• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
پاکستان میں جمہوریت کا نشہ ہر شہری محسوس کر رہا ہے مغرب بھی جمہوریت کا بہت پرچار کرتا رہا۔ مگر وہاں جمہوریت سے زیادہ جمہور کا خیال رکھا جاتا ہے۔ جمہوریت کا مطلب ہے گڈگورننس ، اس کا مطلب ہے دوست سرکار۔ جو عوام کو مایوس نہ کرے۔ کیا ہمارے ہاں جمہوریت، عوام کو آرام اور حوصلہ دیتی ہے۔ اس وقت بھی ملک کے حکمران، قومی اسمبلی کے ممبران، اشرافیہ، اعلیٰ نوکر شاہی، جمہوری نظام کو بچانے اور چلانے کیلئے بڑی کوشش کر رہے ہیں۔ جمہوریت کی شمع صرف ان کو روشنی دے رہی ہے ۔ عوام کے ہاں اندھیرا ہی اندھیرا ہے۔ میاں نواز شریف کی سرکار کو اب تک اک پل بھی چین نہیں ملا۔ ان کے دعوے بہت تھے مگر معاشرے میں کرپشن اتنی زیادہ ہے کہ اب اس نظام پر اعتبار کرنا مشکل ہے۔ عوام کا اس ملکی نظام پر اعتبار کیسے ہو جہاں انصاف کیلئے وکیل حضرات عدالت اور قانون کو خاطر میں نہ لائیں۔ حالیہ دنوں میں سپریم کورٹ بار اور وکیلوں کی نمائندہ تنظیموں نے سبکدوش ہونے والے چیف جسٹس کے ساتھ جو رویہ رکھا وہ کسی بھی طرح قابل ستائش نہیں۔ اس وقت بھی وکیلوں کے رویہ کے خلاف بار کونسلوں کے پاس سات ہزار سے زیادہ شکایات کا معاملہ تاخیر کا شکار ہے۔ ایسے میں وکیلوں کی وجہ سے عوام کا وقت اور پیسہ بھی برباد ہو رہا ہے۔
اصل معاملہ تو جنرل مشرف کے دور میں شروع ہوا جب اس وقت کے چیف جسٹس کو یک جنبش قلم فارغ کردیاگیا۔ اس وقت بنیادی حقو ق کی شہری تنظیموں اور وکیل حضرات نے جدوجہد کی۔ پھر عسکری قیادت کی مشاورت سے فارغ چیف جسٹس کو ان کے عہدہ پر دوبارہ مقرر کیا گیا۔ وکیل حضرات اس کے بعد اس جن کی مانند ہو گئے جو بوتل سے برآمد ہونے کے بعد کسی کو خاطر میں نہیں لاتا۔پھر آئے دن کی ہڑتالیں۔ قانون کے محافظ ہی قانون کو نظر انداز کرنے لگے۔ جج حضرات کو بھی بے توقیر کیا گیا۔ کچھ وکلا کے خلاف کارروائی بھی ہوئی۔ مگر عدالتوں کا وقار بار اور کورٹ کے درمیان ایک سوال بن گیا۔ اس وقت ضرور ی ہے کہ وکیل حضرات اپنے پیشے کے تقدس کیلئے روا داری کا مظاہرہ کریں اور عوام کو مایوس نہ کریں۔
لاہور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس اس معاملہ میں بار کی مدد کرنے میں پیش پیش رہے اور انہوں نے پوری کوشش کی ہے عدلیہ کے وقار پر حرف نہ آئےاور وکیل حضرات کو بھی عزت و احترام دیا جائے۔ عدالتوں میں التوا کی درخواستوں کے بارے میں کوشش کی جارہی ہے کہ مقدمات کو جلد از جلد سن کر فیصلہ کردیا جائے۔ انصاف میں تاخیر ہی قانون کو کمزور اور انصاف کی حیثیت کو ختم کردیتی ہے۔
