• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
وہ قریباً 37سال سے زائد عرصے سے پشاورکے مختلف علاقوں میں آباد ہیں گزشتہ رمضان میں جب حالات میں کچھ تیزی آئی توانہوں نے بچوں سمیت واپس افغانستان کا رخ کیا اورابھی جب پاکستان پر افغانوں کو ہراساں کرکے واپس بھیجنے کے الزامات ہی لگ رہے تھے اوروہ سب جاتے جاتے اپنے ہمسایوں کو کہہ گئے تھے کہ اب وہ صرف ایک ہی بارواپس آئیں گے اورگھروں میں پڑا ہوا باقی کا سامان واپس لے جائیں گے کیونکہ انہیں اب افغانستان میں امن آنے کے بعد پاکستان کو مستقل خیرباد کہہ دینا ہے ہم کافی افسردہ تھے کیونکہ کئی عشرے ہوگئے تھے ساتھ رہتے رہتے، لیکن ابھی ہم ان کی جدائی کے لئے خود کو عادی کرہی رہے تھے کہ وہ پھر آگئے اوراب کی بار توان کے ہمراہ پھربیوی بچے اوروالدین بھی موجود ہیں ان سے پوچھا ہم تو سمجھ رہے تھے کہ اب کی بار تم صرف اپنا سامان واپس لینے اوراپنے کرائے کے گھر مالکان کو واپس کرنے آئوگے توکہنے لگے ہاں اب کی بار پاسپورٹ بناکرآئے ہیں اورنہ صرف اب آئے ہیں بلکہ اب تو جب بھی ویزے کی میعاد ختم ہوگی پھرجاکرنیا ویزہ لگاکرآئیں گے۔ فیصلے کے باوجود واپس آنے کی وجہ پوچھی توکہنے لگے کہ ہمیں تو افغان حکومت نے کہا تھا کہ افغانستان میں امن آچکا ہے اوراب خپل وطن گل وطن(اپنا دیس۔پیارادیس) کے پروگرام کے تحت وطن کو آباد کرنا ہے لیکن حقیقت تو یہ ہے کہ افغانستان کے بڑے حصے میں کہیں امن نام کی چیز نہیں پائی جاتی ہے کابل سے لیکرقندوز تک اورہلمند سے لیکر بلخ تک ہرجگہ بدامنی کا راج ہے ریاست افغانستان کا وجود اگرکہیں کہیں تھوڑا نظرآتا ہے تووہ بھی صرف کابل تک ہے،جن ریاستی اورسیکورٹی اداروں نے دنیا بھر کی مدد سے تربیت حاصل کی اورافغانوں کو بتایا گیا کہ اب ان کی اپنی فوج ملک کا دفاع کرنے کے قابل ہوگئی ہے وہ بھی ابھی زیادہ ترکابل اورارد گرد کے بعض شہروں تک محدود ہے۔ اس سے آگے دوسرا مسئلہ وطن واپس لوٹنے والے مہاجرین کی آباد کاری کا ہے وہ بھی ابھی حل ہونا باقی ہے پورے ملک میں افغان مہاجرین کی بحالی کا کوئی بندوبست نہیں۔ ملک بھرمیں مہنگائی کا طوفان ہے جس میں افغان اوران کا مستقبل کہیں بہتا ہوا نظرآرہا ہے۔
میں نے پوچھا توپھر،، توکہنے لگے کہ جب تک افغانستان میں مکمل امن نہیں ہوگا ہم اپنے گھرپاکستان میں رہیں گے میں نے پھر پوچھا انڈیا کے بارے میں کہا جارہا ہے کہ وہاں پر بھی افغانوں کو بڑا ہاتھوں ہاتھ لیا جارہا ہے اوروہاں پر پاکستان کے بغض یا افغانوں کی محبت میں ہندوپنڈتوں نے دل اورسینے وا کئے ہوئے ہیں توکہنے لگا کہ انڈیا کی ساری گیم سیاسی ہے جوصرف پاکستان کو نقصان پہنچانے کے لئے افغانوں کے لئے اپنی بانہیں کھولے ہوئے ہے ورنہ افغانوں کے لئے ان کے پاس اتنا کچھ بھی نہیںجتنا ظاہرکیا جارہا ہے، وہ انڈیا جس کے ہاں اپنے لوگوں کے لئے لیٹرین اورکروڑوں کے سرپرچھت نہیں وہ افغانوں کو کیا پناہ دے گا، بس ساری گیم سیاسی ہے۔
