• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
یاد دلایا گیا:’’18؍ اکتوبر 2007ء کو پاکستان پیپلز پارٹی کے جلوس میں ہونے والا دھماکہ دنیا کی تاریخ میں کسی بھی پارٹی کے جلوس پر سب سے بڑا حملہ تھا جس میں 177جانثار شہید اور 630زخمی ہوئے‘‘
چیئرمین پاکستان پیپلز پارٹی بلاول بھٹو 16؍ اکتوبر کو ’’یوم شہداء سانحہ کار ساز‘‘ کے موقع پر ریلی کی صورت میں جمہوریت کے ان جاں نثاروں کو ، عوام کے ہمراہ، سلام عقیدت پیش کریں گے!
کیا یہ صرف ایک ریلی تھی؟ طالب علم کا کہنا تھا ’’اسے ریلی کون کہتا ہے؟ یہ پاکستان بھر کے جمہوریت پسند عوام کی جانب سے ان لوگوں کو سلام تسلیم خم تھا جنہوں نے ’’پاکستانی آئین کی بالادستی، ووٹ کی حرمت اور جمہوری تسلسل‘‘ کی عظیم پاکستانی جدوجہد کی تاریخ قربان گاہ میں اپنے نام کندہ کرائے، اعتراف کا یہ آوازہ، بظاہر سندھ سے بلند ہوا، مگر اسے کراچی کے ساتھ ساتھ کوئٹہ، لاہور، پشاور اور اسلام آباد کی فضائوں کے سندیسوں میں بھی سننے کی کوشش کرو، پورا ملک ایک ہی سانس میں دنیا ہی کو نہیں خود کو بھی باور کرا رہا تھا ’پاکستان کے بیدار و توانا جسد کو لاحق تمام سیاسی، سماجی، تعلیمی، اخلاقی، عمرانی، نظریاتی، ثقافتی اور تہذیبی بیماریوں کا تیر بہدف علاج ایک مقررہ آئینی مدت کے بعد آئینی بالادستی، ووٹ کی حرمت اور جمہوری تسلسل کے بینرتلے مسلسل عام انتخابات کا انعقاد ہے ان بنیادی عوارض سمیت تمام جزوی عارضے بھی خود بخود دور ہوتے جائیں گے!‘‘ ایک پہلو وار نظریہ یہ تھا ’’اس ریلی کو جسے تم پاکستان کے عوام کی اجتماعی صدا قرار دیتے ہو، اس میں پہلی بار یہ خوش گوار حیرت موجود تھی جسے ’’کراچی کے عوام کی شرکت‘‘ کا نام دیا جا سکتا ہے یعنی اندرون سندھ سے گاڑیوں، ٹریکٹروں، ٹرالیوں، موٹر سائیکلوں اور بسوں پر آئے لوگوں کا کوئی وجود تھا ہی نہیں، کراچی کے عوام کی شرکت سے پاکستان پیپلز پارٹی کے ساتھ ان کی ذہنی وابستگی کی مستقل سیاسی یاددہانی کے مترادف ہے‘‘، یہ پہلو وار تجزیہ بامعنی کیفیت میں ڈھل گیا جب ریلی میں بلاول کے کہے گئے یہ الفاظ سامنے آ گئے ’’میری نئی ٹیم آپ کو مایوس نہیں کرے گی‘‘ نئی ٹیم کا انتخاب تو ویسے دوسرے صوبوں میں بھی متوقع ہے، فی الحال اس تناظر میں مراد علی شاہ، مولا بخش چانڈیو اور سینیٹر سعید غنی ذہن پر دستک دیتے ہیں، سینیٹر سعید غنی کے بارے میں ایک مثبت سی روایت بھی شائع ہو چکی جس کے مطابق، محترمہ فریال تالپور کے گھر ایک دانشور کھانے پر مدعو تھے، سینیٹر کا شریک ہونا ویسے ہی متوقع تھا، کھانا چنا جا چکا، تقاضائے مجلس کے تحت کچھ دیر بیٹھے رہے، پھر یہ کہہ کر محترمہ سے اجازت طلب کی ’’پارٹی اجلاس منعقد ہونے کو ہے مجھے پیشگی اجازت عنایت فرمائیں، انتظامی امور وغیرہ کا اہتمام کرنا ہے، وزیر اعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ کا، گزشتہ دنوں عطاء الحق قاسمی نے وزیر اعلیٰ پنجاب شہباز شریف سے ایک مثبت سا موازنہ کر ڈالا اور تو اور ایک بہت ہی صائب الرائے محترم نے وزیر اعلیٰ سندھ کے اس اعلان کا ذکر کیا۔ تمام کاروباری مراکز صبح نو بجے کھلیں گے اور شام کو سات بجے بند ہو جائیں گے۔‘‘ اور پھر کراچی کی کاروباری برادری سمیت خود غرضی کے سوداگروں کا ایک حقیقی مگر بھیانک نقشہ کھینچا تاآنکہ وزیر اعلیٰ سندھ سے مخاطب کر کے کہا ’’تاجر برادری کو توانائی کے مسئلے پر ملک سے کوئی ہمدردی نہیں، دوپہر کے بعد کاروبار شروع کرنے اور آدھی رات کے وقت بند کرنے پر یہ برادری تلی ہوئی ہے‘‘ مطلب اس کا سندھ میں صوبائی ریاستی انتظامیہ میں متحرک تبدیلی کے سوا کچھ نہیں، رہ گئے مولا بخش چانڈیو، انہیں بروقت تحمل، بروقت اظہاریئے، بروقت مزاحمت کا کامیاب ترین نمونہ کہنا انصاف کے ساتھ کوئی نا انصافی نہیں، میڈیا سے گفتگو میں برداشت کے ساتھ ساتھ پارٹی موقف کا بیانیہ، جاندار تجزیہ کاری سے بھرپور ہوتا ہے، سینیٹر سعید غنی البتہ گھن گرج کے بجائے اپنا بیانیہ دلائل کی ناقابل تردید دفاعی فائلوں سے تیار کرتے اور پھر مدمقابل کے لئے اسے سد راہ بنا دیتے ہیں۔ چنانچہ چیئرمین بلاول بھٹو زرداری کا یہ دعویٰ ’’آپ میری نئی ٹیم سے مایوس نہیں ہوں گے‘‘ سندھ کی حد تک، سو فیصد نہ سہی دس بیس فیصد کم درست ہے اصولاً، یہی سو فیصد ہوتا ہے، زندگی کا متوازی میزانیہ اسی کا نام ہے، چلتے ہیں پنجاب کی جانب دیکھتے ہیں وہاں کون سی نئی ٹیم نظر آتی ہے یا نظر نواز کی جاتی ہے؟ یہ موقع تھا جب مجلس کے ایک شریک گفتگو نے کہا ’’کراچی کے بعد اب چیئرمین کو سیدھا پنجاب کا رخ کرنا چاہئے، وہ لاہور کے فیصل چوک (چیئرنگ کراس) میں ٹرک پر کھڑے ہوئے، پنجاب کی قیادت کا معاملہ ورکروں اور ایک آدھ قیادتی فرد کو چھوڑ کر، صرف چودھراہٹ، ہے، بلاول فیصل چوک سے پنجاب کے عوام کو پہلا جملہ کہیں ’’میں بلاول بھٹو، ذوالفقار علی بھٹو کا نواسہ، تمہاری بی بی شہید کا بیٹا، ایام اسیری کی پُر شجاعت مثال آصف علی زرداری کا بیٹا، تمہارے پاس آیا ہوں، آئو! میرےسنگ چلو‘‘ ’’پھر دیکھنا کیا ہوتا ہے، وہ لاہور سے یادگار پاکستان تک یہ ریلی لے کر چلیں، آ کے تو دیکھیں، یادگار پہنچ کر فیصل آباد کے لئے جلسہ عام کا بگل بجا دیں، علیٰ ہذا القیاس‘‘
