• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
پاکستان میں اس مرتبہ 15 ستمبر کو ’’ عالمی یوم جمہوریت ‘‘ خوف اور بے یقینی کی فضاء میں گذر گیا ۔ کہیں کوئی تقریب منعقد نہیں ہوئی ۔ البتہ سیاسی رہنماؤں نے جمہوریت کو درپیش خطرات پر اپنی سخت تشویش کا اظہار کرکے اس دن کی ’’ اہمیت ‘‘ کو اجاگر کیا ۔ سینیٹ میں عالمی یوم جمہوریت کی مناسبت سے بحث ہوئی ، جس میں حصہ لینے والے زیادہ تر ارکان نے جو باتیں کیں ، ان سے یہ محسوس ہوتا ہے کہ وہ پاکستان میں جمہوریت کے مستقبل کے بارے میں بے یقینی کا شکار ہیں ۔اس بے یقینی کا بنیادی سبب ایوان وفاق ( سینیٹ ) کے ارکان کے ذہنوں میں پایا جانے والا یہ تاثر ہے کہ فوج اور سول تعلقات کشیدہ ہیں ۔ سینیٹ کے چیئرمین میاں رضا ربانی نے تو قوم کو خبردار بھی کر دیا ہے کہ فوج کے اقتدار پر قبضے کے خلاف آئین میں جو تحفظ فراہم کیا گیا ہے ، وہ غیر موثر ہو چکا ہے ۔ آئین کا آرٹیکل ۔6ایک اضافی چیز بن چکا ہے اور یہ سب کچھ ہماری کمزوریوں کی وجہ سے ہوا ہے ۔ جماعت اسلامی کے سربراہ سینیٹر سراج الحق نے کچھ زیادہ مایوسی کا اظہار کیا ہے اور کہا ہے کہ آرٹیکل ۔ 6 کا کبھی اطلاق نہیں ہوا ، جس کا مطلب یہ ہے کہ ملک میں جمہوریت نہیں ہے ۔ اگرچہ حکمران پاکستان مسلم لیگ (ن) کے سینیٹر اقبال ظفر جھگڑا بہت پرامید تھے اور ان کا کہنا یہ تھا کہ جمہوری نظام کو کوئی خطرہ نہیں ہے لیکن پاکستان پیپلز پارٹی کے سینیٹر اور آصف علی زرداری کے ترجمان فرحت اللہ بابر نے تو کھل کر یہ بات کہہ دی ہے کہ سول ملٹری تعلقات ٹوٹ چکے ہیں ۔ انہوں نے یہ بھی کہہ دیا کہ جب ہم اقتدار میں تھے تو ہم بھی یہی کہتے تھے کہ حکومت اور فوج ایک صفحے (پیج )پر ہیں۔اب مسلم لیگ (ن) ایسے ہی دعوے کر رہی ہے لیکن حقیقت یہ نہیں ہے ۔ دونوں ایک صفحہ پر نہیں ہیں ۔ پاکستان مسلم لیگ (ق) کے سینیٹر مشاہد حسین سید کا کمال یہ ہے کہ وہ جمہوریت کے ساتھ ساتھ مظلوم قوموں اور گروہوں کے حقوق کے بڑے چیمپئن ہیں لیکن اسٹیبلشمنٹ کو انہوں نے اپنی باتوں سے کبھی ناراض نہیں کیا اور نہ ہی اسٹیبلشمنٹ کبھی ان سے ناراض ہوئی ۔ انہوں نے بھی سینیٹ میں ہونے والی بحث میں حصہ لیا اور اپنے اسی کمال کا مظاہرہ کرتے ہوئے یہ دلیل دی کہ اس وقت فوج کی مقبولیت میں اضافے کی وجہ یہ ہے کہ وہ دہشت گردوں کے خلاف اگلے محاذوں پر لڑ رہی ہے ۔ جمہوریت کو کوئی خطرہ نہیں ہے لیکن حکومت کو اچھی حکمرانی پر توجہ دینی چاہئے ۔ سینیٹر مشاہد حسین سید کے حکومت کے لیے اس مشورے میں ہی خدشہ موجود ہے ۔ پیپلز پارٹی کے سینیٹر سعید غنی چونکہ ’’ کیریئر انٹلیکچوئل اور سیاست دان ‘‘ نہیں ہیں ۔ وہ سڑکوں پر مار کھانے والے اور جیلیں کاٹنے والے جمہوری کارکن ہیں ۔ لہٰذا انہوں نے کسی لگی لپٹی کے بغیر یہ بات کہہ دی کہ اگر ملک میں بری جمہوریت بھی ہو ، تب بھی کسی ادارے کا اقتدار پر قبضہ کرنے کا کوئی جواز نہیں ہے ۔ عالمی یوم جمہوریت کے موقع پر پاکستان کے ایوان وفاق کے ارکان بہت حد تک مایوس دکھائی دیئے ۔
