• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
ہمیں جسٹس جواد خواجہ کی آئینی تشریح، ان کی قانون دانی، اُن کی سپریم کورٹ کے سوموٹولینے کی طاقت کے تصور، اُن کی عمومی طور پر یا کمرہ ٔ عدالت میںدکھائی جانے والی فعالیت سے اتفاق یا اختلاف کرنے کا حق حاصل ہے، لیکن ہمیں ایک بات ہرگز نظر انداز نہیں کرنی چاہیے کہ اُنھوں نے اپنے الوداعی خطاب میں ہمارے نظام انصاف کے زوال کا مسئلہ اجاگر کردیا۔ یقینا کوئی چیف جسٹس بھی تین ہفتوں کی قلیل مدت میں اس نظام کو درست نہیں کرسکتا۔ تاہم اُنھوں نے اعلیٰ ظرفی دکھاتے ہوئے اس بات کو کھلے دل سے تسلیم کیا کہ موجودہ نظام ِ انصاف پاکستان کے لوگوں کو انصاف کی فراہمی میں ناکام ہوچکا ہے اور اس کی ذمہ داری ججوں، وکیلوں اور ہمارے معاشرے کی منفی اقدار پر عائد ہوتی ہے۔
یقینا ًہمارے نظام ِ انصاف میں اتنی ہی خرابیاں ہیں جتنی ہمارے بدترین ناقد اور قانونی برادری بیان کرتی ہے، اور اس برادری کا حصہ ہوتے ہوئے وکلا اور جج حضرات اس ذمہ داری سے پہلو تہی نہیں کرسکتے کیونکہ انھوں نے ایسے گلے سڑے نظام کو پروان چڑھنے دیا جس کی وجہ سے آج رائے عامہ ہمیں انصاف کی فراہمی کے لئے کردار ادا کرنے والے ادارے کی بجائے طاقتو ر اشرافیہ کے کھیل میں شریک ایک مافیا سمجھتی ہے۔ بدترین بات یہ ہے کہ اس حقیقت کے ادراک ، کہ ہمارا نظام ِ انصاف اس ملک کے مسائل کا ایک حصہ ہے، کے باوجوداس کی بہتری کے لئے کچھ نہیں کیا جارہا ۔ اعلیٰ عدلیہ یا بار ایسوسی ایشنز کی طرف سے ایسی کوئی کاوش دکھائی نہیں دیتی جو اس نظام کو بہتری کی طرف لے کر جاسکتی ہو۔جسٹس خواجہ نے ایسے ماحول کی طرف اشارہ کیا جہاں اپنی برادری یا کسی طاقتور حلقے یا اپنے کسی سینئر کی ناراضی کا خوف عدالتی فعالیت پر اثر انداز ہوتا ہے ۔ دوسری طرف نامی گرامی وکلا اپنی شہرت کا میڈل سجائے اپنے کیس میں خصوصی سلوک کی توقع کرتے ہیں، چاہے وہ کیس کتنا ہی کمزور کیوں نہ ہو۔ جسٹس خواجہ نے سماجی قدروں کے زوال کا بھی ذکر کیا۔ ہم مجموعی طور پر ایک ایسا معاشرہ بنتے جارہے ہیں جہاں کاسہ لیسی اور احترام، خوشامد اور تعریف، منافقت اور اصول پرستی، بے ضمیری اور عزائم کے درمیان فرق مٹتاجارہا ہے۔ نظام ِ انصاف کی حالت اتنی مایوس کن ہے اب کوئی معمولی تبدیلی کا م نہیں دے گی۔ تاہم یہ بھی حقیقت ہےکہ ادارے کے اندر انقلابی تبدیلی لانا اور تعمیر ِنو کی طرف بڑھنا بھی ممکن نہیں۔ اس کے لئے سب سے پہلے اصلاحات کا راستہ روکنے والے ر ویے اور کردار کو بے نقاب کرنا ہوگا۔
