• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
18 ستمبر کو میر مرتضیٰ بھٹو کی سالگرہ ہے، اور20 ستمبر کو 19 ویں برسی۔ یہ 1996 ءمیں ان کے قتل کی تاریخ ہے۔ زندگی اور موت میں ایک دن کا فرق المناک داستان ہے۔ اِن دنوں میں لندن میں ہوں، لندن میں Queens Road کے قریب میر مرتضیٰ بھٹو کا فلیٹ یاد آرہا ہے۔ اس فلیٹ سے مرتضیٰ بھٹو نے اپنے چھوٹے بھائی شاہنواز بھٹو کے ہمراہ اپنے والد اور پاکستان کے منتخب وزیرِاعظم جناب ذوالفقار علی بھٹو کے جھوٹے مقدمہء قتل میں سزائے موت کے خلاف عالمی مہم چلائی تھی، یہ جگہ ان کی جدو جہد کا محور تھی اور جنرل ضیا الحق کے مارشل لاء کے خلاف ہر کسی کی توجہ کا مرکز تھی دنیا کے اخبارات ، ہر ٹیلی وژن چینل نے اسی جگہ سے دونوں بھائیوں کی انتھک کوشش اور جدو جہد کو رپورٹ کیا۔جنرل ضیاء کی آمریت پاکستان کی تاریخ کا بد ترین دور تھا۔ عوام اور خصوصاً پی پی پی کے کارکنوں پر وحشیانہ تشدد، ظلم و ستم اور کوڑے، پھانسیاں اس ظالمانہ عہد کی یاد دلاتی ہیں۔ پاکستان کے منتخب وزیرِاعظم کا عدالتی قتل کیا گیا۔ اور غیر منصفانہ اور سفاکانہ اقدام عدالتی نظام کا شرمناک نشان بن گیا۔
4؍اپریل 1979ءکو جناب بھٹو کے عدالتی قتل کے بعد اسی فلیٹ سے میر مرتضیٰ بھٹو اور شاہنواز بھٹو نے لندن کے ٹیلی وژن کوانٹرویو دیا جسے ساری دنیا میں رپورٹ اور نشر کیا گیا، شاہنواز بھٹو نے کہا جنرل ضیاء نے ہمارے والد کو شہید کر دیا ہے۔ وہ انھیں سیاسی طور پر ختم نہیں کر سکا۔ اسلئے اس نے ہمارے والد کی بے پناہ مقبولیت سے خوفزدہ ہوکر ان کا جسمانی قتل کیا ہے۔
میر مرتضیٰ بھٹو نے کہا:
جنرل ضیاء نے دو سال تک ہمارے والد پر تشدد کیا، ان کا حوصلہ اور ہمت توڑنے کی کوشش کی۔ ان کیساتھ جو اذیت ناک سلوک کیا گیا، اس سے پوری دنیا کو صدمہ پہنچا ہے۔ جنرل ضیاء ہمارے والد کا قاتل ہے۔4؍اپریل 1979ءکے اس مختصر انٹرویو کا عالمی سطح پر اور خصوصاً یو کے اور یورپ میں شدید ردِعمل ہوا۔ دنیا میں اس بربریت کی شدید مذمت کی گئی اور پاکستانی سراپاء احتجاج بن گئے، اس روز جناب بھٹو کی پھانسی کا ذکر تھا۔ دونوں بھائیوں نے جس وقار اور متانت کا مظاہرہ کیا تھا، اس کی بدولت ان کیلئے ہر شخص کے دل میں محبت اور ہمدردی پیدا ہوئی۔ ایک سال کے دوران ان کی جدو جہد کا نتیجہ تھا کہ برطانیہ بھر کے پاکستانی اور کشمیریوں نے بہت بڑا مظاہرہ کر کے جنرل ضیاء کے مظالم اور جمہوریت کش اقدامات کو دنیا بھر میں بے نقاب کیا ۔ لندن میں ہائیڈ پارک کی تاریخ کا یہ بہت بڑا جلوس تھا اور ہر طرف جنرل ضیا، اور آمریت مردہ باد کے نعرے گونج رہے تھے۔ مجھے وہ شام یاد آرہی ہے جب شاہنواز بھٹو نے اپنی ہمشیرہ صنم بھٹو کی موجودگی میں پہلی مرتبہ اپنے والد کے قتل پر دیوانہ وار ردِعمل کیا ۔ اور اسی فلیٹ کی دیوار سے سر ٹکرا ٹکرا کر ہم سب کو خوف زدہ کر دیا تھا۔ اس وقت میر مرتضی ٰ بھٹو نے اپنے بھائی سے وعدہ کیا تھا کہ وہ اپنے والد کے قتل کا جنرل ضیاء سے انتقام لے گا۔ اسی لمحے انہوں نے مسلح جدوجہد کی راہ اپنانے کا سوچا اور کابل جا کر جدو جہد کی بنیاد رکھی۔ اور اس کا افسوس ناک انجام یہ ہوا کہ ان کی زندگی کی بنیاد مسمار ہوگئی۔اس مسلح جدوجہد کے فیصلے کی پی پی پی کے کارکنوں نے بھاری قیمت ادا کی، ان پر مظالم، تشدد اور جبر کا نیا دور شروع ہو گیا۔ خود پارٹی کی سربراہ بیگم نصرت بھٹو اور بے نظیر بھٹو نے بہت مظالم کا سامنا کیا۔ طویل نظر بندی اور قید کی مشکلات برداشت کیں۔ قائدِعوام ذوالفقار علی بھٹو نے جس جرات اور بہادری سے ذہنی اور جسمانی تشدد برداشت کیا اور پھانسی کی کوٹھری میں توہین آمیز سلوک کا سامنا کیا۔ اسی جذبہ اور حوصلہ سے بیگم نصرت بھٹو اور ان کی بیٹی بے نظیر بھٹو نے اپنے خلاف ظالمانہ کارروائیوں کا مردانہ وار مقابلہ کیا، اور مارشل لا اور ضیاء آمریت کے آگے سرنگوں ہونے کی بجائے ہمت و حوصلہ کی افسانوی داستان رقم کی۔ میر مرتضیٰ بھٹو اپنی والدہ بیگم نصرت بھٹو کا بے حد احترام کرتے تھے۔ بیگم صاحبہ بھی اپنے بیٹے سے بے حد محبت کرتی تھیں۔ 20 ستمبر کو یہ رشتہ ہمیشہ کیلئے ٹوٹ گیا اور موت نے ایک انتہائی خوبصورت، وجیہ اور ملنسار نوجوان میر مرتضیٰ بھٹو کو چھین لیا۔میں 1993 ءکے الیکشن سے قبل میر مرتضیٰ بھٹو سے ملنے دمشق گیا۔ ان کی پیاری بیٹی فاطمہ بھٹو ان کے ساتھ تھیں، محترمہ بے نظیر بھٹو شہید کی خواہش کے مطابق میں نے مرتضیٰ کو یہ پیغام دیا:کہ وہ ابھی پاکستان نہ آئیں، اور قومی اورصوبائی اسمبلی کے انتخابات میں 18 حلقوں سے انتخاب لڑنے کا ارادہ ترک کر دیں۔ ایسا بیگم صاحبہ چاہتی تھیں۔ کیونکہ اس طرح سے پارٹی کو نقصان ہو گا۔میر مرتضیٰ بھٹو کا اس وقت پاکستان واپسی کا ارادہ تھا۔ میری واپسی سے قبل دمشق کےایک ہوٹل میں الوداعی ڈنر کا اہتمام کیا گیا۔ اس میں شام کے ایک اعلیٰ عہدیدار بھی شریک تھے۔ ہم تینوں سیاسی حالات پر بات چیت کر رہے تھے، اس موقع پر شام کے عہدیدار نے میر مرتضیٰ بھٹو سے جو کہا تھا اور جس خطرےکی نشان دہی کی تھی وہ 20 ستمبر کو درست ثابت ہوئی۔ آج لندن میں میں میر مرتضیٰ بھٹو کی 19 ویں برسی کے موقع پر ان واقعات و حالات کا سوچتا ہوں تو یہ حیرت انگیز حقیقت آشکار ہوتی ہے کہ شاہنواز بھٹو، میر مرتضیٰ بھٹو اور محترمہ بے نظیر بھٹو کی شہادت میں 11 کا ہندسہ اہم ہے اور تینوں ہر 11 سال کے بعد اس جہانِ فانی سے رخصت ہوئے۔
شاہنواز بھٹو کی پرُاسرار موت 18جولائی 1985 کو واقع ہوئی۔ اسکے 11 سال بعد میر مرتضیٰ بھٹو 20 ستمبر 1996 کو کراچی میں قتل ہوئے۔ اور پھر 11 سال بعد 27 دسمبر 2007 کو محترمہ بے نظیر بھٹو لیاقت باغ میں شہید ہوئیں۔ ان تینوں کے اس دنیا سے رخصت ہونے میں 11 سال کا عدد فکر انگیز ہے اور یہ غیبی پہلو ناقابلِ فہم بھی ہے۔
خدا نہ کرے کہ11سال کی تاریخ پھر کہیں دہرائی جائے۔
تازہ ترین