• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
یوم دفاع یعنی چھ ستمبر سے متعلق نہ صرف پاکستان میں تقریبات منعقد کی جاتی ہیں بلکہ دنیا بھر کے پاکستانی سفارتخانوں میں بھی 6ستمبر کی تقریب کو نمایاں اہمیت دی جاتی ہے۔ چونکہ ہر زندہ قوم اپنے شہدا ءکے کارناموں اور ان کی یادوں کو بڑے شوق، جذبے اور آن بان کیساتھ مناتی ہے اسلئے حال ہی میں چھ ستمبر کے موقع پر ہالینڈ میں پاکستان کے سفارتخانے کے تعاون سے پاکستان ملٹی کلچرل ایسوسی ایشن نے یہ شاندار تقریب ایک مقامی ہوٹل میں منعقد کی۔ ایسوسی ایشن کی جانب سے رئوف غوری اور جمیل احمد کی تگ و دو نمایاں طور پر نظر آرہی تھی انہوں نے مہمانوں کی خاطر مدارت جسے آپ ڈنر بھی کہہ سکتے ہیں میں کوئی دقیقہ نہیں اٹھا رکھا تھا۔ تقریب کی صدارت سفیر پاکستان معظم احمد خان نے کی جبکہ مہمان خصوصی کے طور پر وزیر اعظم پاکستان میاں نواز شریف کے معاون خصوصی برائے قومی امور جناب عرفان صدیقی کو مدعو کیا گیا تھا اور اس میں یہ بتانا ضروری سمجھتا ہوں کہ یوم دفاع کے علاوہ عرفان صدیقی کی شخصیت میرے کالم کا محرک بنی ہے۔ سفارت خانے کی طرف سے تعاون کا بھرپور ہاتھ اور ساتھ نائب ناظم امور یعنی ڈپٹی چارج ڈی آفیسر شعیب سرور کا تھا۔ شعیب پاکستانی وزارت خارجہ کی ایک سوغات ہے کہ ان میں پاکستانیوں سے دوستی، بھائی چارہ، یگانیت، لگائو، محبت اور یک جہتی کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی ہے انہوں نے ہالینڈ میں جو ناقابل فراموش خدمات انجام دی ہیں ۔ اسی طرح سفیر پاکستان معظم احمدخان نے پاکستانیوں کو ان کی پاکستانیت لوٹانے میں بھرپورکرداراداکیاہے۔ پاکستانی میلوںنے دیار غیر میں بھی پاکستانیوں کو ان کی ثقافت سے لاتعلق نہیں ہونے دیا۔ ان میلوں کی بازگشت یورپ کے شہروں میں ابھی تک سنائی دے رہی ہے۔ سفیر پاکستان نے اپنی تقریر میں روایتی باتوں سے ہٹ کر پاکستان اور پاکستانیوں کے مسائل پر بات کی۔ میری طرح انہیں بھی اس بات کا انتظار ہے کہ حکومت پاکستان کی کارروائیوں سے عالمی سطح پر کیا اثرات ظاہر ہوں گے۔ اس کے مختلف پہلوئوں پر بات ہورہی ہے اور ہوتی رہے گی انہوں نے کہا کہ یہ سارے معاملات صرف اور صرف جمہوری ہیں اور جمہوریت پاکستان کی اساس ہے۔ جمہوریت ایک رویہ ہے اور جب تک یہ رگ و ریشے کا جز نہ بنے اس کے فوائد حاصل نہیں ہو سکتے۔
ڈرامہ نویس‘کالم نگاراوروزیراعظم پاکستان کے مشیر عرفان صدیقی مہمان خصوصی کے طورپر کشورحسین شادباد سے تشریف لائے تھے۔میراایک شعرہے ان کے لئے
میں اپنے ساتھ لایاہوں مٹی دیارکی
مٹی سے ایک چراغ بناناہے ان دنوں
