• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پاکستان کے آپشنز فکرفردا … راجہ اکبردادخان

ہمارا تعلق ایک ایسے معاشرے سے ہے جہاں عوام کی اکثریت اور حکومتیں بالعموم ’’زمینی حقائق‘‘ سے چشم پوشی کی عادی ہوچکی ہیں۔ صرف اگر ہم آج کے اہم ترین سیاسی موضوع’’کشمیر‘‘ کو ہی لے لیں تو ہم سب اپنے دلوں میں یہ تسلیم کرچکے ہیں 70برس گزر جانے کے بعد اقوام متحدہ کی قراردادوں پر عمل کروانا ممکن نہیں رہا۔ وجوہات درجنوں کی تعداد میں ہیں مگر آج انہیں کریدنے سے کچھ حاصل نہیں ہوگا۔ حالات کب سے نئی سوچوں کے ذریعہ زمینی حقائق سے نمٹنے کیلئے کہہ رہے ہیں۔اقوام متحدہ کی قراردادوں اور آج کے درمیان نصف درجن کے قریب بڑے سفارتی اقدامات ہوچکے ہیں۔ جن سے کسی نہ کسی شکل میں تھوڑی بہت پیش ہوئی۔ مگر دونوں اطراف کی ہچکچاہٹ کی وجہ اعلیٰ سطح پر قابل قبول یہ تجاویز کسی ممکنہ حل کی شکل اختیار نہیں کرسکیں ہیں۔ مختلف مراحل پر معاہدہ تاشقند، بھٹو سوارن سنگھ مذاکرات چناب فارمولا اور مشرف فارمولا ہماری سفارتکاری کا حصہ رہے ہیں۔ پچھلے کچھ عرصہ میں ہم اچانک کسی خواب سے جاگے اور کشمیر ڈپلومیسی کی بینڈ ویگن پر چڑھ پیٹھے۔ اور ایک غیریقینی صورتحال میں دنیا بھر میں وفود بھیجنے کے فیصلے کرلئے گئے اور وزارت خارجہ بھی متحرک ہوگئی۔ معنی خیز پیش رفت کیلئے ماحول موجود ہونے چاہیں جو اس موقع پر موجود نہیں تھے۔ یقیناً جب ہم ان مختلف حوالوں سے بھارت کے ساتھ مذاکرات کررہے تھے تو ہم اس مسئلہ پر جس کا ہم آج باآواز بلند ذکر کر رہے ہیں(یواین پوزیشن)بہت پہلے سے موجود تھی۔ دنیا پاکستان کو اس مسئلہ پر’’پی اینڈ چوز‘‘کرنے کی اجازت نہیں دے سکتی۔ یہی وجہ ہے کہ جتنے ممالک میں وفود گئے ہمیں حوصلہ افزائی نہیں ملی دیگر کئی حوالوں سے بھی پاکستان کو لاتعداد اندرونی اور بیرونی مشکلات کا سامنا ہے۔ یہاں ایک مناسب سوال یہ بھی ابھرتا ہے کہ کیا اس بڑی ’’سفارت کاری مہم‘‘کیلئے درست وقت کا انتخاب ہوسکا ہے یا نہیں؟ لائن و کنٹرول کی خلاف ورزیاں کوئی نئی بات نہیں اور نہ ہی مقبوضہ کشمیر میں آزادی کے لئے مظاہرے اور ہڑتالیں گرمیوں کے طویل روشن ایام اور موسمی حالات یقیناً ان میں تیزی لانے کی ایک وجہ ضرور بنتے ہیں کئی برسوں کے lowKey احتجاجوں کے بعد اس دفعہ کی شدت یہ واضع کرتی ہے کہ قائدین نے اپنے مقاصد کے حصول تک تیز رفتاری سے سفر جاری رکھنے کے عزم کررکھے ہیں۔ اگر فیصلے اسی طرح کے ہیں تو یہ عوامی اعتماد اور حمایت حاصل کرنے کیلئے زیربحث آنے چاہیں کیونکہ ہمارے محسن اور حمایتی پاکستان کو ان حالات سے نمٹنے کیلئے بھی’’گومگوں‘‘کی موجودہ غیرتسلی بخش صورتحال سے باہر آنا ہوگا اور قوم کے سامنے اس حوالہ سے ایک قابل عمل پالیسی رکھنی ہوگی اعلیٰ ترین حکومتی سطح پر اس ایشو کو وہ واضح اہمیت نہیں مل رہی جو ملنی چاہئے جو اس بات کا عندیہ ہوسکتا ہے کہ وہ اس پرکسی طویل تکرار کا حصہ نہیں بننا چاہتے اور بھارت کے ساتھ معاملات طے کرنے کے خواہش مند ہیں اور اگر ایسا سوچنا درست نہیں اور حکومت سیاسی اور سفارتی جنگ جیت کر اقوام متحدہ کی قراردادوں پر عمل کروا کر ہی دم لے گی تب بھی تصویر زیادہ واضع نہیں اسی بحث کا تیسرا کو نہ’’تحریک آزادی‘‘ کے مارچ کا کسی نہ کسی انداز میں چلتے رہنا بھی ہے اگرچہ اس احتجاج کو موجودہ بڑے لیول پر قائم رکھنا بھی آسان نہیں مایوسیاں و ناکامیاں ہم سب کی زندگیوں کو متاثر کردیتی ہیں۔