• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
تحریک انصاف کےقائدعمران خان صاحب نے وفاقی دارالحکومت بند کرنے کی دھمکی دے رکھی ہے تو دوسری طرف ان کی طاقت کے اکلوتے قلعے صوبہ خیبرپختونخواکے وزیراعلیٰ پرویز خٹک نے چین پاکستان اقتصادی راہداری کےمغربی روٹ پر ایک مرتبہ پھر عدم اطمینان اور سخت بداعتمادی کا اظہار کر دیا ہے۔ 46ارب ڈالر کا چین پاکستان اقتصادی راہداری منصوبہ نہ سات پردوں میں چھپا ہے اور نہ ہی کسی خفیہ دستاویز کے طور پرآہنی صندوقچوں میں بند ہے یہ زمینی حقائق کا وہ استعارہ ہے جسکے بارےمیں چین اور پاکستان کے اقتصادی ماہرین یقین رکھتے ہیں کہ یہ شاہراہ پاکستان سمیت خطے کی اقتصادی و جغرافیائی حیثیت کو بدلنے جارہی ہے اور یہ حقیقت بھی روز روشن کی طرح عیاں ہےکہ راہداری کا مغربی روٹ نقشے پر واضح ہے جو خیبر پختونخوا اور بلوچستان سے گزر کر پاکستان اور چین کو جوڑنے کا قریب اور سستا ترین راستہ ہوگی، ماہرین کی نظر میں بعض علاقے دشوار گزار اور پہاڑی سلسلوں پر مشتمل ہیں لہذا تکنیکی طور پر کوشش کی جارہی ہے راستے کو ہموار رکھنے کیلئے سڑک کو میدانی علاقوں سے گزارا جائے کیونکہ یہ ایک تجارتی شاہراہ ہےجہاں سامان سے لدے بڑے اور بھاری بھر کم کنٹینرز نے گزرنا ہے لہٰذا ناہموار راستہ خطرات کو دعوت دینے کے مترادف ہے اور تجارت نہیں تو کم ازکم سیاست میں کنٹینر کی حساسیت و اہمیت کا بخوبی اندازہ کم ازکم پی ٹی آئی کی قیادت سے زیادہ کس کو ہو سکتا ہے؟
معاشی تجزیہ کاروں کی نظر میں سی پیک محض سڑک نہیں بلکہ پورے ریجن کو تجارتی سرگرمیوں اور سرمایہ کاری کا ’’HuB‘‘ بنادے گی، اسی حکمت عملی کے پیش نظر معیشت کی ترقی کا پہیہ تیز گھمانے کیلئے نئے کارخانے، فیکٹریاں اور صنعتی یونٹس گنجان علاقوں نہیں تو کم ازکم ’’Settled‘‘ علاقوں میں لگانا ترجیح ہے۔ پنجاب اور سندھ سے اقتصادی راہداری کو گزارنا انہی مقاصد کی تکمیل کا حصہ ہے تاکہ سرمایہ کاروں کو اپنا سامان متعلقہ مقام پرلانے میں آسان رسائی ’’Access‘‘ اور پیداواری عمل ’’production‘‘ کیلئے قابل افرادی قوت اور پھر تیار مال کو مقامی منڈیوں تک پہنچانے کا قابل عمل میکانزم دستیاب ہوسکے، غور اور سمجھنے کی کوشش کی جائے تو ملکی آبادی کے پانچ فیصد والے صوبے بلوچستان، جو کہ کراچی کی آبادی کا تقریبا نصف بنتاہے، سے گزرنے والی راہداری پر بڑے اقتصادی یونٹس اور کارخانے لگانے مندرجہ بالا بیان کردہ نکات کی روح سے مشکل ہوسکتا ہے تاہم متبادل توانائی (ہوا اور شمسی توانائی سےبجلی بنانے) کے بڑے منصوبے مقامی افراد، علاقے کی ترقی اور ملک میں توانائی کی ضروریات کو پورا کرنے کی مد میں فائدہ مند ہوسکتا ہے،
قارئین کرام ’’Logic‘‘ سےسادہ سی مثال دی جاسکتی ہے کہ اگر کراچی سمیت سندھ سےمتصل علاقوں سے گزرنے والی راہداری پر بڑے صنعتی یونٹس سے روزگار کےمواقع بھی پیدا ہوں ساتھ ہی اگر کوئی (پانی، ایل این جی یا کوئلے کا) ایک بڑا توانائی کا منصوبہ بھی لگ جائے تو جہاں پورے صوبے کی توانائی کی ضرورت پوری ہوگی وہاں نیشنل گرڈ سے سندھ کو فراہم کردہ بجلی دیگر صوبوں کو دیدی جائے یوں لوڈشیڈنگ کا مسئلہ بھی حل ہو جائیگا، معاملہ اتنا سادہ اور قابل فہم ہونے کے باوجود خیبرپختون خواہ کے وزیراعلیٰ کا صوبائیت کے نام پر سیاست چمکانا اور قومی مفاد کو پس پشت ڈالنا کتنا دانشمندانہ فعل ہوسکتا ہے؟
