• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
نیوز اور کرنٹ افیئر ز چینلز کی زبان میں ون پلس تھری ایسے پروگرام کے فارمیٹ کو کہتے ہیں جس میں ایک میزبان اور تین مہمان مدعو ہوتے ہیں۔پاکستان میں پرائیویٹ میڈیا چینلز میں اس فارمیٹ کو سب سے پہلے حامد میر نے کیپٹل ٹاک میں متعارف کروایا۔ دیکھتے ہی دیکھتے یہ فارمیٹ اتنا مقبول ہوگیا کہ سب چینلز نے اسکی اندھا دھند تقلید شروع کردی۔اب قریباً بیس کے قریب نیوز چینلز میں شام سات بجے سے لے کر رات بارہ بجے تک عموما اسی فارمیٹ کا راج ہوتا ہے۔اس طرز کے پروگرام کی مقبولیت کی وجہ اس فارمیٹ کا سہل ہونا ہےاوراس کی بدولت ہر پارٹی کا نقطہ نظر ایک ہی نشست میںناظرین کے سامنے آجاتا ہے۔ پردہ اسکرین کے اس طرز کے پروگرا م کو اگراینکر چاہے تو بڑی سہولت سے بغیر کسی ریسرچ اور کرنٹ افیئرز کی تفصیل میں جا ئے بغیر ، بناء کچھ جانے بھی کر سکتا ہے۔ یہ فارمیٹ زیادہ محنت طلب بھی نہیں ۔ چند اچھے اینکرز کے سوا عموما اینکرز کا ابتدائیہ پہلے سےا سکرپٹ رائٹر نے تحریر کیا ہوتا ہے۔ اختتامی کلمات کی وقت کی کمی کی وجہ سے نوبت ہی نہیں آتی اور مہمانوں کی گفتگو کی میں مزے سے چالیس منٹ گزر جاتے ہیں۔ تجربے کے ساتھ ساتھ معاملات اور بھی سہل ہو گئے ہیں۔ اب سب کو پتہ ہوتا ہے کہ کون کون سی جماعت کی کس کس شخصیت کو پروگرام میں مدعوکرنے سے گرمئی گفتار ، گالم گلوچ تک پہنچ جائے گی اور کس سیاسی نمائندے کے آنے سے پروگرام ٹھنڈا رہے گا۔ اے کیٹگری کے مہمان تو ہر اینکر کی ضرورت ہوتے ہیں لیکن کچھ سیاسی تجز یہ کار ایسے بھی ہوتے ہیں جو ہر شام سوٹ پہن کر انتظار کرتے ہیں کہ جانے کس وقت کس چینل سے کال آ جائے۔
اس فارمیٹ کی مقبولیت کے جہاں بہت سے فوائد ہیں وہاں نقصانات بھی کم نہیں ہیں۔ ساری قوم ہی فارمیٹ کا شکار ہے۔ عوا م الناس شام سات بجے سے جو مصروف ہوتے ہیں تورات بارہ بجے تک ملکی حالات پر فاتحہ پڑھ کر سوتے ہیں۔ گھروں میں ، دفتروں میں،ر یسٹورنٹ میں اور دعوتوں میں سیاسی طرز فکر رکھنے والے الگ ہو جاتے ہیں اور اپنے اپنے پسندیدہ اینکر اور اسکے پروگرام میں ہونے والی گفتگو کو اپنے سینے پر تمغے کی طرح سجائے بحث میں مصروف ہوتے ہیں۔ساری دلیلیں اسی طرح کے پروگراموں میں ہونے والی گفتگو کے گرد گھومتی ہیں۔ لوگ اپنی اپنی جماعت یا نظریے کے دفاع کے لئے اپنے اپنے پسندیدہ پروگرام کا حوالہ دے کرپر سکون ہوجاتے ہیں۔اسکے معنی یہ نکالے جاسکتے ہیں کہ ون پلس تھری اسکرین سے نکل لوگوں کے ذہنوں پر قابض ہو گیا ہے۔اب حالات پر خود سوچنے کا کام کم ہے، دوسروں کی مستعار شدہ سوچ کے ذریعے بحث کرنا بہرحال سہل کام ہے۔ہر چینل کے ہر پروگرام کو بغور دیکھنے والے لوگ اپنی ذات میں خود سیاسی مبصر بن جاتے ہیں اور یہیں سے ون پلس تھری کے مضر اثرات کا آغاز ہوتا ہے۔