پاکستان کیلئے کسی ایسے سمجھوتہ کی طرف بڑھنا زیادہ مشکل نہیں جس کی ترتیب وتشکیل’’مشرف فارمولا‘‘ سے ملتی جلتی ہو یہ بھی یاد رہے کہ یہ فارمولا بھی اکثریت متعلقین کی رضامندی ہی سے آخری مراحل تک پہنچا آج شاید بھارت یہ آپشن دینے پر بھی راضی نہ ہو کیونکہ وہ آج اس ایشو سے جڑے معاملات میں بہتBeligerant رویہ اپنائے ہوئے ہے کشمیریوں کی بھارت سے علیحدگی کی خواہش براستہ رائے شماری ایک بین الاقوامی حقیقت ہے اور اس بین الاقوامی تصور کو عملی شکل دلوانے کیلئے پاکستان کو ایک طویل موثر سفارتی سفر کا آغاز کرنا ہوگا۔کشمیریوں کو جب بھی آزادی سے اپنا مستقبل چننے کے مواقع میسر ہوں گے فطری طور پر ان کے فیصلے پاکستان کے حق میں ہوں گے۔ حریت کانفرنس کے اندر تمام نقطہ ہائے نظر کے قائدین موجود ہیں مگر اکثریت جیلوں میں بند ہونے کی وجہ سے اپنے ہی لوگوں سے باامر مجبوری کٹے پڑے ہیں اور غالباً یہ Lack of Communication کی وجہ سے ہی دیکھنا پڑھ رہا ہے کہ حریت کانفرنس کی اجتماعی آواز زیادہ مضبوط طریقہ سے سننے کو نہیں مل رہی۔ جب یہ طے ہے کہ اکثریت کشمیری بھارت سے آزادی چاہتے ہیں تو احتجاجوں میں’’کشمیری آزادی چاہتے ہیں‘‘کے جھنڈے زیادہ بڑی تعداد میں نظر آنے چاہیں اس سے یہ واضع ہوگا کہ یہ ایک Non Sectarianتحریک ہے جو اس تحریک کو بھی بننا چاہیئے، اور دوسرا پاکستان مخالف لابی تحریک کو اس رنگ میں دیکھ کر پاکستان کے خلاف لب کشائی سے مجبوراً رک جائے گی اور آزادی کے یہ جھنڈے اور ان میں شہداء کے لپٹے کفن غیرجانبدار رویوں پر ایک مختلف اور موثر اثرقائم کرنے کی وجہ بن پائیں گے کہ یہ بیرونی اثرورسوخ کے بغیر چلنے والی کشمیریوں کی اپنی تحریک آزادی ہے۔ جس سے جڑی شہادتوں اور احتجاج نے ریاستی زندگی کو مفلوج بنارکھا ہے، اور بھارتی حکومت کو اس احتجاج سے متکلم ہوکر حل نکلانے کی ضرورت ہے۔ اس طرح کی سوچیں اہم تبدیلیوں کی وجہ بن سکتی ہیں۔وسط 1965سے شروع ہونے والے ایک بڑے احتجاج جس کے بعد پاک بھارت جنگ بھی ہوئی جس کے بعد ہونے والے مظالم جو مقبوضہ کشمیر میں مجاہدین کی مدد کے الزام میں مسلمان خاندانوں پر ڈھائے گئے انکی روداد اکثر مورخین کی نظروں سے اوجھل ہے۔ چن چن کرگائوں کے گائوں ان نعروں کے درمیان کہ’’کہاں ہے تمہارا پاکستان‘‘ جلادیئے گئے۔ مردوں کو من گھڑت الزامات میں طویل سزائیں دلوادی گئیں اور خواتین کی عزتوں سے کھیلا گیا اور یہ سب کچھ بھارتی ریاستی ایما پر ہوا۔ ہم نہ اس طرح لُٹی پٹی حالت میں آنے والوں کو کسی معقول انداز میں ڈیل کر سکے اور نہ ہی اُدھر ہونے والے ظلم پر دنیا کو متوجہ کرسکے۔پاکستانی اور کشمیری عوام توقع رکھتے ہیں کہ متعلقہ قائدین وہی فیصلے کریں گےجن کو ہم سنبھال سکیں اور جن سے کشمیریوں کیلئے بہتریاں ابھر سکیں، اللہ ہم سبکا حامی وناصر ہو۔



.
تازہ ترین