• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
میں سوچتا ہوں کہ وہ کون سے خوش نصیب ملک ہوتے ہیں جہاں ہرکام ایک لگے بندھے ڈسپلن اور ٹائم ٹیبل کے مطابق انجام پاتا ہے۔ جہاں برسوں نہیں بلکہ صدیوں سے طے شدہ تاریخوں کے مطابق انتخابی مہم چلائی جاتی ہے، انتخابی تنائج کوسب ہی تسلیم کرتے ہیں۔ پہلے سے طے شدہ شیڈول کے مطابق انتقال اقتدار ہوجاتا ہے پھر نئی حکومت وطن کی فلاح وبہبود کے کاموں میں جت جاتی ہے اور اپوزیشن نہایت باریک بیں احتسابی عدسہ لگا کر حکومت کے کاموں پر نظر رکھتی ہے۔ مگر یہاں ہر اگلا موڑ نہایت خطرناک موڑ ثابت ہوتا ہے اللہ اللہ کرکے 1956کا متفقہ دستور بنا تو قوم نے سکھ کا سانس لیا مگر1958کے مارشل لا نے جمہوری بساط لپیٹ دی ۔
1970کے انتخابی نتائج کوتسلیم نہ کیا گیا تو ملک دولخت ہوگیا ۔ پھر 1973کا متفقہ دستور وجود میں آگیا مگر سیاست دانوں نے ماضی سے کوئی سبق نہ سیکھا۔ ذوالفقار علی بھٹونے جمہوریت کو شہنشاہت میں بدل دیا ۔ ان کے اشارہ ابرو کے بغیر پتہ بھی نہ ہلتا تھا ۔ پھر1977میں ان کے خلاف تحریک نظام مصطفی چلی ۔ حکومت اور اپوزیشن کے مذاکرات ہوتے رہے ۔ جنرل ضیاالحق نے بھٹو صاحب سے کہا سر! پانی سر سے اوپر ہوتا جارہا ہے آپ جتنا جلدی اپوزیشن سے صلح کرلیں اتنا ہی اچھا ہے مگر سیاست دان اپنے کھیل میں مگن رہے اور قضا وقدر کو کچھ اور منظور تھا ۔ سوچنے والی بات یہ ہے کہ آمریت تو آمریت ہوتی ہے مگر یہ ہر بار ہمارے ہاں جمہوریت شہنشاہت میں کیوں بدل جاتی ہے۔ عوام کے ووٹوں سےمنتخب ہونے والے اقتدار کے سنگھا سن پر جلوہ افروز ہوتے ہی ظل سبحانی اور عالم پناہ کیوں بن جاتے ہیں۔ عام خاص کی بات نہیں آج کے چیف جسٹس کا کہنا ہے کہ یہاں جمہوریت نہیں شہنشاہیت ہے۔ اس وقت ساری قوم ایک اعصابی تناو کا شکار ہے عمران خان نے 2نومبر کو وفاقی دار الحکومت اسلام آباد بند کرنے کا اعلان کردیا ہے۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ یہ آخری دھرنا ہوگا یا دوسرے لفظوں میں آخری معرکہ ہوگا۔ ہمارا مطالبہ دولفظی ہے۔ وزیر اعظم کا احتساب یا وزیراعظم کا استعفیٰ۔ عمران خان جس طرح سے گرج اور برس رہے ہیں اس سے تو یہی لگتا ہے کہ
بارہا دیکھی ہیں ان کی رنجش
اب کے لیکن سرگرانی اور ہے
میں نے تحریک انصاف کے ایک صاحب علم دانشور سے پوچھا کہ ملک میں دستور ہے، ملک میں پارلیمنٹ ہے، ملک میں الیکشن کمیشن ہے ، ملک میں عدلیہ ہے پھر آپ ان سارے جمہوری ایوانوں اور اداروں سے منہ موڑ کر شہروں کو بند کرنے اور اینٹ سےاینٹ بجانے کی دھمکیاں کیوں دیتے ہیں؟ دانشور نے کہا کہ ہم اداروں کا احترام کرتے ہیں۔ اسی لئے ہم نے چھ ماہ تک کوشش کی کہ دستوری انداز میں وزیراعظم کا پاناما لیکس پر احتساب ہوجائے ۔ گستاخی معاف تمام ادارے اپنا اپنا دستوری ایکشن لینے کے بجائے بہانے تراش رہے ہیں۔ ہم نے پارلیمنٹ میں آواز اٹھائی مگر ہماری صدا، صدا بصحرا ثابت ہوئی۔ ٹی اوآر کمیٹی میں ہم نے ہر ممکن تعاون کیا ہم نے الیکشن کمیشن کا دروازہ کھٹکھٹایا مگر کسی نے ہماری التجا پر کان نہیں دھرا ۔ جہاں تک نیب کا تعلق ہے تو وہ حکمرانوں کے ہاتھ کی چھڑی اور جیب کی گھڑی ہے۔ اس لئے عوام کے پاس جانے کے علاوہ ہمارے پاس اور کوئی آپشن نہیں بچا۔ جمہوری ملکوں کا عمومی سیاسی کلچر یہ ہے کہ اپوزیشن ہمیشہ آتش زیرپا ہوتی ہے وہ گرم گفتاری اور شعلہ افشانی کا مظاہرہ کرتی ہے وہ جوش سے بلکہ حکومت ہوش سے کام لیتی ہے۔ وہ جذبات کا الاو بھڑکاتی ہے اور حکومت اس پر پانی ڈالتی ہے ،وہ سخت لہجے میں بات کرتی ہے مگر حکومت نرم دم گفتگو کارویہ اختیار کرتی ہے۔ مگر یہاں حکومت کے ترجمان اور حکومت کے ڈھول سپاہی نہلے پر دہلا وار ہے ہیں۔ وہ اینٹ کا جواب پتھر سے دے رہے ہیں۔ وہ ایک جواب میں دس سناتے ہیں۔ مردان کے جلسے میں حکومت کے ترجمان اور وفاقی وزیر اطلاعات جناب پرویز رشید نے عمران خان کو للکارتے ہوئے کہا کہ میں شرط لگاتا ہوں کہ 30اکتوبر( گو یااب2نومبر) کو عمرا ن خان اسلام آباد میں ہرگز نظر نہیں آئیں گے ۔ وہ کہاں ہوں گے اس کے بارے میں بعد میں بتاوں گا ۔ ان کے لب ولہجے میں وہی تحکمانہ شان تھی جو سابق صدر جنرل پرویز مشرف کے لب ولہجے میں تھی جب انہوں نے نواب اکبر خان بگٹی کو دھمکی دی تھی کہ ہم تمہیں وہاں سے ہٹ کریں گے جس کی تمہیں خبر تک نہ ہوگی ۔ حکومت کے چھوٹے بڑے کئی متوالوں کی سنگ باری کے بعد اب غالباً چھٹی بار بلا مقابلہ مسلم لیگ کے صدر منتخب ہونے کے بعد وزیراعظم پاکستان جناب میاں نواز شریف بنفس نفیس میدان میں اتر آئے ہیں۔ انہوں نے اپنے مخصوص طرز گفتگو سے ہٹ کر میاں شہباز شریف کے انداز میں خطاب فرمایا اور کہا کہ ہم ڈگڈگی والوں سے ڈرنے والے نہیں ۔ انہوں نے عمران خان کانام لئے بغیر اس کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا ۔ تم ناچتے رہو ، گاتے رہو اور گالیاں بکتے رہو ہم اپنا کام کرتے رہیں گے۔ جناب وزیراعظم آپس کی بات ہے کہ آپ نے خودکہا تھا میں اپنے آپ کو اور اپنے اہل خاندان کو احتساب کے لئے پیش کرتا ہوں۔ پھر آپ نے کس مشیر کے کہنے پر راستہ بدل لیا ۔ اب احتساب کا نام آنے پر آپ اتنے برہم کیوں ہوجاتے ہیں۔ کچھ دانشور فرماتے ہیں کہ تلاشی دوتلاشی لو ۔ یہ عجیب کلچر ہے کہ کیا دستور میں لکھا ہے یا مذہبی صحیفوں میں درج ہے کہ جو احتساب کا مطالبہ کرے گا اس کی بات نظر انداز کردو، اسے نشانہ تنقید بناو اور الٹا اس پر الزام تراشی کرو اور بین السطور اسے یہ پیغام دو کہ آئو ایک دوسرے کی کرپشن پر پردہ ڈالنے کا خاموش معاہدہ کرلیں ۔
جناب وزیر اعظم نے پاکئی داماں کی اور اپنے کارناموں کی طویل مختصر حکایت سنائی ہے۔ عام آدمی کی بات یہاں کون سنتا ہے مگر سابق گورنراسٹیٹ بینک عشرت حسین صاحب کی بات تو سنئے وہ کہتے ہیں کہ حکمرانوں کو عام آدمی کے لئے بھی کچھ کرناچاہئے عام آدمی کی زندگی تلخیوں سے بھری پڑی ہے۔ ان کے بچوں کو تعلیم نہیں ملتی ، علاج معالجہ نہ ہونے کے برابر ، بہت بڑی تعداد کو پانی میلوں سے لانا پڑتا ہے، ابھی تک لوڈشیڈنگ 12سے16گھنٹے ہوتی ہے، روزگار کے مواقع نہیں ،سستا اور فوری انصاف ایک خواب سے بڑھ کرنہیں۔جناب وزیر اعظم کے ستارے آج کل گردش میں لگتے ہیں پاناما لیکس کے بعد وزیر اعظم ہائوس سے خبر بھی لیک ہوگئی جو کئی دنوں سے تبصروں اور تجزیوں کا موضوع بنی ہوئی ہے۔
اس وقت حکومت اور پی ٹی آئی بڑی گھن گرج کے ساتھ آمنے سامنے ہیں۔آئیڈیل بات یہ ہوگی کہ دونوں جماعتیں اپنے اپنے رویئے میں لچک پیدا کریں۔ پاکستان کی تاریخ سے سبق سیکھیں۔ اپنے آپ کو اور عزیز ہم وطنوں کو آزماش سے بچائیں اور آئینی تقاضوں کے سامنے خود کو سرنڈر کردیں اسی میں سب کا بھلا ہے۔

.
تازہ ترین