• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
یہ بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کی محفل تھی، جو ہفتے کے اختتام پر ہوٹل کے ایک بڑے ہال میں منعقد کی گئی، حاضرین کی اگلے دو دن چھٹی تھی، اس لئے کسی کو بھی گھر جانے کی جلدی نہیں۔ حاضرین کی تعداد پچاس اور ساٹھ کے درمیان رہی ہوگی، یہ سارے لوگ پاکستان کے حالات پر دل گرفتہ ہیں اور کسی اچھی خبر کی تلاش میں پاکستان سے سے حال ہی میں آئے۔ ایک باخبر اور بااثر مہمان کے گرد جمع ہیں ، ان میں دو کے سوا، سارے عمران خان کو چاہنے والے اور تحریک انصاف کی کامیابیوں کی آس لگائے ہوئے ہیں۔ یہ سب 2014ء کے دھرنوں میں بڑے پرجوش تھے، کام سے فراغت کے بعد پاکستانی ٹی وی چینل کھول کر بیٹھ رہتے، دھرنے کے تبصرہ کاروں کے خیالات سنتے، عورتوں نے ڈرامے دیکھنا اور بچوں نے کارٹون ترک کر دیئے، سارا وقت دھرنا اور دھرنے کی خبریں۔ پھر پشاور کے المناک واقعہ کے بعد دھرنا ختم ہوا۔ سپریم کورٹ کی طرف سے بنائے گئے کمیشن کے ’’نیم دروں نیم بروں‘‘ فیصلے نے گویا ان سامعین اور ناظرین کا جوش ٹھنڈا کر دیا۔ تقریباً سارے ہی لوگ کچھ مایوسی اور باقی جھنجھلاہٹ کا شکار ہو گئے۔ بیرون ملک پاکستانی جن کی بھاری اکثریت عمران خان کے ساتھ کھڑی تھی ،عبوری دور کی کسلمندی کے بعد پھر سے اپنی آس کو امید بھری نظر سے دیکھنے لگی ہے۔
رائےونڈ کے جلسے کا اختتام ہوئے چند گھنٹے ہوئے ہیں، پاکستان میں ہفتے کا دن طلوع ہو چکا ہے لیکن یہاں پر ابھی جمعے کی شام ہے اور مسافر طویل سفر سے تھکا ماندہ لیکن دوستوں کا دل رکھنے کو محفل میں چلا آیا ہے۔ وہ اچھی طرح جانتا ہے کہ وطن سے دور بسنے والے ان ہم وطنوں کے دل میں وطن کی محبت موجزن ہے اور وہ اپنے مہمان سے بھی گہری محبت اور عقیدت رکھتے ہیں کہ وہ کبھی غلط بیانی نہیں کرتا اور ان کے نظریات سے ہم آہنگ بھی ہے۔ حاضرین پرجوش اور ہمہ تن گوش ہیں کہ وطن کے تازہ ترین حالات کو جان سکیں اور عمران کی طرف سے تازہ پیش رفت کے بارے میں کوئی اندازہ قائم کریں۔ سوالات کا آغاز کچھ مایوسی اور ناامیدی لئے ہوئے ہے۔ پہلا سوال کرنے والے ڈاکٹر ہیں، صاحب علم، درد دل رکھنے والے پاکستانی جو صرف باتیں ہی نہیں بناتے، بھلائی کے کاموں میں دل کھول کر خرچ کرتے ہیں۔ شوکت خانم اسپتال کے علاوہ تحریک انصاف کی ہر اپیل پر لبیک کہتے ہیں۔ بولے! 2014ء کے دھرنے کا انجام بخیر نہ تھا، نوازشریف کی حکومت ختم نہ ہو سکی، کرپشن اور اقربا پروری پہلے سے زیادہ ہو گئی، قرضے ناقابل عبور حدوں کا جا لگے ہیں، الیکشن کمیشن نے سچائی کا ساتھ نہیں دیا، فوج خاموش تماشائی بنی رہی، پچھلا الیکشن پڑے پیمانے پر دھاندلی، قومی اور بین الاقوامی اسٹیبلشمنٹ کے تعاون سے چھین لیا گیا تو اب کون سے حالات پہلے سے بہتر ہیں کہ وہی سب کچھ نہیں دہرایا جائے گا؟ لوگ مایوسی کا شکار ہیں تو ان حالات میں عمران خان کی طاقت اور عوام کا تعاون 2014ء کے مقابلے میں کم تو نہیں ہو جائے گا؟ پچھلے دھرنے میں ایک دروغ گو مداری کو ساتھ لے لیا، جو چند گز کی دوری پر اپنے فریب کی پٹاری کھول کے بیٹھ رہا اور اس با ریہ خطرہ ہے کہ پیپلزپارٹی کنٹینر پر چڑھ جائے، اس صورت میں بدعنوانی اور کرپشن کیخلاف ہماری اخلاقی ساکھ کو نقصان پہنچے گا اور ہم یہاں اپنے دوستوں اور حریفوں کے سامنے کیا منہ لے کر جائیں گے؟