وکیل حضرات کو یہ غیر معمولی طاقت اس جمہوریت کی وجہ سےملی۔ اس وقت اعلیٰ عدالتوں میں جو مقدمات آئین کے حوالے سے اور سیاسی جماعتوں کی اسمبلی میں قانونی کارروائی کے نتیجے میں مقدمات کی صورت دائر کئے جاتے ہیں جبکہ عوام کے معاملات کو پس پشت ڈال کر آئینی مقدمات پر توجہ دی جاتی ہے۔ اس وقت ضرورت ہے کہ بنیادی حقوق اور آئینی معاملات پر علیحدہ عدالتی فورم ہو جو مقررہ وقت میں فیصلے کرکے نظام کو سہارا دے سکے۔ یہ نظام ملک کو مسلسل کمزور کر رہا ہے۔ اس نظام کی وجہ سے تمام سرکاری ادارے اپنی حیثیت کم سے کم تر کرتے جا رہے ہیں۔ نیب کا ادارہ کوئی بھی ایسا کام نہیں کرسکا جس پر فخر کیا جا سکے۔ پھر کرپشن کے خاتمہ کیلئے جو بھی ملکی ادارے کا م کر رہے ہیں وہ مقدمات اور الزامات کے بوجھ تلے اتنے دب چکے ہیں کہ ان کی اپنی حالت مخدوش ہے۔ صوبوں کے درمیان ہم آہنگی نہیں ہے۔ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں صوبوں میں باہمی مشاورت نہیں ہے مرکزی سرکارملکی مفاد کے فیصلوں میں آئینی تاخیر کر رہی ہے جو عوام کو مزید مایوسی سے ہمکنار کررہی ہے۔ ٹیکس کے معاملات پر تاجروں کی ہڑتال، بجلی کے منصوبوں میں تاخیر اور کرپشن کی کہانیاں اب تو سب کی زبان پر ہیں۔
پنجاب کے وزیر اعلیٰ شہباز شریف نے نندی پور پروجیکٹ اور بہاولپور میں سولر بجلی منصوبہ میں دانستہ کرپشن اور بدانتظامی کی پرزور تردید کی ہے۔ مگر سوال تو یہ ہے کہ غفلت اور عدم توجہ بھی کرپشن کو جنم دیتی ہیں۔ نندی پور پروجیکٹ پہلے پیپلز پارٹی کی سرکار میں صرف نظر ہوا، وہ اس الزام کو قبول نہیں کرتے ان کا کہنا ہے کہ مفاہمت کی سیاست کی وجہ سے ایسا ممکن نہ تھا۔ پھر اس کی لاگت میں اضافہ بھی حیران کن ہے۔ اس کا کسی کے پاس جواب نہیں۔ پھر مرکزی سرکار کے وزیروں نے نندی پور پروجیکٹ پر جو دعوے کئے تھے وہ سب کے سب کمزور نکلے اور کچھ ایسا ہی معاملہ بہاولپور سولر منصوبے کیساتھ ہوا۔ دونوں جگہ سے مطلوبہ نتائج حاصل کرنے مشکل لگ رہے ہیں یہ سب کچھ کیا غفلت اور عدم توجہ کے زمرے میں نہیں آتا۔ کون سا ایسا حکومتی ادارہ ہے جو اس بات کا اندازہ ہی لگا سکے۔ عدالتوں پر وزیر صاحبان کے عدم اعتماد نے حالیہ دنوں میں سیاسی کشمکش میں اضافہ کرد یا ہے۔ عدالتی معاملات پر سرکاری وزیروں کی بیان بازی کسی بھی طرح مناسب نہیں ہے۔ اس وقت بھی پاکستان معاشی اور دہشت گردی کی جنگ میں مکمل شریک ہے۔ دوسری طرف ہمارے ہمسائے بھی جنگ کی دھمکیاں دے رہے ہیں۔ ایسے میں فوج کو مکمل یکسوئی چاہئے مگر اندرون ملک خلفشار نے فوج کو بھی مصروف کر رکھا ہے مرکزی سرکار کا دعویٰ ہے کہ وہ معیشت کو مضبوط کرنے کیلئے نجکاری کر رہی ہے۔
