• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
نندی پور پاور پروجیکٹ مسلم لیگ ن کی حکومت کیلئے گلے کی وہ ہڈی بن چکا ہے جس کو وہ نہ نگل سکتی ہے اور نہ اگل۔کل تک جو منصوبہ پاکستان پیپلز پارٹی کیلئے وبال جان تھا آج اسی منصوبے نے نہ صرف موجودہ حکمرانوں کی نیندیں حرام کر دی ہیں بلکہ ان کیلئےسخت خفت کا باعث بھی بن چکا ہے۔یہ نصف صدی کا قصہ نہیں، ابھی گزشتہ سال مئی کی بات ہے جب 425گاواٹ بجلی کی پیداوار کے اس پروجیکٹ کا افتتاح بڑے دھوم دھام سے جناب وزیر اعظم محمد نواز شریف کے ہاتھوں سے کرایا گیا۔اسی موقع پرجناب وزیر اعظم نے ماضی کی حکومت کو آڑے ہاتھوں لیا اور فرمایا کہ قومی اہمیت کے اس منصوبے میں مجرمانہ غفلت کی گئی،بد عنوانی کا ارتکاب کیا گیا ،ملک کو اربوں ،کھربوں کا نقصان پہنچایا گیا۔اسی دوران انہوں نے ملکی آمدنی کے حصول کیلئے جو پاپڑ بیلنے پڑتے ہیں ان پر بھی کماحقہ روشنی ڈالی اور پھر قومی خزانے کے بے دریغ استعمال کو ناقابل معافی جرم بھی قرار دے ڈالا۔ابھی اس اہم قومی منصوبے کے افتتاح کیلئے کاٹے گئے فیتے کے ٹکڑے بھی جگہ سے نہیں اٹھائے گئے تھے کہ میڈیا نے وزیر اعظم کواصل صورتحال سے بے خبر رکھنے کی خبریں دینا شروع کر دیں۔نندی پور پاور پلانٹ صرف دو دن 95 میگاواٹ بجلی پیدا کرنےکے بعد بند ہو چکا تھا۔ ہونا تو یہ چاہئے تھے کہ قوم تو ایک طرف اپنے ساتھ ہونیو الے اس سنگین مذاق پروزیر اعظم جامع تحقیقات کراتے ،سارا کچا چٹھہ سامنے آجاتا اور ذمہ داران کی نشان دہی کر کےانکے خلاف کارروائی عمل میں لائی جاتی لیکن روایت کو برقرار رکھتے ہوئے اس معاملے کو بھی دبانے کی کوشش کی گئی۔اسی دوران تجربہ کاروں کی حکومت نے وہی کچھ کرنے کی کوشش کی جو سندھ کے خود ساختہ سائنسدان نے پانی سے گاڑی چلانے کا تجربہ کر کے کی تھی۔جو پاور پلانٹ بنا ہی فرنس آئل پر چلنے کیلئےتھا اس کو ڈیزل سے چلا نے کا چمتکار کرنے کا کارنامہ سر انجام دے دیا گیا۔ ظاہر ہے نتیجہ وہی ہونا تھا جو پٹرول انجن والی گاڑی میں ڈیزل ڈال کر چلانے کی صورت میں ہو تا ہے کہ اب تک 49 ارب روپے خرچ کرنے کے باوجود پاور پلانٹ زمیں جنبد،نہ جنبد گل محمد ،کی صورتحال سے دو چار ہے اور ریکارڈ مدت میں منصوبے مکمل کرنے کے شوقین حکمراںبھونڈی وضاحتیں دیتے پھر رہے ہیں۔ پیپلز پارٹی کے بعد موجودہ حکمرانوں کی چڑبننے والانندی پور پاور پروجیکٹ میڈیا کی زینت ایک بار پھر اس وقت بنا جب توانائی کے شعبے میں جیو نیوز کے کہنہ مشق صحافی سیف الرحمان شو کاز پر مبنی اس خفیہ دستاویز کو بطور بریکنگ نیوز منظر عام پرلے آئے جس میں وفاقی وزارت پانی وبجلی نے نندی پور پاور پروجیکٹ کا سارا ملبہ ایم ڈی پر ڈالنے کی کوشش کی۔ کانفیڈنشل کے ٹائٹل کے ساتھ جاری کی گئی اس دستاویز میں اعتراف کیا گیا کہ ریلائبل ٹیسٹ رن ( آر ٹی آر) اور کمرشل آپریشن ڈیٹ ( سی او ڈی) کے باوجود منصوبےکا نارمل آپریشن شروع نہیں ہو سکا۔ وفاقی وزارت پانی و بجلی نے اس تحریری دستاویز کے ذریعے اسی ایم ڈی سے تین دن میں منصوبے کی ناکامی کا جواب طلب کیاجسے موجودہ حکومت سات ماہ کی ریکارڈ مدت میں نندی پور پاور پلانٹ کو چالو کرنے کی بہترین کارکردگی پر ستارہ امتیاز سے نواز چکی ہے۔ اعلیٰ حلقوں سے ملنے والی معلومات سے پتہ چلا ہے کہ وزارت پانی وبجلی نے آنیوالے دنوں میں امکانی احتساب سے بچنے کیلئے سارا ملبہ نندی پور منصوبے کی انتظامیہ پر ڈالا ہے تاکہ بوقت ضرورت سند رہے۔اطلاعات کے مطابق وزیراعظم کی طرف سے معاملے کا نوٹس لینے کے بعد ایم ڈی نے تحریری جواب دینے کی بجائے وزیراعظم کی خدمت میں حاضر ہو کر گوش گزار کرا دیا ہے کہ پاور پلانٹ کی بندش کے ذمہ دار وہ نہیں بلکہ حکومت ہےجسے وہ بارہا کہہ چکے تھے کہ کسی بھی پاور پلانٹ کو چلانے کیلئے ایک آپریٹر ہونا ضروری ہے لیکن اس منصوبے کے لئےتاحال کوئی آپریٹر مقرر نہیں کیا گیا۔ وہ وزیر اعظم کو یہ بھی بتا چکے ہیں کہ متعلقہ کمپنی کو فرنس آئل ٹریٹمنٹ پلانٹ اپ گریڈ کرنے پر راضی کر چکے ہیں اور کمپنی وینڈر کو نیا ٹریٹمنٹ پلانٹ تیار کرنے کا آرڈر بھی دے چکی ہے تاہم اس میں ساڑھے چار سے پانچ ماہ درکار ہیں۔اب قارئین کو بتاتے ہیں کہ نندی پور پاورپروجیکٹ سفید ہاتھی میں کیسے تبدیل ہوا اور کچھ حقائق کی درستگی بھی ضروری ہے کیوں کہ کوئی اسے 81ارب روپے کا منصوبہ قرار دے رہا ہے تو کسی کے نزدیک اس کی لاگت 84 ارب روپے تک بڑھ چکی ہے۔ سرکاری دستاویزات کے تفصیلی مطالعے سے آشکار ہوا کہ پاکستان پیپلز پارٹی کی حکومت نے سال 2007ءمیں نندی پور پاور پروجیکٹ کی منظوری دی۔منصوبے پر لاگت کا تخمینہ 32 کروڑ 90 لاکھ ڈالر لگایا گیا۔اس مالیت کو اس وقت ڈالر کے ایکسچینج ریٹ کے تحت پاکستانی کرنسی میں تبدیل کیا جائے تو یہ مالیت 22 ارب روپے سے زائد بنتی ہے۔اس منصوبے کا کنٹریکٹ سال 2008 ءمیں چین کی کمپنی کو دیا گیا جس نے اکتوبر 2008 ءمیں منصوبے پر کام شروع کیا جبکہ اسے مکمل کرنے کی ڈیڈ لائن دسمبر2011ء مقرر کی گئی۔اسی دوران پاور پلانٹ کی مشینری کراچی پورٹ پر پہنچ گئی تاہم ڈھائی سال وہیں پڑی رہی کیوں کہ اس وقت کی وزارت قانون و انصاف و پارلیمانی امور نے وزارت پانی و بجلی کی طرف سے کئے گئے معاہدے کی توثیق سے انکار کر دیا تھا۔نتیجہ یہ نکلا کہ اس کمپنی نے منصوبے پر کام کرنے سے معذرت کر لی۔
سال 2011 ءمیں اس وقت کی اپوزیشن کے رہنما اور موجودہ وفاقی وزیر پانی و بجلی خواجہ محمد آصف نے منصوبے میں تاخیر اور قومی خزانے کو نقصان پہنچانے کے مرتکب حکام کی نشان دہی کیلئے سپریم کورٹ میں پٹیشن دائر کر دی۔سپریم کورٹ نے ریٹائرڈ جج رحمت حسین جعفری کی سربراہی میں عدالتی تحقیقاتی کمیشن قائم کر دیا جس نے اپریل 2012ءمیں عدالت عظمی میں 95صفحات پر مشتمل رپورٹ پیش کر دی۔ کمیشن نے اس رپورٹ میں پیپلز پارٹی کی وزارت قانون و انصاف اور پارلیمانی امورکو منصوبے میں تاخیر کا ذمہ دار ٹھہرا تے ہوئے تحریر کیا کہ وزارت کے حکام کی لا پروائی اور منصوبے میں تاخیر سے قومی خزانے کو 113 ارب روپے کا نقصان پہنچا ہے۔ اب 113 ارب روپے کے نقصان کا تعین کن خطوط پر کیا گیا یہ تو کمیشن کے ارکان ہی بتا سکتے ہیں تاہم روایت برقرار رہی اورقومی خزانے کو نقصان پہنچانے والوں کے خلاف کوئی کارروائی عمل میں نہیں لائی جا سکی۔ پیپلز پارٹی کی حکومت نے سپریم کورٹ کی ہدایات پر منصوبے پر دوبارہ کام شروع کرنے کیلئے کوششیں کیں اور اسی چینی کمپنی سے اس کی شرائط پرمنصوبہ مکمل کرانے کیلئے معاہدے میں ترامیم کر لیں۔ یہاں یہ امر دلچسپی سے خالی نہیں کہ جو منصوبہ 22 ارب روپے کی لاگت سے مکمل ہونا تھا اس کا نظر ثانی شدہ پی سی ون پیپلز پارٹی نے ہی اپنی حکومت کے خاتمے سے پہلے 11 جنوری 2013 کو کابینہ کی اقتصادی رابطہ کمیٹی سے منظور کرایا۔اس طرح پیپلز پارٹی کی حکومت نے ہی نظر ثانی شدہ پی سی ون کے تحت اس کی لاگت 22ارب روپے سے بڑھا کر57ارب 38 کروڑ روپے کرنے کی منظوری دی۔ اسکے بعد ان تجربہ کاروں کی حکومت آگئی جنہوں نے منصوبے کی بے ضابطگیوں میں ملوث عناصر کا احتساب کرنے کی بجائے انہیں کلین چٹ دی اور خود معاملات طے کر لئے جسکے نتیجے میں مسلم لیگ ن کی حکومت نے 4 جولائی 2013 کو 57 ارب 38 کروڑ روپے کے اسی نظر ثانی شدہ پی سی ون کی منظوری دے دی۔ مال مفت دل بے رحم کا مظاہرہ کرتے ہوئے موجودہ حکومت نے ڈیمرجز چارجز اور فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی کے اخراجات بھی مجموعی رقم میں ڈال کر کل لاگت58ارب 41 کروڑ 60 لاکھ روپے منظور کر دی۔اب بتاتے ہیں کہ یہ لاگت84ارب کیسے کہی جا رہی ہے ،ہوا یوں کہ منصوبے سے متعلق نیشنل پاور جنریشن کمپنی نے ٹیرف کیلئے نیپرا سے رجوع کیا تو فراہم کردہ دستاویزات میں منصوبے پر ہونیو الی سرمایہ کاری کا تخمینہ 847 ملین ڈالر ظاہر کیا جس سے تجزیہ کاروں اور نقادوں نے اسی رقم کو ڈالر کی موجودہ ایکسچینج ریٹ کے مطابق 84 ارب روپے بنا دیا۔ حالانکہ انہی دستاویزات کے بغور جائزے سے پتہ چلتا ہے کہ بہت واضح لکھا گیا ہے کہ 847 ملین ڈالر کی رقم کو منصوبے کے آغاز کے ایکسچینج ریٹ کے تحت67روپے فی ڈالر کے حساب سے لیا جائیگا۔اس طرح یہ رقم اب بھی 56 ارب 74 کروڑ روپے ہی بنتی ہے جو نظر ثانی شدہ پی سی ون کے مطابق ہے۔ آخر میں عوام کی نمائندگی کرتے ہوئے حکمرانوں سے کچھ سوالات کے جوابات لینا چاہوں گا۔اس کمپنی کیساتھ معاہدے کو منسوخ کیوں نہ کیا گیا جسے ناقص ریلوے انجنوں کی فراہمی پر بلیک لسٹ کیا گیا تھا۔ موجودہ حکومت نے جسٹس رحمت حسین جعفری کی تحقیقاتی کمیشن کی سفارشات پر عملدرآمد کیوں نہ کیا۔ جو پاور پلانٹ بناہی فرنس آئل کےلئے تھا اسے ڈیزل پر چلانے کی کوشش اور گیس کیلئے تبدیل کرنے پرکیوں خطیر رقم ضائع کی گئی۔ منصوبے کا آپریٹر تک مقرر کیوں نہ کیا گیا۔ ریکارڈ مدت میں منصوبہ مکمل کرنے کی تختی لگانے کے شوقینوں نے قوم کے ساتھ وزیر اعظم کو بھی اندھیرے میں رکھ کر افتتاح کیوں کرایا۔ سال 2013ءمیں بھی وزیر اعظم نے منصوبے کی انکوائری کرائی تھی اس کی سفارشات پر عملدرآمد میں کیا مصلحت آڑے آ گئی۔ جس ایم ڈی کو ستارہ امتیاز سے نوازا ،اب اسے ہی قربانی کا بکرا کیوں بنایا جا رہا ہے اور سب سے آخر میں کیا شہباز شریف صاحب اور نواز شریف صاحب اپنے ماضی کے بیانات پر قائم رہتے ہوئے اب بھی نندی پور پاور پروجیکٹ میں قومی خزانے کے اربوں روپے ضائع کرنے والوں کے جرم کو ناقابل معافی قرار دیتے ہوئے انہیں احتساب کے کٹہرے میں کھڑا کریں گے۔
تازہ ترین