• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
گزشتہ دنوںسےایک نئی بحث کا آغاز ہوگیا ہے انگریزی کے ایک موقر اخبار کے رپورٹر کے ذریعے ایک ایسی خبر جو ملکی سالمیت اور حفاظت سے متعلق تھی شائع کرا کے ملکی حفاظت اور سالمیت کو بیچ چوراہے پر لا کر رکھ دیا ہے۔ دراصل یہ کوئی گہری سازش معلوم ہوتی ہے کسی ایسے گھر کے بھیدی نے جو موجودہ حکمرانوں سے بغض رکھتا ہے ان کے اپنے قریبی ساتھیوں میں سے کوئی نادان دوست یا کوئی آستین کا سانپ ہے جو نہیں چاہتا کہ میاں صاحب اب مزید مسند اقتدار پر براجمان رہیں اس نے بہت سوچ سمجھ کر منصوبہ بندی کے ساتھ ایک راز کو جو ملکی سالمیت اور حفاظت سے متعلق تھا افشا کیا تاکہ افواج پاکستان کو برہم کر کے حکمرانوں کے سامنے لا کھڑا کرے اور ایسا ہی ہوا افواج پاکستان اس خبر کی اشاعت سے ہکا بکا رہ گئی اور جنرل راحیل شریف کو فوری رد عمل کے طور پر کور کمیٹی کا اہم اجلاس طلب کرنا پڑا اور ایک سخت بیان اہل سیاست کو اور عوام کو سننا پڑا۔
جس ذریعے نے بھی وہ خبر رپورٹر تک پہنچائی اس نے ایک تیر سے کئی شکار کرنے کی کوشش کی یہ بھی ممکن ہے کہ انہیں موقر انگریزی اخبار سے کوئی پرخاش ہو اس طرح انہوں نے اخبار سے اپنا بدلہ لیا ہو دوسرے میاں صاحب کو افواج پاکستان کے خلاف بھڑکانے کی مذموم کوشش ان کا مقصد ہو اور تیسرے افواج پاکستان کو میاں صاحب کے سامنے لا کھڑا کرنا ہو۔ میاں نواز شریف اور ان کی حکومت میں شامل تمام ہی ارکان کے خلاف حزب اختلاف کی جماعتوں میں جو لاوا پک رہا ہے وہ بھی سامنے کی بات ہے کوئی ڈھکی چھپی نہیں۔ تحریک انصاف جو دھرنے کی سیاست کر رہی ہے اس کے علاوہ پیپلز پارٹی بھی میدان میں اتر رہی ہے پہلا قدم اتوار کی ریلی کے ذریعے سامنے آچکا ہے اور دھرنا جو کہ اپنے شہدا کی برسی کے موقع پر کیا ہے جبکہ پیپلز پارٹی مخالفین اب تک اسےفرینڈلی اپوزیشن کا طعنہ دیتے رہے ہیں۔ برقی ذرائع ابلاغ کے اینکرز کا اپنا انداز گفتگو ہے کئی اینکرز نے تو اس خبر کے حوالے سے بڑی بڑی پیش گوئیاں کرنا شروع کردی ہیں جبکہ جنرل راحیل نے کبھی بھی آئین اور قانون کے خلاف کبھی کوئی قدم نہیں اٹھایا۔ایسا محسوس ہو رہا ہے کہ تمام ہی برقی ذرائع ابلاغ نے پیش گوئیاں کرنے کی فیکٹریاں لگا رکھی ہیں وہ پر سے کوّا بنانے کی ماہر ہیں۔ سب سے پہلے خبر نشر کر کے نمبر بنانا اب ٹیلی وژن نشریات کا معمول بن گیا ہے اور تجزیے تبصرے کی آڑ میں وہ کچھ کہہ دیا جاتا ہے جس کا دیکھنے والے سننے والوں کو گمان تک نہیں ہوتا بال کی کھال اتارنا ٹی وی والوں کا فن ہے وہ اس میں بڑے ماہر سمجھے جاتے ہیں،طرح طرح کے پروگرام تجزیوں، تبصروں کے نام پر طوفان برپا کرتے ہیں حالانکہ وہ خبر جس کے رد عمل کے طور پر حکومت کو اور افواج پاکستان کو خفت اٹھانا پڑی ہے وہ کسی ایسے ہی گھر کے بھیدی نے باہر نکالی ہے۔ فی الحال تو الٹی آنتیں گلے پڑتی نظر آرہی ہیں افواج پاکستان کی برہمی اپنی جگہ درست ہے کیونکہ ملکی اور قومی سلامتی چاہے وہ ملکی سرحدوں کی حفاظت سے متعلق ہو یا نظریاتی سرحدوں سے متعلق وہ اپنی ذمہ داری سمجھتے ہیں اور ایسا ہے بھی جس کا ثبوت ضرب عضب کے نام سے ملک کے اندر نظریاتی مخالفین کا مقابلہ کر کے ان کا صفایا کرنا اور پڑوسی ممالک کی ملکی سرحدوں پر در اندازی کو ہر قیمت پر روکنا اور انہیں منہ توڑ جواب دینا جس میں بلا شبہ اب تک کوئی کسی طرح کی کمی نہیں دیکھی گئی ملک کے اندر دہشت گردی پر قابو پانے اور بڑے شہروں کے امن و امان کو بحال کرنا یہ سیاست دانوں کا نہیں افواج کا ہی کارنامہ ہے حکمرانوں کی بے حسی اور عوام سے لا تعلقی کو دیکھتے محسوس کرتے ہوئے ہی شاید چیف جسٹس آف پاکستان کو یہ کہنا پڑا کہ ملک میں جمہوریت کے نام پر بادشاہت ہو رہی ہے۔ تمام ہی سیاسی جماعتوں کا متفقہ مطالبہ ہے کہ میاں نواز شریف پانامالیکس سے متعلق اپنے آپ کو احتساب کے لئے پیش کردیں یا اقتدار چھوڑ دیں ایسا محسوس ہو رہا ہے جیسے سانپ کے منہ میں چھچھوندر پھنس کر رہ گئی ہے۔ میاں صاحب سے نہ نگلتے بن رہی ہے نہ اگلتے بن رہی ہے۔
عوام بے چارے نہ گھر کے رہے نہ گھاٹ کے وہ بے بسی سے افواج کی طرف دیکھ رہے ہیں کیونکہ جمہوریت کے نام پر حکومت کرنے والوں نے عوام کو لوٹ کر اس کا بھرکس نکال دیا ہے عوام میں اب وہ قوت وہ احساس ہی ختم کردیا گیا ہے کہ وہ حکومت کی نا انصافی زیادتیوں اور لوٹ مار کے خلاف کسی طرح کے رد عمل کا اظہار کرسکے شاید عوام کی اس بے بسی اور بے حسی کی نمائندگی جناب چیف جسٹس صاحب نے یہ کہہ کر کی ہے کہ عوام سوچ سمجھ کر اپنے ووٹ کا استعمال کریں۔ عوام کی بے بسی اپنے عروج پر ہے مہنگائی کے طوفان کے باوجود سب کچھ برداشت کرنے پر مجبور ہیں عوام کی خاموشی اور برداشت سے حکمران اور اہل سیاست ناجائز فائدہ اٹھا رہے ہیں عوامی نمائندے جو عوام کے ووٹ سے ان کے نمائندوں کے طور پر قانون ساز اسمبلیوں میں براجمان ہیں انہیں بھی اس سے قطعی دلچسپی نہیں ہے کہ عوام کا ان کے اپنے ووٹر کا کیا برا حال ہو رہا ہے انہیں بھی اپنا الو سیدھا کرنے سے مطلب ہے عوام جائیں بھاڑ میں جب الیکشن ہوگا تب کی تب دیکھی جائے گی۔ حکومت اپنے گھر سے تحقیق شروع کرے۔ اس طرح اس میٹنگ کا ایک حصہ کلیئر ہوجائے گا باقی رہ گئے حکمرانوں کی بچھائی شطرنج کی بساط کے مہرے تووہ بھی چند ہی افراد ہوں گے درجن دو درجن یا سینکڑوں میں نہیں ہوں گے پھر انہیں چیک کرلیا جائے ساتھ ہی اس ایوان میں موجود خدمت گاروں کو بھی چیک کرلیا جائے تو دودھ کا دودھ پانی کا پانی ہو کر سامنے آجائے گا اور یہ معلوم ہوجائے گا کہ غلطی کہاں ہوئی اور کس نے کی۔ رہی اخبار کی یا اس کے نمائندے کی بات تو یہ ان کی مجبوری ہوتی ہے وہ ایسے افراد کی تلاش میں رہتے ہیں جو ان کے مددگار ثابت ہوسکیں۔ کوئی تو ہے جس نے گھر کا بھید افشا کیا ہے۔اللہ اہل وطن کی وطن عزیز کی حفاظت فرمائے اور عقل سلیم عطا فرمائے، آمین۔


.
تازہ ترین