• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
اس بار یومِ دفاع، 6ستمبر کا اپنا لطف تھا۔ جذبوں کابے ساختہ اظہار، ولولوں کا والہانہ اعلان، جیسے قوم نے خود کو دوبارہ دریافت کر لیا ہو اوردُشمن کو ایک بار پھر صحیح صحیح پہچان لیا ہو۔ صبح آنکھ کھلی تو ٹی وی چینلز پر 1965 ءکے جنگی ترانوں کی گونج تھی، اے دُشمنِ دِیں تو نے کِس قوم کو للکارا۔ اللہ کی رحمت کا سایہ، توحید کا پرچم لہرایا، اے مردِ مجاہد جاگ ذرا، اب وقتِ شہادت ہے آیا، اللہ اکبر۔ مساجد میں شہدائے وطن کیلئے بلندیٔ درجات اور مادرِ وطن کی سلامتی و استحکام کیلئے دُعائیں تھیں۔ مساجد میں یہ دُعائیں کچھ خاص دِنوں کیلئے مخصوص نہیں۔ ہم نے تو اکثر و بیشتر مساجد میںتقریباً ہر نماز کے بعد دیکھا کہ ربِ ذوالجلال کے حضور اُٹھنے والے ہاتھوں کیساتھ جو التجائیں لبوں پر آتی ہیں، اِن میں کشمیر کی آزادی اور وطن ِ عزیز کی سلامتی کی دُعائیں بھی شامل ہوتی ہیں۔ اس روز اِن میں سوزوگداز کی کیفیت ہی کچھ اور تھی۔
جذبۂ جہاد اور شوقِ شہادت، پاکستانی نیشنلزم کی اہمیت سے بھی انکار نہیں۔ پاکستان میں غیر مسلم اقلیتوں کی حب الوطنی کسی بھی شک و شبہ سے بالاتر ہے۔ دُشمن کے ساتھ فضائی معرکوں میں پاک فضائیہ کے بہادر افسر سیسل چوہدری کی جانبازی ہماری عسکری تاریخ کا اہم باب ہے۔ بدقسمتی سے مذہب کے نام پر ہونے والی دہشت گردی نے ہمارے بعض لبرل اور روشن خیال دوستوں کو ، خود’’مذہب‘‘ کے خلاف مقدمہ بنانے کا مواد مہیا کردیا اور نوبت یہاں تک پہنچی کہ ایک خاتون دانشور نے تہذیبوں کے تصادم clash of civilizations کی تھیوری کا خالق سیموئیل ہنٹنگٹن کی بجائے نسیم حجازی کو قرار دیدیا اور اس کے لیے، قیصر و کسریٰ، محمد بن قاسم ،اور تلوار ٹوٹ گئی ، خاک و خون، داستانِ مجاہد، آخری چٹان اور یوسف بن تاشفین جیسے ان کے ناولوں کو، بطور’’ثبوت‘‘ پیش کیا لیکن اس کا کیا علاج، کہ جب بھی دُشمن سے آنکھیںچار کرنے کا موقع آتا ہے، سپریم سورس آف انسپائریشن اسلام ہی بنتا ہے۔ 6ستمبر کو عسکری تقریبات سمیت ملک بھر کے گلی کوچوں میں گونجنے والے نغمے، اِسی ابدی صداقت کااظہار تھے۔