جواب آیا… دیکھئے ہمیں عمران خان کا تقابل، قائداعظم، اقبال، مودودی، فاطمہ جناح، لیاقت علی خاں، حتیٰ کہ بھٹو اور نوابزادہ نصر اللہ خاں سے بھی نہیں کرنا ہے، وہ سب جا چکے اور کبھی لوٹ کر نہیں آئیں گے، عمران خان آج کی حقیقت ہے، جس کا موازنہ نوازشریف، آصف زرداری، فضل الرحمٰن، اسفند یار ولی، الطاف حسین، فاروق ستار وغیرہ کے ساتھ ہونا چاہئے۔ ان میں کوئی ایک لیڈر علم، ہنر، کردار، انتظامی صلاحیت، ذاتی دیانت اور اداروں کو چلانے کی اہلیت، عوام کو متاثر کرنے، جمع کرنے اور اپنے ساتھ لے کر چلنے کی صلاحیت میں خان کا مقابلہ کر سکتا ہے۔ وہ صرف پرکشش ہی نہیں بہادر، دلیر، جفاکش، انتھک اور دھن کا پکا بھی ہے۔ ہمیں موجود لوگوں میں بہترین کا انتخاب کرنا ہے، ان میں کون ہے جو اس سے بہتر اور باصلاحیت نظر آئے، پھر اسے پاکستان کی نمائندگی کرتے ہوئے ساری دنیا کے لیڈروں کا سامنا کرنا ہے، ان سے بات چیت کرنی ہے، پاکستان کے مؤقف پر قائل کرنا ہے۔ اوباما، ہیلری کلنٹن، روس کے پیوٹن، چین کے صدر، بھارت کے وزیراعظم کے ساتھ بات کرنے میں عمران خان سے بہتر اور قدآور کوئی نہیں۔ اسے کسی عالمی لیڈر کا سامنا کرتے ہوئے لکھی تحریر کی ضرورت نہیں پڑتی۔کہا ’’ہمارے ایک دوست جو نامور ٹی وی میزبان ، مشہور کالم نویس اور سیاست کے بڑے نقاد اور نباض بھی ہیں، وہ کہتے ہیں ’’عمران خان پاکستان کا واحد سیاست دان ہے جو پوچھے گئے ہر سوال کا جواب دینے کی صلاحیت رکھتا ہے، وہ نہ صرف ہر سوال کا جواب دیتا ہے بلکہ انٹرویو سے پہلے کوئی شرط عائد کرتا ہے ، نہ اپنی مرضی کے سوال اور میزبان کا مطالبہ کرتا ہے۔ اس کے حریف تو براہ راست انٹرویو کا سامنا کرنے کا سوچ بھی نہیں سکتے۔ ‘‘ آپ کہتے ہیں کہ پچھلا دھرنابے کا رگیا۔ حالانکہ سیاست دان اور دیگر ادارے ابھی تک اس کے اثرات اور خوف سے نکلنے میں کامیاب نہیں ہو سکے۔ آپ اپنی صفوں میں جھانک کر بتائیے، آپ میں کوئی ہے یا آپ کے جاننے والوں میں جو پہلے عمران خان کے ساتھ تھا، اب نوازشریف یا پیپلزپارٹی کے ساتھ جا ملا ہو؟ بولے کوئی نہیں۔ تو پھر یقین کیجئے پاکستان میں جو اس کے ساتھ تھے، اب بھی ساتھ ہیں، بلکہ اس نے ایک ایک کر کے سب حریفوں کا صفایا کر دیا۔اب اسکا مقابلہ صرف ’’مسلم لیگ نواز‘‘ کے ساتھ ہے، اور آج ہی آپ نے دیکھا کہ شہر سے دور مضافات میں ہونے والا جلسہ اکتوبر 2011ء کے جلسے کے مقابلے میں بھی کہیں بڑا اور پرجوش تھا۔
کپتان مضبوط عزم اور ارادے کا مالک ہے، قوت عمل کی فراوانی ہے ، وسائل اکٹھے اور مہیا کرنے میں اس کاکوئی ثانی نہیں،اس کی باتیں ٹھیک اور مؤقف درست ہے، اس پر کوئی تھکاٹ ہے نہ پژمردگی، اس کے ساتھیوں اور پیروکاروں کی تعداد روز افزوں ہے، وہ پہلے کے مقابلے میں زیادہ پرعزم ، پرجوش اور پر اعتماد ہے۔ اس کے مقابلے میں حکومت پر ضعف اور پژمردگی طاری ہے۔ عمران اپوزیشن میں ہے، اس کے باوجود حکومت اور ملک کی ساری جماعتیں اس کے مقابلے میں اتحاد کرتی ہیں، یہ اس کی طاقت اور کامیابی کی واضح دلیل ہے۔ اسلام آباد بند کرنے کا اعلان ایسی حکمت عملی ہے جو ہر صورت کامیاب رہے گی، نوازشریف کے پاس دو آپشن ہیں، وہ انتخابات کا اعلان کرے یا غیرآئینی اقدام کو دعوت دے،اور نواز شریف حکومت دوسرے آپشن کو ترجیح دے گی، اس آپشن میں ان کیلئے احتساب سے بچنے اور سیاست میں زندہ رہنے کے امکانات زیادہ ہیں۔ میزبانوں کے ترجمان بولے، مزہ آ گیا، ہم یہی سب سننا او رجاننا چاہتے تھے، آخری گزارش یہ ہے کہ پاکستان واپسی پر عمران خان اور سراج الحق سے کہہ دیجئے کہ بیرون ملک پاکستانیوں کے ووٹ کا حق استعمال کرنے کی راہ نکالیں، 80 لاکھ پاکستانی باہر مقیم ہیں، ان میں کم از کم 75فیصد کپتان کے ووٹر ہیں، باقیوں کی اکثریت جماعت اسلامی کے ساتھ ہے، ان میں اگر پچاس فیصد ووٹ کاسٹ ہوں تو عمران کو 35 سے 40 لاکھ تک اضافی ووٹ مل سکتے ہیں۔


.
تازہ ترین