وہ ایک نہیں تھا اس دوران ہماری اس بات چیت میں وہ باقی افغان بھی جوارد گرد کی آبادیوں میں رہتے ہیں اورشام کو ایک جگہ اکٹھے ہوتے ہیں وہ بھی آگئے، ان سب کو واپس اپنے ارد گرد دیکھ کرایک خوشی بھی ہوئی کہ وہ جن کے جانے سے ہماری زندگی میں ایک خلا سا بن گیا تھا واپس آگئے ہیں۔ ہم خوشی خوشی ان دنوں کی باتیں کررہے تھے جوہم نے گزشتہ چند ماہ کے دوران ایک دوسرے کے بغیرگزارے تھے، ان سب میں پاکستان سے زیادہ محبت کرنے والے نے بتایا کہ وہ دن عجیب تھے جب بدخشان میں میرے چھوٹے چھوٹے بچے ہاتھوں میں افغانستان کے جھنڈے پکڑے دل دل پاکستان کے گانے گارہے تھے انہیں اتنا بھی نہیں پتہ تھا کہ جس پاکستان میں وہ پیدا ہوئے اوراس کے ا سکولوں میں پڑھ رہے ہیں یہ جھنڈے اس کے نہیں۔ وہ پہلی بار افغانستان کا جھنڈا اٹھائے ہوئے تھے اس لئے انہیں معلوم نہیں تھا کہ اس جھنڈے کے ساتھ ان کو کونسا قومی گانا گنگنانا ہے ۔
قصہ مختصر.....وہ لوگ جو افغانوں کی واپسی کے خواب دیکھ رہے تھے اورا س کے لئے پاکستان کو بدنام کرنے کا کام بھی ساتھ میں کررہے تھے ان کے لئے بری خبر یہ ہے کہ وہ افغان جوپاکستان کی قدرے زیادہ پرامن فضا میں رہنے کے عادی ہوئے انہیں اب افغانستان میں کہاں چین ملے گا اس لئے وہ اپنی حکومت کی کوششوں کے باوجود واپس پاکستان لوٹ رہے ہیں۔ بھارت انہیں ترغیب دیتا ہے کہ پاکستان کو چھوڑکے اس کے ہاں چلا جائے لیکن اتنے زیادہ پروپیگنڈوں کے باوجود بھی افغانستان کے مسلمان کو اپنے کلچر، مذہب اوریکساں طرززندگی کی بدولت بھارت کے مقابلے میں پاکستان ہی بھاتا ہے۔
افغانستان جاکرواپس آنے والوں کی تعداد یقیناجانے والوں سے کئی گنا کم ہے اورواپس جانے والے وہاں اپنی قسمت آزمائی کی کوشش میں وقت لیں گے اورواپسی کے مجموعی نتائج اس عرصے کے بعد ہی سامنے آئیں گے تاہم پاکستان واپس آنے والے ایسے افغانوں کی نمائندگی کرتے ہیں جواس قسم کے مسائل سے دوچارہیں۔
جاتے جاتے کچھ اہم نکات کا بھی حوالہ دینا ضروری سمجھتا ہوں کہ کابل اوردیگرافغان شہروں میں پاکستان کے خلاف پروپیگنڈہ کرنے والوں کو بھی سمجھنا ہوگا کہ افغانی پاکستانی پولیس کی سختی سے نہیں بلکہ پانچ مختلف وجوہات کی بنا پرواپس جارہے ہیںجن کی تصدیق کسی بھی وقت اقوام متحدہ کے ادارہ برائے مہاجرین کے ریکارڈ سے کی جاسکتی ہے کہ افغانوں کے واپس جانے کی بڑی وجوہات میں افغان حکومت کا ترغیبی پروگرام خپل وطن گل وطن ہے جس کا ڈھنڈورا توبہت پیٹا جارہا ہے لیکن زمینی حقائق بہت مختلف ہیں۔ دوسری وجہ پاکستان میں بارڈرمینجمنٹ ہے جب پاکستان نے اپنے بارڈرپردستاویزات چیک کرنے کی شرط عائد کردی توبس معاملہ گمبھیرہوگیا اورافغانوں کو واپس جانے میں ہی عافیت نظرآئی۔ تیسری وجہ یو این ایچ سی آرکی جانب سے وطن لوٹنے والے فی افغان کو دوسو کی بجائے یہ رقم بڑھاکرچارسوڈالربنی۔ چوتھی وجہ پاکستان میں افغانوں کو ملنے والے پی اوآر(پروف آف ریذیڈنس) کے کارڈکی مدت میں کمی ہے یعنی پہلے یہ کارڈ سالوں کے لئے بنتے تھے اب صرف چند ماہ کے لئے بنتے ہیںجبکہ آخری وجہ غیررجسٹرڈ افغانوں کے خلاف پولیس کی کارروائی ہے۔ اب ایسی صورت میں سارا ملبہ پاکستان کی پولیس پرڈالنا کسی بھی صورت مناسب نہیں۔


.
تازہ ترین