سوچنے اور عقلمندی کی بات تو یہ بھی ہے کہ دنیا میں اگر کسی بڑی طاقت نے خطےمیں ہماری بطور صاحب علم و دانشمند قوم کی بجائے محض جغرافیائی اہمیت کے پیش نظر کوئی حیثیت دے ہی دی ہے تو اسکی قدر کرنا بھی تو ہمارا کام ہی نہیں بلکہ فرض اور قرض عین بھی ہے، ہمیں اپنی آنکھوں پر بندھی خود غرضی کی سیاہ پٹی اتار کر چشم براہ ہونا چاہئے کہ چین کی شکل میں ہمیں دنیا کا ایک طاقتور اور معاشی طور پر مضبوط ساتھی میسر آہی گیا ہے تو خود اپنا دشمن بننے پر کیوں مصر ہیں؟ ہمیں تو اس کاشکرگزار ہونا چاہئے کہ بھلے سے مفادات کے تحت ہی سہی راہداری اس ملک کا مقدر بنانے کی ٹھاننے کے طفیل چین ہمارے مفادات کے علاقائی اور بین الاقوامی ’’دشمنوں‘‘ کو بھی خود دیکھ اور نمٹ لے گا، اسکا عملی مظاہرہ گزشتہ روز چینی صدر نے بھارت میں ’’برکس کانفرنس‘‘ کے دوران بھی کیا جب انکا ہاتھ تو وزیراعظم مودی سے مل رہا تھا لیکن دل پاکستان کیساتھ دھڑک رہا تھا، انہوں نے بھارتی وزیراعظم کی پاکستان مخالف منہ زور خواہش کو ہاتھ چھوڑنے کیساتھ ہی جھٹک کر دوستی کا حق بھی ادا کیا۔ ایک سفارتی ذریعے کے مطابق گزشتہ برس ایک بین الاقوامی کانفرنس کے دوران چینی سفیر نے امریکی سفیر سے مکالمے میں واضح کیا کہ ’’ہمیں پاکستان سے اتنا ہی پیار ہے جتنا آپ کو اسرائیل سے‘‘۔ اس سے یہ بھی اخذ ہوتا ہے کہ بین الاقوامی سیاست میں پیار ’’رومانس‘‘ والا نہیں بلکہ معیشت اور مفادات والا ہوتا ہے۔
قارئین محترم، دنیا میں قومیں قومی مفاد کو اسی طرح عزیز رکھتی ہیں جیسے گھر کے کسی ایک فرد کے بیمار ہونے کی صورت میں پورا خاندان پریشان ومضطرب ہو جاتا ہے، اسکی صحت یابی اور فعالیت کیلئے یک جان ہو جاتا ہے، اسی طرح خاندان کا ایک ضدی،جھگڑالو اور طمع میں مبتلا فرد پورے خاندان کا امن وسکون تباہ بھی کر دیتا ہے، سیاسی معاشرتی ماہرین اس سماجی رویے یا اپروچ کو ’’Micro Politics‘‘ کانام دیتے ہیں، اپنے ہاں نظر دوڑائی جائے تو وفاق اور بڑے صوبے کے حکمران عوام کےمسائل کو بھاڑ میں ڈال کر ’’بے مثال ترقی وخوشحالی‘‘ کا نعرہ اور تعلیم وصحت کی بجائےاربوں کےقابل نظارہ منصوبوں کی آڑ میں ’’سب اچھا‘‘ کی رٹ لگا کر جمہوریت کے نام پر پرسکون ہوکر ’’مدت‘‘ پوری کرنے کی تگ و دو میں مصروف ہیں جبکہ ’’مسٹرخان‘‘ بے پروا ہوکر کبھی رائیونڈ کا اور اب وفاقی دارالحکومت کوبند کرنے کا کارنامہ سرانجام دینے کی مقدور بھر جدوجہد میں لگے ہیں، کوئی ذرا ان سے پوچھے کہ بلند اور محفوظ وزیراعظم ہائوس میں امن پذیر اور ہیلی کاپٹر و جہازوں میں باہر نکلنے والوں کا کچھ بگڑے یا نہیں وفاقی دارالحکومت کے بیس سے بائیس لاکھ رہائشیوں کا گھر اور راستہ بلکہ ناطقہ بند کرکے آپ کو کیا ملے گا؟ کاروبار بند بلکہ مزدوروں کے چولہے بجھا کر کیا حاصل ہوگا؟ نیا پاکستان کےخواب کے چکر میں بچوں کو اسکول، کالج اور یونیورسٹی جانے سے روک کر کونسی قومی خدمت ہوگی؟
ایک سیانے کے بقول دنیا میں صرف ’’ضد‘‘ اور ’’زور‘‘ سے کام چلتا تو پھر صرف ’’پہلوان‘‘ ہی ہر جگہ اور ہر کسی کیلئے کافی ہوتے، کسی سائنسدان، انجینئر اور لیڈر کی ضرورت نہ ہوتی۔ اچھی اور شفاف جمہوریت کے دعوئوں کے شکار عوام کی نظریں حب الوطنی کے جذبوں سے سرشار مسیحائوں کی متلاشی ہیں اور مطالبہ کررہی ہیں کہ خدارا، جمہوریت پر بحال ہوتا اعتماد و اعتقاد پامال ہونے سےبچالیں، 20لاکھ شہریوں کو بند کرنے کی ضد ترک کریں، معاشی واقتصادی ترقی اور روشن مستقبل کی راہ کے روشن ہوتے ’’دیئے‘‘ صوبائیت کی نفرت آمیز پھونکوں سے بجھانے کی کوششیں چھوڑ دیں، اب 20 کروڑ مخلص عوام کے قیمتی ووٹوں سے پروان چڑھی محبت کا قرض اتاریں یہی موجودہ اور آنیوالی نسلوں کی بقا اور پاکستان کےمفاد میں ہے اور دنیا میں باعزت جینے کا سلیقہ بھی.....!


.
تازہ ترین