دیارکی مٹی سے بناہوا یہ چراغ ایک شانداراورکثیرالجہت دانشور کے طورپرجاناجاتاہے ان کے کالم اپنے آپ میں اتناکچھ بولتے ہیں کہ قارئین ان کوکسی طوربھی نظراندازنہیں کرسکتے۔ ہیں تویہ اخبارکے آدمی لیکن ان دنوں یہ وزیراعظم نوازشریف کے اسپیشل اسسٹنٹ برائے قومی امور کے عہدہ جلیلہ پرفائزہیں۔شعروادب کانفیس ذوق رکھتے ہیں‘اہل علم اورباخبرحضرات وخواتین عرفان صدیقی کی بوقلمونی اوران کی سادہ مزاجی کے سبب عزت واحترام کرتے ہیں۔زبان وبیان کا توجواب ہی نہیں ہے۔ٹیچرکے طور پر اپنے کیریئر کی شروعات کرنے والے عرفان صدیقی کوان کے کالموں سے اصل پہچان ملی ہے شایدکم کم لوگوں کوعلم ہے کہ یہ ریڈیووٹیلی وژن کے ڈرامہ نگار بھی رہے ہیں کہ زبان وبیان اورمنظرنامے پربے حدعبوررکھتے ہیں‘منظر پس منظر اورپیش منظر ان کی نظروں سے اوجھل نہیں ہوتاوہ منظر چاہے موت کاہویا موت کے بعد کا ۔چاہے جی جی کرمرنے کا یامرمرکرجینے کا۔ اسکول ٹیچر سے کالم نگاری اورکالم نگاری سے وزیراعظم کےاسپیشل ایڈوائزر تک کاسفر ان کی صلاحیتوں ‘اپنے کام کے تئیں سچی وفاداری اورلگن کی کہانی ہے ۔انہوں نے اپنے مداحوں کے دلوں میں اپنی ایک الگ چھاپ چھوڑی ہے۔
عرفان صدیقی نے اپنی تقریر میں جہاں اور باتیں وحکایتیں و شکایتیں بیان کیں وہیں انہوں نے پاکستان کےتین عذابوں میں گھرے ہونے کااعتراف بھی کیا۔
نمبر1۔ طالبان کی دہشت گردی،نمبر2 ۔ کراچی کا مسئلہ اور نمبر3 ۔ توانائی کا بحران۔
جن تین’’ عذابوں‘‘کی نشاندہی عرفان صدیقی نے کی ہے میرے حساب سے یہ پاکستان ہی کےپیدا کردہ ہیں۔ سب سے پہلے میں دہشت گردی کے مسئلے کو لیتا ہوں، پاکستانیوں ، امریکیوں اور دوسرے مسلم ممالک نے روس کے خلاف جو جہاد کا پودا لگایا تھا آج ہم اسکا پھل کھا رہے ہیں۔انتہا پسندی کاکینسر ضیاء الحق کی پالیسیوں کا نتیجہ ہے۔نام نہاد افغان جہادکے نتیجے میں انتہا پسندی، دہشتگردی عسکریت پسندی اور جنگ جوئی کا ایک مکمل نیٹ ورک بن چکا ہے جو دوسو ساٹھ بلین ڈالر کا مرہون منت ہے اور جو نہ صرف پاکستان میں بلکہ دیگر اسلامی ملکوں میں بھی جڑ پکڑ چکا ہے۔
دوسرا مسئلہ کراچی کا ہے۔کراچی میں لاکھوں ٹن غیر قانونی اسلحہ ہے۔ رینجرز کا اپنا ہاتھ زخمی ہونے سے بال بال بچا ہے اگر وہ ہاتھ نہ ڈالتی تو کئی رئیس امروہوی جان دیتے رہتے۔ اکثریت اور اقلیت کا مسئلہ کراچی میں مذہبی، نسلی اور لسانی رنگ اختیار کر چکا ہے۔
پاکستان میں توانائی کا بحران آج سے نہیں گزشتہ پون صدی سے چل رہا ہے کبھی کم کبھی زیادہ لیکن ایک بات تو طے ہے کہ کسی بھی حکومت نے اس مسئلہ کو سنجیدگی کی عینک سے نہیں دیکھا۔ کسی بھی حکومت نے نیوکلیئر ٹیکنالوجی سے بجلی پیدا کرنے کی جائز ضرورت کا اندازہ تک نہیں کیا یہاں یہ بات بھی یاد رکھنے کی ہے چین نے پاکستان کو تین سو میگا واٹ کے دو پلانٹ دے رکھے ہیں ان سب کے باوجود بجلی کا بحران اپنی آخری حدوں کو چھو رہا ہے۔ ایک اور بات آپ سے شیئر کرتا چلوں کہ جاپان جو ایشیا کا حصہ ہے وہ بھی نیوکلیئر ذرائع سے بجلی کی پیداوار میں تیس تا چالیس فیصد اضافہ کر چکا ہے۔
یہاں ہمیشہ ہمیشہ کیلئے رات کیوں ٹھہر گئی ہے ؟ آخر خرابی کہاں ہے ؟
تازہ ترین