• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
پاکستان پیپلز پارٹی بلاشبہ وطن عزیز کی ایک قد آور سیاسی جماعت ہے جسے چار مرتبہ اس مملکت خدا دادمیںحکمرانی کے مواقع میسر آئے اور آج وہ دوسری بڑی سیاسی جماعت کی حیثیت سے مقتدر ترین ایوان میں حزب اختلاف کی قیادت کر رہی ہے۔ اس ملک میں جہاں پیپلزپارٹی کے ناقدین کی کمی نہیں ہے ۔وہیں ہر گلی محلے میں اس کے جیالے بھی اپنے وجود کا احساس دلاتے رہتے ہیں ۔سیاست میں کامیابی یا ناکامی سے ہٹ کر اگر پیپلز پارٹی کے مثبت رول کا جائزہ لیں تو صاف نظر آتا ہے کہ غریب مزدوراور دبے ہوئے طبقات اس پارٹی اور اس کی قیادت کو امید بھری نظروں سے دیکھتے رہے ہیں ۔
ڈاکٹر مبشر حسن نے اپنے گھر پر بڑے فخر کے ساتھ ہمیں یہ بتایا تھا کہ یہ وہ گھر ہے جہاں 1967ء میں پیپلز پارٹی کی تخلیق ہوئی تھی۔مواقع بہت سے لوگوں کو ملتے ہیں مگر اُن سے فوائد کم لوگ ہی اُٹھا پاتے ہیں اسے غالباً بھٹو مرحوم کی خوبی ہی کہا جائے گا کہ انہوں نے حاضر و میسر مواقع سے فائدہ خوب اُٹھا یا ۔بھٹو مرحوم کا عوامی اسلوب بڑا متا ثر کن تھا ۔اصغر خان اور عمران خان جیسے کئی خانوں اور اقتدار کے عقیدتمندوں نے اسے کاپی کرنے کی انتھک کوششیں کیں لیکن ’’نہ ہوا پر نہ ہوا میر کا انداز نصیب ‘‘ بھٹو صاحب کی عوامی خوبیوں کا اس سے بڑا ثبوت کیا ہو سکتاہے کہ جے اے رحیم،شیخ رشید،ملک معراج خالد،حنیف رامے ،ڈاکٹر مبشر حسن،اعتزاز احسن اور اسلم گورداسپوری جیسے نابغہ ان کی طرف کھینچتے چلے گئے اس سے بڑھ کر عوام پر ان کا جادو یوں چڑہا کہ آج زرداری صاحب جیسے بڑے بڑے لیڈر ان کو اسے توڑنے کے لیے ایک سو ایک جتن کرنے پڑرہے ہیں۔
بھٹو مرحوم میں بلاشک و شبہ خوبیاں بھی بہت تھیں لیکن اگر خامیوں کے حوالے سے دیکھیں تو اُن سے ہمیں گلے بھی بہت زیادہ ہیں اختصار کے ساتھ ہمیں ان کی سب سے بڑی زیادتی یہ دکھائی دی ہے کہ اقتدار کی طمع،لالچ یا حرص نے انہیں اس حد تک پہنچادیا کہ وہ 70ء کے انتخابی مینڈیٹ یا بربادی پر تل گئے اور سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ انہوں نے دنیا سے جاتے ہوئے پارٹی قیادت کے لیے بے نظیر جیسا ورثہ چھوڑا۔
پاکستان پیپلز پارٹی آج جس بحرانی دور سے گزر رہی ہے لاریب یہ انتہائی افسوس ناک ہے لیکن ہمارے نقطہ نظر سے بھٹومرحوم کی شہادت کے وقت پارٹی جس بحران کا شکار تھی وہ اس سے بھی گہرا اور المناک تھا۔پی پی پنجاب میں ہی نہیں سندھ میں بھی پٹ چکی تھی زوال اپنی آخری حدود کو چھو رہا تھا۔مولانا کوثر نیازی جیسے مذہبی ساتھی تمام مذہبی اسباق بھلا کر برعکس لائنوں پر’’اور لائن کٹ گئی‘‘لکھنے اور بولنے لگ جاتے ہیں ۔غلام مصطفیٰ جتوئی جیسے وفادار ساتھی اپنی تمام تر وفاداری کی پوٹری آرمی ڈکٹیٹر ضیاء الحق کی جھولی میں ڈال دیتے ہیں یہاں کس کس کا ذکر خیر کریں الامان والحفیظ۔اس گھٹاٹوپ اندھیرے میں ایک ہی شمع ہے جو روشنی اور امیدکی کرن بن کر تمام تر مایوسیوں کے بالمقابل اُٹھ کھڑی ہوتی ہے ہستی کا نام محترمہ بے نظیر بھٹو ہے ۔قوم اپریل1987ء کا وہ دن کیسے بھول سکتی ہے جب لاہور میں جمہوریت کے تمام پروانے اس شمع جمہوریت کے گرد منڈلانے لگتے ہیں انہیں ایک نئی ڈھارس اور امید مل جا تی ہے جو وقت کے ڈکٹیٹرکو نئے عزم اور حوصلے کے ساتھ للکارتی ہے اس سے پہلے وہ بہادر خاتون قید وبند کی صعوبتیں سہہ کر ملک بدری کی اذیتوںسے گزر کر پارٹی کومنظم کرنے کا ہوم ورک مکمل کر چکی ہوتی ہے۔
