• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
خود کش بمبار خرگوش نے چڑیا گھر میںگھس کر آواز لگائی ’’ سب کے پاس ایک منٹ ہے یہاں سے نکلنے کیلئے ‘‘ یہ سن کر کچھوا بولا ’’ واہ کمینے واہ،سیدھی طرح کہہ کہ مجھے مارنے آئے ہو ‘‘۔ ایک خاتون نے ہرنی کا گوشت پکا کر اپنے بچوں سے کہا ’’آج میں نے اُس کا گوشت پکایا ہے جو اکثر تمہارے پاپا پیار سے مجھے کہتے ہیں ‘‘،یہ سنتے ہی بڑا بچہ چلاّیا ’’ اوئے نہ کھانا مامانے کھوتی پکائی ہے ‘‘۔ شیر اور مرغے کی دوستی ہوئی تو شیر نے کہا کہ ’’اگر کبھی مشکل پڑے تو اذان دے دینا ،میں پہنچ جاؤں گا ‘‘۔ چند دن بعد ہی ایک بھیڑیئے نے مرغے پر حملہ کر دیا ، مرغا زخمی ہو کر کسی نہ کسی طرح جان بچا کر درخت پر چڑھا اور اذان دے دی۔ جونہی اذان ختم ہوئی تو درخت کے نیچے بیٹھا بھیڑیا بڑے پیار سے بولا ’’ نیچے آجاؤ،دونوں مل کر نماز پڑھتے ہیں ‘‘، مرغے نے جواب دیا ’’تھوڑی دیر رکو مولانا صاحب آرہے ہیں ،ان کی امامت میں نماز پڑھیں گے ‘‘۔ اتنے میں بھیڑیئے نے دیکھا کہ دور سے شیر بھاگتا ہواآرہا ہے ، یہ دیکھ کر جب بھیڑیا وہاں سے کھسکنے لگا تو مرغا بولا ’’ کہاں جارہے ہو ،نماز تو پڑھتے جاؤ‘‘۔ بھیڑیا بھاگنے سے پہلے بولا ’’سوری بھائی جان یہ مولاناہمارے فرقے کے نہیں‘‘۔ ایک مچھر کا بچہ پہلی دفعہ اڑ کر گھر سے باہر گیا ،واپسی پر باپ نے پوچھا ’’پہلی اڑان کیسی رہی ‘‘ مچھر کا بیٹا بولا ’’بابا بہت مزا آیا ،میں جہاں بھی جاتا لوگ تالیاں بجا بجا کر میرے پیچھے بھاگتے ‘‘۔ مکھی سےLove Marriageکرنے والے مچھر کو سہاگ رات گھر کے صحن میں پریشان گھومتے دیکھ کر جب دوست نے پوچھا ’’یہاں کیا کر رہے ہو ،بھابھی کہاں ہے ‘‘ تو مچھر غصے سے بولا ’’ اور کہاں جاؤں کمینی اندر مچھر دانی لگا کر سو رہی ہے ‘‘۔ اب حاضر ہیں پرانی کہانیاں ،نئے دور کے نتائج کے ساتھ۔ پیاسا کوّا ۔ ایک پیاسے کوّے کو جگ میں تھوڑا سا پانی اور کنکر نظرآئے، وہ جگ میں کنکرڈال کر پانی پینے کیلئے جیسے ہی نیچے اترا تو نامعلوم افراد کی فائرنگ سے ہلاک ہوگیا ۔لالچی کتا ۔ قصائی کی دکان سے گوشت کا ٹکڑا اٹھا کر کتا ابھی پانی میں اپنا عکس ہی دیکھ رہا تھا کہ اسے سیلابی ریلا بہا کر لے گیا۔ غرور کا انجام۔کچھوے اور خرگوش کی ریس جاری تھی ، آدھے راستے میں جب کچھوے نے خرگوش کو سوتے دیکھا تو وہ خرگوش کا موبائل اور گھڑی لے کر بھاگ گیا ،آخری اطلاعات تک پولیس کچھوے کو ڈھونڈنے میں کامیاب نہیںہو سکی تھی۔