قانونی برادری کا ممبر ہونے کے ناتے یہ دیکھ کر شرم سے سرجھک جاتا ہے کہ ہماری پیشہ ورانہ صلاحیتوں کا رخ انصاف اور احسن سماجی اقدار کے فروغ کی طرح ہرگز نہیں۔ اسی طرح یہ بات بھی نہایت افسوسناک کہ قانون اور سچائی پر کلائنٹ کا مفاد غالب آجاتا ہے اور اس کا دفاع کرنے کیلئے ہر چیز کی دھجیاںبکھیر دی جاتی ہیں۔ عدالت سے باہر کھڑے ہوکر یا بارروم میں بیٹھ کر ہم ، وکلا برادری، بمشکل ہی اس موضوع پر بات کرتے ہیں کہ درست کیا ہے اور غلط کیا ہے۔ اگرہم یہ بات کریں بھی تو زیادہ ترہم دیگر افراد پر تنقید کرتے ہیں،لیکن پیشہ ورانہ اصول اور اخلاقی اقدار ہمارے پیشے میں اپنی سمائی نہیں رکھتیں۔ ہمارا خیال ہے کہ بار ایسوسی ایشنز اوربنچ ایسا اشرافیہ کلب ہے جس کی رکنیت ملتے ہی ہر چیز پر استحقاق قائم ہوجاتا ہے۔ بعض اوقات یہ احساس ذاتی مفاد اور طاقت کے حصول کے لئے استعمال کیا جاتا ہے ۔
کچھ قابل ِ احترام ناموں کو یقینا استثنیٰ حاصل ہے، لیکن اشرافیہ میں شمار ہوکر اصلاح کاجذبہ پیدا ہونا محال دکھائی دیتا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ رکنیت حاصل ہوتے ہی آپ پر شہرت کی دیوی مہربان ہوگئی تو اب کسی بہتری کی کیا ضرورت؟اس کلب کا ممبر بنتے ہی آپ سوچنے لگتے ہیں کہ چونکہ آپ کو اس کلب نے شہرت اور طاقت دی ، اسلئے آپ اسے درست کرنے کی بجائے اس طرح کے دیگر پاور کلبوں کے بارے میں نرم گوشہ، چنانچہ چشم پوشی، رکھیںتاکہ سب کا تعاون حاصل رہے۔ یہاں یہ مسئلہ پیدا ہوجاتا ہے کہ اگر اصلاحات لانی ہیںتواس کی شروعات کہاںسے کی جائے؟کیا ایک کلب اپنے مفاد کا ہر حال میں تحفظ کرتے ہوئے دیگر کلبوں کے استحقا ق پر محض انصاف کے نام پر قدغن لگاسکتا ہے؟ اس کیلئے بہت ہائی مورل گرائونڈ پر کھڑے ہونے کی ضرورت ہے، لیکن یہاں ایسا کچھ نہیں ۔ اگرچہ ہم کریمنل کیسز میں ناقص تحقیقات کو سزانہ سنانے یا غیر ضروری تاخیر کرنے کا سبب بتاتے ہیں، لیکن سول کیسز میں کیا ہوتا ہے؟کیا یہاں انصاف کی حالت کریمنل کیسز سے بہتر ہے؟دراصل اصلاحات لانے میں ناکامی کی ذمہ داری سب سے پہلے عدلیہ پر عائد ہوتی ہے، اسکے بعد قانون ساز وں اور ایگزیکٹو کا نمبر آتا ہے۔ ایک عدلیہ جس نے ’’عدلیہ کی آزادی ‘‘ کے نام پر اپنی حدود کا خود ہی تعین کرلیا تو وہ اداروں کے اپنے اپنے آئینی اختیارات تک محدود رہنے کے پردے کے پیچھے پناہ نہیں لے سکتی اور نہ ہی دیگر اداروںکو اس گلے سڑے، دیمک زدہ نظام ِ انصاف کی حالت ِزار کا ذمہ دار ٹھہراسکتی ہے۔ اٹھارویں اور انیسویں ترامیم عدلیہ کو اتنی طاقت عطا کرتی ہیں کہ وہ اپنی کمپوزیشن کا خود تعین کرسکے۔ آرٹیکل 209عدلیہ کو جج حضرات کا احتساب کرنے کا اختیار دیتا ہے، لیکن حالیہ دور میں جوڈیشل کوتاہیوں کو روکنے کیلئے اس کا استعمال دیکھنے میں نہیں آیا۔ آرٹیکل 202 ہائی کورٹ کواپنے اور ماتحت عدلیہ کے طریق ِکارکو ریگولیٹ کرنے کا اختیار دیتا ہے۔
لیکن ہائی کورٹ نے اسے استعمال کرتے ہوئے ماتحت عدلیہ میں خرابیوں، جیسا کہ تاخیر اور بدعنوانی، کے خاتمے کیلئے کوئی ضابطہ یا اصول وضع کرنے کی ضرورت محسوس نہیں کی ۔1979 کے ایک وفاقی ضابطے کے تحت ’’لااینڈ جسٹس کمیشن آف پاکستان‘‘ بھی موجو دہے جوعدلیہ کے مکمل کنٹرول میں کام کرتا ہے۔ یہ کمیشن معاشرے کی تبدیل ہوتی ہوئی ضروریات کے مطابق قانونی نظام کو بہتر اور جدید بنانے کیلئے وفاقی اور صوبائی حکومتوں کی رہنمائی کرتا ہے۔ہم نے 21 ویں ترمیم کو منظور اور فوجی عدالتوں کوقائم ہوتے دیکھا، لیکن لااینڈ جسٹس کمیشن آف پاکستان کی قانونی نظام میں بہتری لانے کی کوشش کہیںدکھائی نہیں دی۔ 2002 کے وفاقی ضابطے کے تحت قائم ہونے والی نیشنل جوڈیشل پالیسی ساز کمیٹی بھی موجود ہے۔ اس میں تمام چیف جسٹس صاحبان موجود ہوتے ہیں۔ یہ بھی عدلیہ پر مکمل کنٹرول رکھتی ہے۔ ہم نے آخری مرتبہ، 2009 میں اس کی فعالیت کے بارے میں سنا تھا۔ اس نے ایک نیشنل جوڈیشل پالیسی بنائی تھی۔ اُس وقت اس پالیسی کو بہت بڑا انقلابی قدم قراردیا گیا تھالیکن عوام کو اس کاکوئی عملی فائدہ دکھائی نہ دیا۔
جسٹس خواجہ کی تقریر میں ایسا کوئی ذکر نہیں ملتا جس میں لاچار عوام کو انصاف کی فراہمی کے لئے نظام میں کسی بنیادی تبدیلی کی بات کی گئی ہو۔ یہ بات سن کو عوام کو کیا تشفی ہوگی کہ ایک کیس کو اوسطاً پچیس سال لگتے ہیں، پھر کہیںجاکر وہ سپریم کورٹ تک پہنچتا ہے اور وہاں اس کا فیصلہ ہوتا ہے۔ اس نظام کوتبدیل کیے بغیر اس ملک کے کروڑوں افراد سوموٹو کے سہارے انصاف تک رسائی کیسے حاصل کرسکتے ہیں؟اور کتنے خوش قسمت ایسے ہیں جن کے معاملات پر سپریم کورٹ ازخود نوٹس لے سکتی ہے؟یقینا یہ کوئی نظام نہیںہے۔ اس کے لئے ضروری ہے کہ ہم سرجوڑ کر بیٹھیں اور مغزماری کریں۔ ان مسائل کا حل کوئی راکٹ سائنس نہیں۔ اس کے لئے وکلا اور جج حضرات، دونوں کو اپنے اپنے استحقاق کے تصورات سے کنارہ کشی اختیار کرتے ہوئے عوام کے بارے میں سوچنا ہوگا۔
تازہ ترین