ون پلس تھری نے ہمیں سکھایا ہے کہ دلیل کا جواب الزام ہوتا ہے اور الزام کا جواب اس سے سنگین الزام ہوتا ہے۔ ہم نے سیکھا کہ بلند آواز سے بولنا مدلل ہونے کی علامت ہے۔ ہم نے جانا کہ گفتگو میں شائستگی، لہجے کا دھیما پن، گفتگو کے بنیادی آداب دراصل کمزوری کی نشانی ہوتے ہیں۔ ہمیں علم ہوا کہ بدتمیز شخص، بدزبان ہی سچ بولنے کی اہلیت رکھتا ہے۔ کسی کی بات کو کاٹ کر اپنا راگ الاپ دینا دراصل ذہانت کی نشانی ہوتا ہے۔ ہمیں ان پروگراموں میں بتایا گیا کہ کاغذ کے چند مبہم سے صفحے فضا میں لہرانے سے بڑا ثبوت اس روئے زمین پر کوئی نہیں ہوتا۔دشنام طرازی برائی نہیں بڑائی ہے۔ ہم نے سیکھا کہ دوسرے کی دلیل اونچی آواز میں رد کرنادراصل ایک مستحسن فعل ہے۔ ہمیں بتایا گیا کہ اپنے لیڈر کے خلاف کوئی تنقید سننے سے بہتر ہے کہ دوسرے کی نجی زندگی کو سربازارعریاںکر کے رکھ دیا جائے اور یہ کم ظرفی نہیںبلکہ شجاعت کی نشانی ہے۔ ہم نے یہ بھی جانا کہ اپنی باری پر جو کچھ موقع ملے بول دیا جائے اور ہاں گفتگو کی رفتار گفتگو کے آداب سے زیادہ اہم ہے ۔بحث کا فیصلہ کبھی جھوٹ سچ کی بنیاد پر نہ کیا جائے کیونکہ فیصلہ ہونے سے تو نتیجہ نکل آئےگا، بات ختم ہو جائے گی، دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی الگ ہو جائے گا۔اور یہ ون پلس تھری کا مطمع نظر نہیں۔صرف یہ یاد رکھنا ضروری ہے کہ کل ایک نیا دن ہو گا اور بہت سے نئے ون پلس تھری کے میزبان اپنے اپنے پروگرام کو مقبول بنانے کے لئے یہی منظر سجائے بیٹھے ہوں گے۔
ون پلس تھری کا سب سے زیادہ نقصان ہمارے ناظرین کی ذہنی صحت پر ہوا ہے۔ عوام کی اکثریت اب اسی ون پلس تھری کو سیاست مانتی ہے، اسی کو جمہوریت سے تعبیر کرتی ہے۔ یہی مسائل کا حل لگتا ہے اور اسی میں عافیت دکھائی دیتی ہے۔سیاستداں بھی اس فارمیٹ سے اتنے مطمئن ہیں کہ وہ سمجھتے ہیں کہ ان پروگراموں میں چیخ چیخ کر بول دینا کافی ہے۔اپنی پارٹی کے موقف کو بیان کر دینا ہی اہم ہے۔ دوسری جماعت کے نمائندے پر گفتگو میں سبقت لے جانا ہی خدمت ہے ۔
کوئی ایسا حیلہ ڈھو نڈناچاہئے جس کی مدد سے لوگوں کو بتایا جائے کہ ون پلس تھری سیاست نہیں۔یہ صرف گفتگو ہے۔ باتیں ہیں۔ چالیس منٹ ہیں۔جو جھوٹ بھی ہو سکتے ہیں سچ بھی، جو حق بھی ہوسکتے ہیں باطل بھی، زندگی کا اثاثہ بھی ہوسکتے ہیں اور وقت کا ضیاع بھی۔ جمہوریت صرف گفتگو، گالی یا الزام نہیں بلکہ عوام کی فلاح کا نام بھی ہے۔
ہر روزاس کی اس گفتگو کی قید میں رہنے والے لوگوں سے صرف یہ التماس ہے کہ ان بحثوں سے نہ نلکے لگنے ہیں ،نہ گلیاں مرمت ہونی ہیں،نہ بچوں کو تعلیم ملنی ہے، نہ اسکول کھلنے ہیں،نہ اسپتالوں میں مریضوں کا علاج ہونا ہے،نہ نوکریاں ملنی ہیں،نہ لوڈشیڈنگ ختم ہونی ہے ،نہ بھوک مٹنی ہے،نہ کسی کے کچھ بھی کہنے سے عوام کی قسمت پلٹنی ہے۔جدید میڈیا کے اس دور کا سب سے بڑا المیہ یہ ہے کہ عوام کی بہتری ، خوشحالی اورفلاح جیسے کام روز بروز ون پلس تھری کے الزامات اور گرمئی گفتار تلے دفن ہوتے جا رہے ہیں۔
تازہ ترین