• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
مسئلہ کشمیر کو تقریباََ 70سال ہونے کو ہیں۔ اس دوران دنیا میں کئی مسائل پیدا ہوئے اور حل بھی ہو گئے لیکن مسئلہ کشمیر پر ابھی تک کوئی پیش رفت نہیں ہو سکی باوجود اس کے کہ لاکھوں کشمیری ہندوستانی بربریت کا شکار ہو چکے ہیں۔ دکھ کی بات تو یہ ہے کہ عالمی رائے عامہ نے بھی کبھی کشمیریوں کے حقوق کے لئے اس طرح آواز نہیں اٹھائی جس طرح وہ اسی طرح کے دیگر متنازع مسائل جیسے ویت نام ، قبرص اور فلسطین کے بارے میں گاہے بگاہے آواز اٹھاتی رہی ہے۔ حالانکہ کشمیر کا مسئلہ 1948سے اقوامِ متحدہ کے ریکارڈ پر ہے اور اسی مسئلے کیوجہ سے پاکستان اور بھارت میں 4مرتبہ خوفناک جنگیں بھی ہو چکی ہیں۔ بھارت کے ساتھ دشمنی کے اسی ماحول کی وجہ سے ، پاکستان کو بھارتی مداخلت کے سبب قیامِ بنگلہ دیش کا صدمہ بھی سہنا پڑا۔ اور اب یہ دشمنی بلوچستان اور سندھ میں ہندو ستانی مداخلت کی صورت میں بھگتنا پڑرہی ہے۔ بھارت اور پاکستان کی اس دشمنی نے ان کے عوام کی زندگی اجیرن کر دی ہے۔ جنہیں ‘‘ حب الوطنی ‘‘ کے نام پر غربت ، بے روزگاری ، دہشت گردی اور دیگر بہت سے مسائل کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ دونوں اطراف کی حکومتیں ’’جنگی جنون‘‘ کے ذریعے جہاں عوام کے روز مرہ مسائل سے ان کی توجہ ہٹانے میں کامیاب ہو جاتی ہیں وہیں انکی کرپشن اور بیڈ گورننس بھی چھپ جاتی ہے۔ دونوں غریب ممالک کے عوام کے خون پسینے کی کمائی ترقیاتی کاموں کی بجائے اسلحے کی خریداری جیسے غیر ترقیاتی کاموں میں ضائع ہوجاتی ہے لیکن 70سال سے جاری اس مسئلے کے حل کے کوئی آثار نظر نہیں آتے ۔ پاکستان کے لئے یہ مسئلہ اس لئے بھی زیادہ اہم ہے کہ ہم نے اس کے لئے بے انتہا قربانیاں دی ہیں اور بہت سے نقصانات اٹھائے ہیں۔ جن میں مشرقی پاکستان کے سقوط جیسا نا قابلِ تلافی صدمہ بھی شامل ہے لیکن اس کے باوجود اس مسئلے پر ہمیں کوئی بین الاقوامی حمایت حاصل نہیں ہو سکی۔ یہاں تک کہ اسلامی ممالک کے روابط بھی بھارت کے ساتھ ہمیشہ ’’ دوستانہ ‘‘ رہے ہیں اور انہوں نے عملی طور پر بھارت کے خلاف مسئلہ کشمیر حل کرنے کے لئے کبھی کوئی کارروائی نہیں کی۔ ہماری خارجہ پالیسی کے معماروں نے کیا کبھی اس پر غور کیا کہ ہماری کشمیر پالیسی میں کیا خامیاں ہیں جس نے اسے عالمی رائے عامہ کی ہمدردیوں سے محروم رکھا ہے؟
آج کی دنیا میںجو کہ ایک گلوبل ویلج کی حیثیت اختیار کر چکی ہے۔ عالمی رائے عامہ کی ہمدردی اور مدد وتعاون کے بغیر نہ تو کوئی جنگ جیتی جا سکتی ہے اور نہ ہی ترقی کی منازل طے کی جا سکتی ہیں۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ جب ہم سب اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ مسئلہ کشمیر کا جنگی حل ممکن نہیں خاص طور پر دونوں ممالک کے ایٹمی طاقت بن جانے کے بعد جنگ کا مطلب اس خطّے کی ’’ناقابلِ تصور‘‘ تباہی کے سِوا کچھ بھی نہیں۔ تو پھر ایسے گروہوں کی سرپرستی کرنے کی کیا ضرورت ہے جو ’’ کشمیر بزورِ شمشیر ‘‘ جیسے نعرے لگاتے ہیں۔ ہم کیوں یہ بھول جاتے ہیں کہ آج کی جنگ میں صرف جذّبے ہی کی نہیں تکنیک ، معاشی استحکام اور عالمی رائے عامہ کی ہمدردی کی زیادہ ضرورت ہے۔ جو بد قسمتی سے ہمیں ’’ سقوطِ مشرقی پاکستان ‘‘ کے وقت بھی مہّیا نہیں تھی۔ جنگ ِ افغانستان کے نتیجے میں پاکستان کے اندر جہادی گروپوں کی تشکیل سے دنیا بھر میں ہماراتشخص مجروح ہوا ہے۔ جس کا بھارت یہ کہہ کر فائدہ اٹھا رہا ہے کہ پاکستان چونکہ عالمی دہشت گردی کا مرکز ہے لہٰذا کشمیر میں جو کچھ بھی ہو رہا ہے وہ پاکستان کی کراس بارڈر دہشت گردی کے سِوا کچھ بھی نہیں ۔ حالانکہ گزشتہ بیس سالوں میں ایک لاکھ سے زیادہ کشمیری بھارتی بربریّت کا شکار ہو چکے ہیں۔ افسوس کی بات تو یہ ہے کہ ہمارے قریبی مسلمان ہمسایہ ممالک افغانستان ، ایران اور بنگلہ دیش کے علاوہ نیپال اور بھوٹان بھی بھارت کے ہمنوا ہیںجس کا ثبوت بھارت کے ایما پر سارک سربراہ کانفرنس کا التوا ہے۔ ہماری ناکام خارجہ پالیسی کی وجہ سے معصوم کشمیریوں کی قربانیاں بھی رائیگاں جار ہی ہیں۔ جنکی جنگِ آزادی کو دہشت گردی کا نام دے دیا گیا ہے۔ اگر کشمیریوںکی جدو جہد کو سیاسی ، جمہوری اور انسانی حوالوں سے اجاگر کیا جاتا تو بہت ممکن ہے یہ مسئلہ حل ہو چکا ہوتا۔ کہا جاتا ہے کہ کشمیر تقسیمِ ہند کا ادھورا فارمولا ہے۔ تقسیمِ ہند کو 70سال گزر چکے ہیں۔ اس دوران بہت سا پانی پلوں کے نیچے سے بہہ چکا ہے ۔ برّصغیر کی جغرافیائی شکل بھی بدل چکی ہے۔ جہاں ہندوستان کشمیر یوں کے دل نہیں جیت سکا اور ہندوستان کے خلاف نفرت کشمیریوں کی تیسری نسل میں منتقل ہو چکی ہے وہیں پاکستان اپنے مشرقی بازو کو بھی اپنے ساتھ نہیں رکھ سکا۔ ایسی حالت میں اسے ہندوستان اور پاکستان کا دوطرفہ مسئلہ قرار دینااور اسے پاکستان میں شامل کرنے کا عندیہ دیناعالمی رائے عامہ کو متاثر نہیں کر سکتا۔ کیونکہ یہ وہ پالیسی ہے جس پر ہندوستان کاربند ہے۔ لہٰذا دنیا ہندوستان سے کشمیر چھین کر پاکستان کے حوالے کرنے پر شاید ہی تیار ہو کیونکہ بھارت کے بڑا ملک ہونے کی وجہ سے دنیا کے مفادات اس سے زیادہ وابستہ ہیں۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ اسے کشمیریوں کی آزادی اور انسانی حقوق کی پامالی کا مسئلہ بنا یا جاتا۔ اگر کل کو کشمیر بھارت کے ہاتھ سے نکلتا ہوا محسوس ہوتا ہے اور بھارت کشمیریوں کو حقِ خودارادیت دینے پر مجبور ہو جاتا ہے تو کیا وہ صرف اس بات پر رائے شماری کے لئے تیار ہو جائے گا کہ اسے تقسیمِ ہند کے فارمولے کے مطابق بھارت یا پاکستان میں شامل ہونے کا حق دے دیا جائے ۔ جبکہ کشمیری بھارت کے خلاف برسوں سے برسرِ پیکار ہیں۔ اگر ایسا موقع آیا تو یقیناََ وہ کشمیریوں کے لئے ’’ تھرڈ آپشن ‘‘ یعنی آزاد ریاست کا آپشن بھی رکھے گا اور دنیا اسے تسلیم بھی کر ے گی۔ایسی صورتِ میں ہمارا نقطہ نظر اور لائحہ عمل کیا ہوگا؟ اس ساری صورتِ حال کا تقاضا یہ ہے کہ ایک تو ہم پاکستان کو انسانی حقوق اور جمہوریت کے حوالے سے ایک مضبوط ملک بنائیں ، ہمسایہ ممالک کے ساتھ تعلقات کو بہتر بنائیں ۔مسئلہ کشمیر کو دوطرفہ کی بجائے کشمیریوں کی آزادی اور انسانی حقوق کی پامالی کا مسئلہ بنائیں جس سے ہم عالمی رائے عامہ کو اپنے حق میں ہموار کر سکتے ہیں۔ اگر ہم اپنے ہاں جمہوریت ، انسانی حقوق اور معاشی ترقی کو فروغ دیں گے تو لا محالہ کشمیری ہمارے ساتھ الحاق کو ترجیح دیں گے۔



.
تازہ ترین