اس روز صبح وزیراعظم نوازشریف نے لاہور کے بارڈر پر نشانِ حیدر میجر عزیز بھٹی شہید سمیت شہدا کی یادگار پر حاضری دی تو رات کو مسلح افواج نے جی ایچ کیو میں ایک یادگار تقریب کا اہتمام کیاجہاں شہداء کے لواحقین بھی تھے۔جن کے جذبوں کا اظہار سننے اور دیکھنے والوں کی آنکھوں کو نم کرگیا۔ یہاں عسکری و سیاسی قیادت کی یک جائی قومی یک جہتی و ہم آہنگی کا فرحت بخش اظہار تھا۔ ہمارے بعض دوست ، جمہوریت کے خلاف جن کا بُغض چھپائے نہیں چھپتا، سیاسی و عسکری قیادت میں فاصلوں کے افسانے تراشتے رہتے ہیں۔ وہ فوجی عدالتوں والی 21 ویں ترمیم کی منظوری کے وقت جناب رضا ربانی کی تقریر کا ذکر کرتے ہیں، جس میں ربانی صاحب نے نم آلودلہجے میں کہا کہ وہ پارٹی ڈسپلن کی پابندی میں بوجھل دِل کے ساتھ اس ترمیم کے حق میں ووٹ دے رہے ہیں۔ (ہمارے خیال میں تو اس میں اعتراض کی کوئی بات نہیں تھی۔ دہشت گردی کے خلاف جنگ ِ عضب اور نیشنل ایکشن پلان کے جملہ اقدامات، ظاہر ہے غیر معمولی اقدامات ہیں، غیر معمولی حالات میں جن سے روگردانی نہیں کی جاسکتی۔
وزیردفاع خواجہ آصف اور عسکری قیادت کے تعلقات کے حوالے سے بھی طوطا مینا کی کہانیاں پھیلائی جاتی ہیں۔ قومی اسمبلی میں قائدحزب اختلاف خورشید شاہ کے ایک حالیہ بیان پر بھی تبصروں اور تجزیوں کا طوفان اُٹھادیا گیا لیکن 6ستمبر کی شب جی ایچ کیو میں یہ سب موجود تھے۔ مسلح افواج نے اپنی اس یادگار تقریب کیلئے ان سب کو مدعو کیا تھا۔ رضا ربانی ، خورشید شاہ اور خواجہ آصف ، جنرل راحیل کے ساتھ آئے تھے جو اس تقریب کے دولہا تھے۔ یہاں معزز مہمانوں کے پروٹوکول کا پورا اہتمام تھا۔ چیئرمین سینٹ صدرِ مملکت کی عدم موجودگی میں، ایوانِ صدر میں اِن کا جانشین ہوتا ہے۔ جی ایچ کیو کی اس تقریب میں جناب رضا ربانی کی نشست آرمی چیف کے ساتھ تھی۔ انکے بعد قائدِ حزبِ اختلاف خورشید شاہ، وزیر دفاع اور دیگر وزرا.....اور اس سب کچھ کی اپنی اہمیت تھی۔ بعض دوستوں نے یہاں جنابِ صدر اور وزیراعظم کی عدم موجودگی کی بات کی۔ ظاہر ہے، یہ پروٹوکول کا معاملہ تھا لیکن عمران خاں کیوں تشریف نہ لائے؟
آرمی چیف کی تقریر میں کشمیر، پاک بھارت تعلقات، کراچی اور بلوچستان کے معاملات اور دہشت گردی کی جنگ کے حوالے سے قومی مؤقف کا بھرپور اظہار تھا۔ انکے یہ الفاظ قوم کے ہرمرد وزن اور پیروجواں میں جذبوں کی نئی جوت جگاگئے کہ جنگ روایتی ہو یا غیر روایتی ، ہاٹ اسٹارٹ ہو یا کولڈا سٹارٹ، ہم ہر طرح کی جنگ کیلئے تیار ہیں اور اس کیساتھ مسئلہ کشمیر کو اقوامِ متحدہ کی قراردادوں کے مطابق حل کرنے کی بات۔
