• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
پی ایم ایل (ن) نے اپنے پائوں پر کلہاڑی مار لی ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ حکومت دنیا کو یہ تاثر دینا چاہتی تھی کہ وہ فوجی قیادت سے جہادی نیٹ ورک کی پشت پناہی کرنے سے باز رہنے کا کہہ رہی ہے کیونکہ اس کی وجہ سے پاکستان، جس پر خطے میں دہشت گردی کی حمایت کرنے کا الزام رہا ہے، عالمی تنہائی کا شکارہوسکتا ہے۔ چنانچہ قومی سلامتی پر ہونے والی اُس اعلیٰ سطحی میٹنگ کا مواد کسی نے تو صحافی سرل المیڈ ا کو پہنچایا ہوگا۔ ایسا لگتا ہے کہ اس میٹنگ میں سویلین قیادت نے مسئلہ اور اس کا حل، دونوں فوجی قیادت کی طرف منسوب کردئیے۔
مسئلہ تب پیدا ہوا جب فوج نے افشا ہونے والی خبر پر احتجاج کیا کہ اس کی وجہ سے اس ادارے کی دنیا کی نظروں میں سبکی ہوئی ہے تو حکومت نے خبر کی سختی سے تردید کرتے ہوئے ڈان کے صحافی پر من گھڑت خبر بنا کر ’’قومی سلامتی ‘‘ کو نقصان پہنچانے کا الزام لگادیا۔ تاہم جب ڈان نے خبر کی حقانیت پر اصرار کیا تو فوج نے مطالبہ کیا کہ اسے افشا کرنے والے ذرائع کا پتہ چلایا جائے۔ چنانچہ اپنی بے گناہی ثابت اور فوج کا غصہ ٹھنڈا کرنے کے لئے حکومت نے معاملے کی انکوائر ی کرنے کا اعلان کیا۔ لیکن اس نے سرل المیڈا کا نام ای سی ایل میں ڈال کر اپنے پائوں پر خود ہی کلہاڑی مار لی۔ اس سے یہ تاثر گیا کہ وہ خبر ظاہر کرنے والے ذرائع تلاش کرنے کی بجائے صحافی کو سزا دینا چاہتی ہے۔ یہ کارروائی میڈیا اور فوج کے لئے ناقابل ِ قبول تھی۔ جب فوج نے فوری طور پر خود کو ای سی ایل کے ایشوسے الگ رکھا تو میڈیا نے اپنی توپوں کے دہانے حکمران جماعت کی طرف کھول دئیے۔
اب وزیر ِاعظم صاحب اپنی سیٹ پر بے چینی سے پہلو بدلتے ہوئے اس سوچ میں ہیں کہ وہ کیا کریں۔ کیا وہ پی ایم ایل (ن) کے اُس وفادار، جو بھی ہے، کو نکال باہر کریں جس نے خبر لیک کی، یا پھر صحافی سے تفتیش کریں اور اس کی نقل وحرکت کی آزادی محدود کر دیں؟ اُن کے سامنے مسئلہ یہ ہے کہ وہ کسی طور پر اسٹیبلشمنٹ مخالف صف میں کھڑے دکھائی نہیں دینا چاہتے، خاص طور پر اس وقت جب دفاعی ادارے سرحد پر دشمن کے سامنے کھڑے ہیں۔ وہ داخلی طور پر میڈیا پر قدغن لگاتے ہوئے جمہوری اقدار اور اپنی ساکھ کو بھی مجروح نہیں کر سکتے۔ اس دوران وہ پلٹ کر وار کرنے والی اس نیم پختہ عیاری کا بوجھ بھی اپنے سر نہیں لینا چاہتے۔
اس تمام معاملے میں دلچسپی کی بات یہ ہے کہ افشا ہونے والی تمام چیزیں کبھی بھی راز نہیں تھیں۔ ہر کوئی جانتا ہے کہ وزیر ِ اعظم نواز شریف خارجہ پالیسی اور نیشنل سیکورٹی پالیسی کو فوج سے واپس اپنے ہاتھ میں لینا چاہتے ہیں۔ اُن کا خیال ہے کہ اب سرد جنگ کی باقیات پاکستان کو علاقائی کشمکش میں دھکیلتے ہوئے اسے عالمی تنہائی اور داخلی عدم استحکام سے دوچار کررہی ہیں۔ وزیر ِاعظم کی یہ دلیل کسی طور نظر انداز نہیں کی جاسکتی کہ علاقائی امن کے بغیر پاکستان خوشحالی اور امن کی راہ پر گامزن نہیں ہوسکتا۔ تقریباً تمام سنجیدہ اور آزاد سوچ رکھنے والے تجزیہ کار اس بات کو تسلیم کریں گے کہ مضبوط اور مستحکم معیشت کے لئے علاقائی امن اور سیاسی استحکام کی بنیاد پر وجود میں آنے والی نیشنل سیکورٹی کا از سرنوتعین کرنے کی ضرورت ہے۔ حتیٰ کہ اعلیٰ افسران کے حلقوں میںبھی یہ سوچ پیدا ہوچکی ہے کہ ہمیں سیکورٹی کے حوالے سے اپنے روایتی موقف پر نظر ثانی کی ضرورت ہے۔ اس کا مطلب یہ کہ پاکستان کو بیرونی دشمن (انڈیا ) کی بجائے اندرونی دشمن( انتہا پسندی) سے خطرہ ہے۔ اس کے لئے افغانستان میں تزویراتی گہرائی تلاش کرنے اور امریکہ کو اتحادی سمجھنے کی پالیسی کو تبدیل کرنا ہوگا۔
تاہم اس حوالے سے سہ پہلو مسئلے کا سامنا ہے۔ پہلا یہ کہ فوج نہیں سمجھتی کہ وزیر اعظم نواز شریف ا سٹرٹیجک معاملات کو چلانے اور تبدیل ہوتے ہوئے حالات کے مطابق پالیسی سازی کرنے کے لئے مطلوبہ فکری رسائی یا کوالیفکیشن رکھتے ہیں۔ دوسرا یہ کہ عشروں سے قومی سلامتی کے خود ساختہ معروضات کوکنٹرول کرنے کے بعد اب فوج اسے ’’بدعنوان، نااہل اور بھارت سے دوستی کرنے کے حامی‘‘سیاست دانوں کے سپر د کیسے کردے؟ تیسرا یہ کہ بھارت اور افغانستان سے کسی ٹھوس یقین دہانی، کہ وہ پراکسی دستوں کو استعمال نہیں کریں گے، کے بغیر جہادی تنظیموں اور حقانی نیٹ ورک کا خاتمہ کرتے ہوئے تذبذب کا شکار ہے۔ چنانچہ جب بھی اس کی ان ’’طے شدہ ترجیحات‘‘ کو چیلنج کیا جائے، اس کی ناراضی کا خطرہ پیدا ہونا یقینی امر ہے۔
جہاںتک ڈان کی موجودہ کہانی کا تعلق ہے تو حکومت نے کوئی غلط بات نہیں کی۔ اس نے اسٹیبلشمنٹ سے جہادی نیٹ ورک یا افغان طالبان اوردیگر غیر ریاستی کو ختم کرنے کا کہاتاکہ پاکستان کے بارے میں عالمی رائے عامہ کو بہتر بنایا جاسکے، اور پاکستانی سفارت کاروں کو کشمیر پرپاکستان کا موقف آگے بڑھانے میں مشکل پیش نہ آئے، نیز بھارت پاکستان کو تنہائی سے دوچار کرنے کے لئے دنیا کو یہ نہ کہہ سکے کہ پاکستان دہشت گردی کی سرپرستی کرتا ہے۔ غالبا خبر کو فاش کرنے کا مقصد یہ تاثر واضح کرنا تھا کہ حکمران جماعت اس مسئلے کو حل اور عالمی اور علاقائی دوستوں کا اعتماد حاصل کرنا چاہتی ہے۔تاہم جس طریقے سے خبر کو ہینڈل کیا گیا، اس سے اسٹیبلشمنٹ کی توہین کا پہلو نکلتا تھا۔ چنانچہ اس نے وزیر اعظم سے احتجاج کیا اور خبر افشا کرنے کے ذرائع کا پتہ چلانے کامطالبہ کیا۔ اس مرحلے پر حکومت کو تحمل اور معاملہ فہمی کا مظاہرہ کرتے ہوئے انکوائری کرنے کاحکم دے کر معاملہ رفع دفع کرنا چاہئے تھا۔ تاہم پہلے تو حیل وحجت سے کام لیتے ہوئے، اور پھر سرل المیڈا کا نام ای سی ایل میں ڈالتے ہوئے اس نے فوج اور میڈیا، دونوں کو ناراض کرلیا۔



.
تازہ ترین