آئی ایم ایف کی مدد سے ملکی معیشت میں انقلابی تبدیلیوں کیلئے وزیر خزانہ جناب اسحاق ڈار آئے دن دبئی میں مذاکرات کیلئے بے چین رہتےہیں۔ ودہولڈنگ ٹیکس کا معاملہ ملکی کاروبار میں مداخلت لگ رہی ہے اور ایسا ٹیکس جس کا جواز یہ ہو کہ اس سے ٹیکس دینے والے شمار ہو سکیں گے۔ بہت ہی فضول اور خطرناک ہے۔ بنکوں کے کھاتوں تک سرکار کی رسائی ہے۔ لوگ بڑی گاڑیوں میں نظر آتے ہیں بڑے گھروں میں ان کی رہائش ہے۔ مگر اتنے بڑے لوگوں کے نام نہ گھر ہیں، نہ گاڑیاں اور نہ ہی ٹیکس کا کوئی ثبوت۔ نزلہ اگر گر رہا ہے تو عام عوام پر، تاجروں پر، کاروباری لوگوں پر۔ یہ ٹیکس کا معاملہ قابل توجہ ہے۔ مگر وزیر خزانہ کسی کی بات سننے کو تیار نہیں۔ وہ شاید آئی ایم ایف کو یقین دلا چکے ہیں کہ وہ ناممکن کو ممکن بنا سکتے ہیں۔ یہ غیر یقینی کی صورت حال ملک کے مستقبل کیلئے خطرناک ہے۔ ہر بدلتی صورت حال پر وزیر اعظم ہائوس سے بیان آتا ہے کہ وزیر اعظم نے نوٹس لے لیا۔ اب اس زبانی جمع خرچ کو بند کرنا ضروری ہے۔ پاکستان کے ملکی معاشی، سیاسی نظام میں شفافیت بہت ہی ضروری ہے۔ ایک طرف نواز شریف سرکار کا یقین ہے کہ حکومت کا کام کاروبار نہیں۔ دوسری طرف وزیر اور مشیر اس کام میں مشغول ہیں۔ ایل این جی (گیس) کے معاملات پر بہت اعتراض کئے جا رہے ہیں مگر نواز شریف کابینہ اس معاملے پربات تک نہیں کرتی۔ کس بات کی پردہ داری ہے۔ عوام کے پیسے کا جواب دینا ضروری ہے۔ وزیروں کا کام صرف الزام تراشی اور بہتان بازی ہی نہیں ہونا چاہئے ان کو عوام کے درمیان آ کر ان کی دل جوئی بھی کرنی چاہئے۔ کابینہ کے صرف دو وزیر ایسے نظر آتےہیں جو مسلم لیگ نواز کو بچانے اور چلانےکیلئے اپنی سی کوشش ضرور کررہے ہیں۔ وزیر داخلہ چوہدری نثار پر یہ الزام تو لگ سکتا ہے کہ وہ دوسروں کو اصولوں کی وجہ سے خاطر میں نہیں لاتے مگر وہ نیک نام ضرور ہیں۔ دوسرے وزیر دفاعی پیداوار اور سائنس کے رانا تنویر ہیں۔ وہ بھی اپنے کام سے کام رکھتے ہیں۔ مگر دو وزیروں سے تو حکومت چلائی نہیں جاسکتی۔ وزیر اعظم نواز شریف نے کہا تھا کہ سب وزیروں کی کارکردگی پر نظر رکھی جائے گی اور عوام کو بتایا جائے گا ۔ مگر کچھ بھی ایسا نہ ہوسکا پاکستان کے عوام بے بسی اور لاچاری کی تصویر ہیں ان کیلئے کچھ کرنا ضروری ہے ۔
تازہ ترین