آرمی چیف کی یہ تقریر بلاشبہ قابلِ تعریف تھی۔ آج کل’’موازنے‘‘ کا دور ہے، چنانچہ ہمارے ایک قابلِ احترام دوست یہاں بھی یہ ’’کارِ خیر‘‘ کئے بغیر نہ رہے۔ وہ اِسے گزشتہ 20سال میں کشمیریوں کی دلجوئی کرنیوالی پہلی آواز قرار دے رہے تھے۔ بڑی سادگی سے یہ بات کہہ دینے والے ہمارے دوست کیا یہ کہنا چاہتے ہیں کہ پاکستان کی سیاسی قیادت، یہاں کے منتخب اِدارے ، کشمیر کو بھول گئے۔ جون 2013 ءمیں نوازشریف تیسری بار وزیراعظم بنے۔ ستمبر میں اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی کے سالانہ اجلاس سے اپنے خطاب میں اُنہوں نے مسئلہ کشمیر کا پورے زوروشور سے ذکر کیا۔ عالمی امن اور استحکام کیلئے اقوامِ متحدہ کے کردار کا ذکر کرتے ہوئے اُنہوں نے یاد دِلایا کہ اس نے مسئلہ جمو ں و کشمیر کے حل اور اہلِ کشمیر کے حقِ خودارادیت کیلئے وہ کردار ادا نہیں کیا جو اسے کرنا چاہئے تھا۔ انہوں نے عالمی ضمیر کوجھنجھوڑتے ہوئے کہا، اہلِ کشمیر کے مصائب و آلام کو، عالمی پالیٹکس کی وجہ سے قالین کے نیچے نہیں چھپایا جاسکتا۔ نوازشریف کی اس تقریر نے ان کے بھارتی ہم منصب من موہن سنگھ کو اتنا بدمزہ کیا کہ وہ اوبامہ سے اپنی ملاقات میں اس کی شکایت کئے بغیر نہ رہے بلکہ اگلے روز ناشتے پر ہونے والی ملاقات بھی خطرے میں پڑ گئی تھی۔ (میاں صاحب نے من موہن سنگھ پر لگائی بجھائی کرنے والی دیہاتی عورت کی پھبتی کسی) عالمی مبصرین کے مطابق برسوں بعد یہ پہلا موقع تھا جب پاکستان کے کسی وزیراعظم نے اس شدومد کے ساتھ عالمی برادری کے سامنے کشمیریوں کا مقدمہ پیش کیا تھا۔ اگلے ماہ دورۂ امریکہ کے دوران صدر اوباما سے ملاقات میں بھی کشمیر اہم موضوع تھا۔ امریکی صدر سے وزیراعظم پاکستان کا کہنا تھا کہ وہ کشمیر کے کور ایشو سمیت پاک بھارت تنازعات کے حل کیلئے اپنا کردار ادا کریں۔ 2014میںجنرل اسمبلی کے سالانہ اجلاس سے وزیراعظم کے خطاب میں کشمیر کے حوالے سے شدت گزشتہ سال سے بھی زیادہ تھی۔ اس سال(2015) 5فروری کو یومِ یکجہتی ٔ کشمیر پر مظفرآباد میں آزاد کشمیر اسمبلی سے اپنے خطاب میں وزیراعظم نوازشریف نے کشمیر کو پاکستان کی شہ رگ قرار دیتے ہوئے کہا(قائداعظم کے الفاظ کا اعادہ) ، کشمیریوں کی خواہشات کے منافی کوئی بھی حل پاکستان کیلئے قابل قبول نہیں ہوگا۔9جون کو تاجکستان میں اقوامِ متحدہ کے سیکریٹری جنرل بانکی مون سے ملاقات میں وزیراعظم نوازشریف نے زور دیا کہ وہ خطے میں امن اور مسئلہ کشمیر کے حل کیلئے ، ’’پروایکٹو رول‘‘ ادا کریں۔
حقیقت یہ ہے کہ پاک، بھارت تعلقات اور مسئلہ کشمیر پر پاکستانی قوم اور اس کی عسکری و سیاسی قیادت یکسو ہے۔ 6ستمبر کو آرمی چیف کا خطاب اسی قومی اتفاقِ رائے کا اظہار تھا۔
تازہ ترین