امریکی محقق برائن ٹوماسیک کے مطابق زمین پر 10ارب کے ارب (10 کوئلین ٹیلین) جانور اور حشرات پائے جاتے ہیں ۔برائن نے یہ بھی بتایا کہ کروڑوں کی تعداد میں وہ کیڑے مکوڑے اس کے علاوہ ہیں جو انتہائی چھوٹے ہونے کی وجہ سے کبھی کسی گنتی یا شمارمیں نہیں آتے۔ ایک اور تحقیق کے مطابق دنیا بھر میں گوشت خوری میں آسٹریلیا پہلے ،امریکہ دوسرے اور اسرائیل تیسرے نمبر پر ۔ لیکن ہوائی یونیورسٹی امریکہ کے محققین نے تو کمال ہی کر دیا ،ان کی تحقیق بتاتی ہے کہ ایک خاص نسل کے چوہے اٹھارہ ماہ میں ہزاروں بچے پیدا کریں ،کاکروچ 9دن تک سر کے بغیر بھی زندہ رہ لے ،خنزیر کی جسمانی ساخت ایسی کہ سر اٹھا کر آسمان کی طرف نہیں دیکھ سکتا، بلیاں جو سالانہ 4ارب پرندے کھا جائیں وہ اپنی زندگی کا 60فیصد حصہ سوکر گزاریں ،ایک وقت میں 106لیٹر پانی پی جانے والا اُونٹ 10دن پانی پیئے بغیر زندہ رہ سکتا ہے ،چیونٹیاں سوتی ہی نہیں ،مچھر50میٹر دور سے انسانی خون کی بو سونگھ لے ،بلیو ویل مچھلی کی زبان ہاتھی جتنی ، گولڈ فش کی یادداشت 3سکینڈ کی ، زرافہ صرف 7منٹ سوئے اور وہ بھی کھڑے کھڑے ، کینچوے کے 10دل، دنیا میں انسانوں سے زیادہ مرغیاں جبکہ زمین پر جتنے انسان اتنے چوہے بھی ،کتوں کے آباؤ اجداد بھیڑیئے اور کبوتروں کا ذہن انسانی بچوں جیسا جبکہ ڈولفن کی نظر انسانوں جیسی۔
اسی طرح کی بال کی کھال اتارتی تحقیق کرنے والاایک محقق ایک بار اُس کسان کے ہتھے چڑھ گیا ، جو اِس کا بھی باپ نکلا ، اس محقق اور کسان کے درمیان ہوئی گفتگو ملاحظہ فرمائیں ۔ محقق: آپ اپنے بکروں کو کیا کھلاتے ہیں۔ کسان : سیاہ بکر ے کو یا سفید بکرے کو ۔محقق : سفید بکرے کو۔ کسان : گھاس۔ محقق: اور سیاہ کو۔کسان، اسے بھی گھاس ۔ محقق: آپ انہیں کہاں باندھتے ہیں ۔ کسان : سیاہ بکرے کو یا سفید بکرے کو ۔ محقق: سفید کو۔کسان: اپنی بیٹھک کی ڈیوڑھی میں ، محقق اور سیاہ کو ،کسان، اسے بھی بیٹھک کی ڈیوڑھی میں ۔محقق : انہیں کتنے عرصے بعد نہلاتے ہو ۔کسان : سیاہ بکرے کو یا سفید بکرے کو ۔ محقق : سفید بکرے کو ۔ کسان : مہینے میں ایک بار نہلاتا ہوں ۔ محقق : اور سیاہ کو ،کسان، اسے بھی مہینے میں ایک دفعہ نہلاتا ہوں۔ یہاں پہنچ کر محقق نے انتہائی غصے سے کہا جب تم دونوں بکروں کے ساتھ ایک جیسا ہی سلوک کرتے ہو تو پھر یہ سیاہ اور سفید کی رٹ کیوں لگا رکھی ہے ۔ کسان بولا کیونکہ سفید بکرا میرا ہے ، محقق:اور سیاہ بکرا کس کا ہے، کسان : وہ بھی میرا ہے ۔ یہ سنتے ہی محقق بے بسی بھرے غصے میں سر پکڑ کر زمین پر بیٹھا تو کسان بولا حضور اب پتا چلا،آپ کی تحقیقی کاوشوں کو پڑھ کر ہم جیسوں کا بھی یہی حال ہوتا ہے ۔ عربی سیانے کہیں کہ خدا جب چیونٹی سے ناراض ہوتا ہے تو اسے پر دیدتا ہے ،چینی محاورہ ہے کہ کتے کے منہ میں ہاتھی کے دانت نہیں اگتے ۔جاپانی کہاوت کہ اندھوں نے ہاتھی کو چھوا ، سب نے الگ الگ محسوس کیا ،جبکہ یہ محاورے تو ہم روز ہی سنتے ہیں کہ بھینس کے آگے بین بجانا، جس کی لاٹھی اسکی بھینس،اونٹ سستا مگر پٹا مہنگا،بلی کے گلے میں گھنٹی کون باندھے گا،بلی پہلے دن ہی مار دینی چاہئے ،دیکھئے اونٹ کس کروٹ بیٹھتا ہے ،جہاں مرغ اذان نہیں دیتا کیا وہاں صبح نہیں ہوتی ، بخشو بی بلی ، چوہا لنڈ وراہی بھلا ، زندہ ہاتھی لاکھ کا،مرا سوا لاکھ کا ، وہی مرغی کی ایک ٹانگ،خوابِ خرگوش کے مزے اور بندر بانٹ کرنا۔ اسی طرح ہماری روز مرہ زندگی میں انسانوں کو جانوروں سے تشبیہ دینا بھی معمول بن چکا ،جیسے عقلمند اور ہوشیار انسان کو سیانا کوّاکہنا ،مکار شخص کو لومڑی ، وقت پڑنے پر نظریں پھیرنے والے کو طوطا چشم ، ہر بار ہاتھ میں آکر نکل جانے والے کو Slippery Fish، کاہل اور لکیر کے فقیر کو کچھوا یا کنوئیں کا مینڈک ،دھوکے باز کو سانپ یا بچھو، عجیب وغریب حرکتیں کرنے والے کو بندر، پل پل میں بدلنے والے کو گرگٹ، بہادر اور جی دار کو چیتا یا شیر ، نقال کو طوطا، بے وقوف کو اُلوّ ، کالے یا چپکو کو چمگاڈر، کارآمد اور فائدہ مند کو گھوڑا اور بزدل یا ڈرپو ک شخص کو چوہا یا گیدڑ ۔ ویسے تو عقل سے عاری انسان کو گدھا کہا جائے مگراب بھارتی صوبے راجستھان میں گدھا مستقبل کا حال بتاتا ہے ، لیکن کتا ماضی کی طرح آج بھی وفادار ،ابھی چند دن پہلے چلی کی پولیس کو ایک ایسا لاغر بچہ ملا جسے کئی دنوں سے ایک کتیا دودھ پلا رہی تھی۔ مشرق کے تو انسانوںکی بھی کوئی ویلیو نہیں لیکن مغرب میںجانور بھی VIP ، ابھی چند ہفتے قبل ایک امریکی کروڑ پتی خاتون ا یسلی این میڈل نے نہ صرف اپنے پالتو طوطوں کیلئے 4ملین ڈالرز کا چڑیا گھر بنوایا بلکہ اپنی آدھی جائیدادبھی طوطوں کے نام کر دی اور پھر جرمنی میں جب ایک 26سالہ خاتون کو اس کے بوائے فرینڈ کی بلی نے کاٹ لیاتو خاتون نے پہلے اپنے فرینڈ کی خوب ٹھکائی کی اور جب غصہ پھر بھی ٹھنڈا نہ ہو ا تو اس نے بلی کی طرح اس بے چارے کو 4مرتبہ کاٹا بھی لیکن مجال ہے کہ خاتون نے بلی کو کچھ کہا ہو بلکہ جب پولیس پہنچی تو وہ بلی کو چاکلیٹ کھِلا رہی تھی ۔
ہمیں آئے روز یہ بھی سننے کو ملے کہ ’’ملک میں جنگل کا قانون ہے ‘‘ مطلب کہ قانون نامی کوئی شے نہیں حالانکہ اس سے بڑ اکوئی اور جھوٹ ہو ہی نہیں سکتا کیونکہ اب تو جنگل ہی وہ جگہ کہ جہاں قانون بھی اور سکون بھی بلکہ جنگل ہی وہ مقام کہ جہاں نہ جھو ٹ نہ منافقت اور نہ دونمبری ،یہ جنگل ہی کہ جہاں نہ بادشاہت کے جھگڑے ، نہ کرپشن کے قصے ، نہ مذہبی تقسیم اور نہ ذات پات کی گروہ بندی، یہ جنگل ہی کہ جہاں شیر سے گیدڑتک جب کسی کا پیٹ بھر جائے تووہ خوراک باقیوں کیلئے چھوڑ دے اور یہ بھی جنگل ہی کہ جہاں ہر جانور اپنے گھراور ٹھکانے کیلئے جان لینے اور جان دینے پر تیار ۔ اب اپنی دنیا دیکھ لیں ہر جھگڑا،ہر لڑائی اور ہر برائی یہاں موجود، یہا ں کبھی کسی شیر نے کچھ چھوڑا نہیں اور کبھی کسی گیدڑ کا پیٹ بھرا نہیں ، اور یہ ہماری دنیا ہی کہ جہاں جسے جب موقع مِلا اُس نے اپنی پالنے پوسنے والی دھرتی ماںکا ہی سودا کر ڈالا ۔لہذا براہ مہربانی جنگل اور جنگل والوں کو بدنام نہ کریں کیونکہ جنگل میں حالات جتنے بھی خراب ہو جائیں مگر پھربھی وہاں کبھی یہ وقت نہیں آئے گا کہ آرڈر دیا جائے ’’چکن کڑاہی‘‘ کا اور ملے’’ کھوتا کڑاہی‘‘۔
تازہ ترین