لیکن پنجاب کی ’’نئی ٹیم‘‘؟ اس کا جواب تو تمہارے اس خواب میں بھی پوشیدہ نہیں، یہ جواب ہے، پنجاب میں ایک بے رحم سیاسی عملیت پسندی کے بعد مجوزہ ٹیم کی نئی تشکیل، چغل خور، دولت پرست، گروہی سازشوں کے سرخیل، ذاتی انا کی قربان گاہ پر جواں سال افراد کی نفی کے علمبرداروں کا اس ٹیم میں وجود تک دکھائی نہ دے، بلاول کو باقاعدہ ابھی بھی وقت ہے، مختلف ذرائع نے دیانتدار نظریاتی افراد کی اپنی اپنی فہرست بھیجی، براہ راست اپروچ ہرگز آسان نہیں، انہیں ای میل کریں، بھرمار کر دیں، بات ان تک لازماً رسائی حاصل کرے گی!‘‘
--oپاکستان پیپلز پارٹی سندھ تک محدود ہو چکی ہے؟
--o پاکستان پیپلز پارٹی کے تن مردہ میں جان نہیں پڑسکتی؟
--oپاکستان پیپلز پارٹی ’’بحال‘‘ ہونے کے امکانات بھی موجود نہیں رہے؟
--oآصف علی زرداری تو پارٹی پر ’’ملبہ‘‘ ہیں، انہیں نفی کرنا پارٹی کے لئے ناگزیر ہو چکا ہے؟
--oفریال تالپور، آصف صاحب کی ہمشیرہ ہیں، انہوں نے پوری سندھ پیپلز پارٹی ہی نہیں پاکستان پیپلز پارٹی کو یرغمال بنایا ہوا ہے، انہیں بھی آصف علی زرداری کے ساتھ ہی مائنس کیا جائے؟
--oبلاول خود آگے بڑھیں، آصفہ اور بختاور اس کے ساتھ کھڑی ہوں؟ پھر دیکھیں کیا ہوتا ہے؟
--oذوالفقار جونیئر اور فاطمہ بھٹو کو بلاول منانے کی کوشش کریں؟
--oایک نوزائیدہ پیپلز پارٹی کی تشکیل کا عزم کر لیں؟
پاکستان پیپلز پارٹی کے ان خیر خواہوں کی فی الحال یہ آٹھ تھیوریاں پیش کی گئی ہیں، قومی سیاست میں ان کے جنیاتی موجد، قیام پاکستان کے ساتھ ہی جنم لے چکے تھے، ان کی تعداد اور قوت بڑھی ہے کم نہیں ہوئی۔ جمہوری عمل جاری ہونے پر ان کی طاقت کو سیاسی دیمک ابھی کھانا شروع ہی ہوئی ہے، یہ اس جمہوری عمل کو ’’سبوتاژ‘‘ کرنے کا کارنامہ انجام دے دیتے ہیں، شاید ہی کبھی ناکام ہوئے ہوں یا ناکامی انہیں ہر بار پاکستانی عوام کی چوکھٹ پر جھکنے کی صورت میں ہوئی۔ جب ہر پھر کرآخر کار ہر بار ہی عام انتخابات کا انعقاد کرانا پڑا، آفرین ہے ویسے ان کی ’’جینیاتی بیماری‘‘ پر ابھی تک ’’مصطفیٰ کمال کی ہٹی‘‘ جیسے کاروبار ان کے شب و روز کا نہایت ہی پرمسرت، اور قوم کے لئے اجتماعاً ’’پُرھول‘‘ شغل ہے۔ بلاول بھٹو نے یہ کہہ کر یونہی دریا کو کوزے میں بند نہیں کر دیا ’’کھلاڑی کو شیر کے شکار کا ٹھیکہ دے دیا گیا ہے‘‘، کہاں پہ ضرب لگی، پہنچانا مشکل نہیں، پاکستانی اسے استعاروں کو جاننے کے ’’حافظ ‘‘ بن چکے ، جب چیئرمین پاکستان پیپلز پارٹی نے یہ کہا، مجھے اسی 2016میں چند ماہ پیشتر اسفند یار ولی کے ساتھ حامد میر کا لائیو انٹرویو یاد آ گیا، جس میں اسفند نے دوبار، بلا ابہام، ببانگ دہل چیلنج کیا ’’کسی کا باپ بھی نواز شریف سے استعفیٰ نہیں لے سکتا؟ ‘‘
سلام شہداء ریلی کے اس اصولی سے تجزیاتی خاکے کے ابھی متعدد رنگ باقی ہیں، ان کا ذکر اذکار ہوتا رہے گا، پنجاب کی مجوزہ نئی ٹیم کا بھی انتظار ہے، فی الحال اس راز، پر اختتام کرتے ہیں جس کی روشنی میں کہا جاتا ہے ’’قومی سیاسی جماعتیں ’’ہٹیاں‘‘ نہیں ہوتیں‘‘



.
تازہ ترین