کے ساتھ پیش آتا ہے، وہ اس کی اپنی کسی کمزوری کی قیمت ہوتا ہے۔ موجودہ زمانے میں ہماری اکثر مصیبتیں زمانے سے عدم مطابقت کی قیمت ہیں۔ اگر ہم اس عدم مطابقت کو ختم کر دیں تو خود بہ خود موجودہ حالات ختم ہو جائیں گے۔ واقفیت پسندی اور حقیقت نگاری کے دور میں جذباتی تقاریر اور تحریریں، اہلیت کی بنا پر حقوق حاصل کرنے کے دور میں رعایت اور ریزرویشن کی باتیں، تعمیری استحکام کے ذریعے اوپر اٹھنے کے دور میں جلسوں اور جلوسوں کے ذریعے قوم کا مستقبل برآمد کرنے کی کوشش، سماجی بنیادوں کی اہمیت کے زمانے میں سیاسی سودے بازی کے ذریعے ترقی کے منصوبے، یہ سب باتیں اسی کی مثالیں ہیں۔ یہ ماضی کے معیارات پر حال کی دنیا سے اپنےلئے زندگی کا حق وصول کرنا ہے جو کبھی کامیاب نہیں ہوتا۔ آج کا ’’نیا تالا‘‘ ان ’’پرانی کنجیوں‘‘ سے نہیں کھلتا اس لئے دوسرا نتیجہ یہ برآمد ہوتا ہے کہ ہم جھنجھلاہٹ، غصّہ اور مایوسی کا شکار ہو جاتے ہیں۔ آج پوری مسلم قوم کو درپیش المیے کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ ہم نے زمانے کے تقاضے پورے نہیں کئے۔ اس نئے زمانے نے بھی ہمیں اپنے اندر جگہ نہیں دی، بدلے ہوئے زمانے میں ہم پسماندہ رہ گئے ہیں۔ اگر ہم چاہیں تو قومی زندگی کی تعمیر تھوڑے سے وقت میں بھی ہو سکتی ہے اور اس کیلئے زیادہ مدت بھی درکار ہوتی ہے۔ اس کا انحصار اس پر ہے کہ آپ کس قسم کی قوم تعمیر کرنا چاہتے ہیں؟ اگر قوم کے اندر فوری جوش پیدا کرنا مقصود ہے، اگر محض منفی نوعیت کے کسی وقتی ابال کو آپ مقصد سمجھنے کی غلطی میں مبتلا ہیں، اگر عوامی نفسیات کو اپیل کرنے والے نعرے لگا کر تھوڑی دیر کیلئے ایک بھیڑ جمع کر لینے کو آپ کام سمجھتے ہیں، اگر جلوسوں کی دھوم دھام کا نام آپ کے نزدیک قوم کی تعمیر ہے تو اس قسم کی قومی تعمیر، اگر اتفاق سے اس کے حالات فراہم ہو گئے ہوں آناً فاناً ہو سکتی ہے۔ مگر حقیقت یہ ہے کہ یہ قوم کی تعمیر سے زیادہ قیادت کی تعمیر ہے کہ اس طرح کے شور و شر سے وقتی طور پر قائدین کو تو ضرور فائدہ ہو جاتا ہے مگر انسانیت کے اس مجموعی تسلسل کو اس سے کوئی فائدہ نہیں ہوتا جس کو قوم یا ملّت کہتے ہیں۔ اس اعتبار سے دیکھیے تو اس قسم کے طریقے گویا ایک قسم کا استحصال ہیں جن سے فائدہ اٹھا کر وقتی طور پر کچھ لوگ اپنی قیادت جما لیتے ہیں۔ یہ سستی لیڈری حاصل کرنے کا ایک کامیاب نسخہ ہے جس کو سطحی قسم کے لوگ نادانی کی بنا پر ذاتی حوصلوں کی تکمیل کیلئے اختیار کرتے ہیں۔ اگر ہم واقعی قوم یا ملّت کی تعمیر کرنا چاہتے ہیں تو ہم کو یہ سمجھ لینا چاہئے کہ ہم شاہ بلوط کا درخت اگانے اٹھے ہیں نہ کہ خربوزے کی بیل جمانے، یہ ایک ایسا کام ہے جو لازمی طور پر طویل منصوبہ چاہتا ہے اور یہ کہ تھوڑی مدت میں اس کو حاصل نہیں کیا جا سکتا۔ اگر کوئی رہنما ایسے نعرے لگاتا ہے تو وہ یا تو اس کی سادہ لوحی کی دلیل ہے یا اس کی استحصالی ذہنیت کی اور اگر کوئی قوم ایسی ہے جو لمبے انتظار کے بغیر اپنی تعمیر و ترقی کا قلعہ بنا بنایا دیکھنا چاہتی ہے تو اس کو جان لینا چاہئے کہ ایسے قلعے صرف اذہان میں بنتے ہیں، عالم واقعہ نہیں ہیں۔ لوگوں میں طاقت کی اتنی کمی نہیں جتنی مستقل ارادے کی۔ یہ ایک واقعہ ہے کہ اکثر لوگوں کے اندر صلاحیت موجود ہوتی ہے مگر اس کا فائدہ وہ صرف اس لئے نہیں اٹھا پاتے کہ وہ استقلال کے ساتھ دیر تک جدوجہد نہیں کر سکتے اور کسی کامیابی کیلئے لمبی جدوجہد فیصلہ کن طور پر ضروری ہے۔ زندگی کا راز ایک جملے میںہے:’’جتنا زیادہ انتظار اتنی ہی زیادہ ترقی۔‘‘
تازہ ترین