اس پر عزم وہمت خاتون کی صلاحیتوں کو جتنا سلام کیا جائے کم ہو گا ۔کمزوریاں وخامیاں ضروراُ ن میں بھی تھیں کرپشن کے چارچزاُن پربھی لگے لیکن ان میں موجود اعلیٰ قائدانہ صلاحیتوں اور قومی درد مندی کا اعتراف نہ کرنا کم ظرفی ہوگی۔لیڈر وہ ہو تا ہے جو طوفان کا رخ بدل دے اور حالات وواقعات کو اپنی مطابقت میں ڈھال لے۔محترمہ بے نظیر بھٹوکا سب سے بڑا اعزازیہ ہے کہ انہوں نے حق بات نہ صرف یہ کہ ببانگ دہل کہی بلکہ جو کہا اس کی مطابقت میں پالیسیاں بھی بنائیں پھر پارٹی کے تن مردہ میں محترمہ نے اپنی صلاحیتوں سے نئی روح پھونک دی اور اسے ازسرنوع وطن عزیز کی سب سے بڑی سیاسی پارٹی بنا دیا۔
بڑا لیڈر وہ ہوتا ہے جو ماضی کی تلخیوں سے سیکھتا ہے اور مستقبل کے لیے نئی راہیں تراشتا ہے ۔آج پیپلز پارٹی اپنی تاریخ کے بڑے بحران سے گزررہی ہے۔ عام خیال یہ کیا جارہا ہے کہ PPکے کارکنا ن بتدریج حالت مایوسی میں PTIجوائن کرتے چلے جائیں گے۔آخر ملک کی سب سے بڑی پارٹی اس تکلیف دہ صورت حال تک کیسے پہنچی؟ہماری نظر میں بی بی کے فرزندبلاول بھٹو کے سامنے آج جو اصل چیلنج دیوارِ چین کی طرح کھڑا ہے وہ یہی ہے۔ بی بی کی شہادت کے بعد بھی حالات اگرچہ خراب ہوئے تھے اور زرداری صاحب کو یہ کریڈٹ جاتا ہے کہ ان حالات میں انہوں نے پی پی کا شیرازہ بکھرنے سے بچایا لیکن اس پنج سالہ دورِ حکمرانی کی حماقتوں اور کوتاہیوںنے وہ کچھ کر دکھایا ہے جو فوجی ڈکٹیٹر بھی نہ کر پائے تھے۔ یہ ایک طویل بحث ہے جس پر پی پی کو اپنے پارٹی حلقوں میں مباحثے اور مذاکرے کروانے چاہیں۔ مخالفین بلاول بھٹو کے متعلق جیسی بھی بے پرکی چھوڑ رہے ہیں لیکن ہمارا گمان یہ ہے کہ وہ نہ صرف پی پی کارکنان کیلئے ایک نئی امنگ بن سکتے ہیں بلکہ وطن عزیز کے دبے ہوئے کمزور طبقات بھی مستقبل قریب میں ان سے امیدیں باندھ سکتے ہیں بشرطیکہ وہ اپنی سیاست کے آغاز ہی میں ایک ذمہ دارانہ طرزِ عمل اور طرزِ کلام اپنائیں۔ مقبول عوامی لیڈر بننے کیلئے اوچھا اسلوب ضروری نہیں ہوتا یہ سمجھنا چھوڑ دیا جائے کہ عوام جاہل یا عقل و خرد سے پیدل ہیں ایسے سمجھنے والا مستقبل میں خود پیدل ہو جائے گا۔ بلاول کیلئے ان کی پارٹی کو ہمارا مفت مشورہ ہے کہ ان کے ساتھ مدبرو دانا سیاسی اہل دانش کی ایک تین رکنی کمیٹی یا کم از کم سلجھے ہوئے دو مشیر ضرور رکھیں جونہ صرف یہ کہ ان کی تقاریر لکھیں بلکہ قدم بہ قدم مختلف قومی واقعات و معاملات پر انہیں مشاورت و مباحثے کے مواقع مہیا بھی کریں۔ بہتر ہو گاکہ وہ اپنی والدہ محترمہ کو اپنا رول ماڈل بنائیں اور آگے بڑھ کر خود بھی بدلتے عصری تقاضوں کو سمجھیں۔ ن لیگ کو بھی زیادہ ان کے آڑے نہیں آنا چاہیے کہ وہ سابق کھلاڑی کا بہترین توڑ ثابت ہو سکتے ہیں یہ سیاسی آگہی وطن عزیز کی سیاست میں دو پارٹی سسٹم کے قیام اور استحکام میں بھی معاونت فراہم کرے گی اورہماری قومی سیاست میں بہتری کا وسیلہ ثابت ہو گی ۔
تازہ ترین