15 ستمبر کی مناسبت سے پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری نے جو بیان جاری کیا ، وہ بھی خدشات اور انتباہ کے سواکچھ نہیں ہے ۔ آصف علی زرداری کا کہنا یہ ہے کہ جمہوریت دشمن اپنے طریقے بدل رہے ہیں ۔ شدت پسندی اور کرپشن کے خلاف جنگ قابل تعریف ہے مگر کسی کو آئینی حدود پار نہیں کرنی چاہئیں دوسرے اداروں میں مداخلت جمہوریت کے لیے خطرناک ہے ۔ اس بیان میں بین السطور خدشات اور انتباہ موجود ہے ۔ یہ اتفاق کی بات ہے کہ 15 ستمبر کو ہی وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف نے اسلام آباد میں کسان کنونشن سے خطاب کرتے ہوئے جو بات کہہ دی ، اس سے جمہوریت کے مستقبل کے بارے میں خدشات کے ساتھ ساتھ بے یقینی میں اضافہ ہو گیا ۔ وزیر اعظم نے کہا ہے کہ ’’ کچھ مفاد پرست لوگ مجھے ہٹا کر خود اقتدار میں آنا چاہتے ہیں ۔ ‘‘ اس طرح 15 ستمبر کو ہم نے خوشی ، امید اور افتخار کے ساتھ عالمی یوم جمہوریت نہیں منایا ۔ کیا ہمارا یہی مقدر ہے ؟
اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے 2007ء میں ایک قرار داد منظور کی تھی ، جس میں 15ستمبر کو عالمی یوم جمہوریت قرار دیا گیا لیکن اس سے پہلے 1997ء میں بین الپارلیمانی یونین ( آئی پی یو ) نے جمہوریت پر اپنا عالمگیر اعلامیہ منظور کیا تھا ، جس میں دنیا بھر کی پارلیمنٹس کو کہا گیا تھا کہ وہ 15 ستمبر کو عالمی یوم جمہوریت کے طور پر منائیں ۔ اس سے بھی پہلے ایشیاء کے کسی بھی ملک کی پہلی خاتون صدر فلپائن کی کورا زون اکینو ( Corazon Aquino ) نے منیلا میں نئی اور بحال شدہ جمہوریتوں کی بین الاقوامی کانفرنس منعقد کی تھی ، جس میں یہ فیصلہ کیا گیا تھا کہ عالمی سطح پر یوم جمہوریت منایا جائے ۔ کورا زون اکینو ایک گھریلو خاتون تھیں ، جو اپنے شوہر سینیٹر بینائینو اکینو جونیئر ( Benigno Aquino, Jr. ) کو 1983ء میں اس وقت محترمہ بے نظیر بھٹو کی طرح قتل کر دیا گیا تھا ، جب وہ فلپائن کے آمر مارکوس کی آمریت کے خاتمے اور جمہوریت کی بحالی کے لیے طویل جلا وطنی کے بعد امریکا سے وطن واپس آئے تھے ۔ کورا زون اکینو نے اس حادثے کے بعد جمہوری تحریک کی قیادت کی اور 1986ء میں یہ تحریک مارکوس کی 20 سالہ آمریت کے خاتمے پر منتج ہوئی ۔ اسے تاریخ میں ’’ پر امن عوامی طاقت انقلاب ‘‘ کا نام دیا جاتا ہے ۔ 1983ء سے 1986ء تک کا وہی عرصہ ہے ، جب پاکستان میںبھی جمہوریت کی بحالی کے لیے ایک ایسی عظیم الشان تحریک چلی ، جس پر اس خطے کی تاریخ ہمیشہ فخر کرتی رہے گی ۔ اسے ’’ تحریک بحالی جمہوریت ‘‘ ( ایم آر ڈی ) سے موسوم کیا جاتا ہے ۔ اس تحریک میں لوگوں نے بے مثال قربانیاں دیں ۔ 4 ستمبر 1983 ء کو سانحہ خیرپور ناتھن شاہ اور 17 اکتوبر 1984 ء کو سانحہ ٹھوڑی پھاٹک رونما ہوا ۔ ان کے علاوہ دیگر بھی کئی سانحات رونما ہوئے ، جن میں جمہوری کارکنوں کا قتل عام ہوا ۔ پاکستان بھر کی جیلیں جمہوری کارکنوں سے بھر گئی تھیں ۔ فلپائن کی جمہوری جدوجہد 1986 ء میں فتح یاب ہوئی جبکہ پاکستان میں اس طرح کی فتح یابی کے لیے یہ جدوجہد ابھی تک جاری ہے ۔ خیرپور ناتھن شاہ اور ٹھوڑی پھاٹک کے سانحات اب روزانہ رونما ہو رہے ہیں ۔ آصف علی زرداری کا یہ کہنا کہ جمہوریت دشمن طریقے تبدیل کر رہے ہیں ، پہلی مرتبہ ایسا نہیں ہو رہا ۔ ایم آر ڈی کی تحریک کے بعد دہشت گردی نے ریاستی طاقت کی جگہ لی ۔ یہ طریقے کی تبدیلی تھی ۔ پاکستان میں دہشت گردی کی وجہ سے گذشتہ 30 سالوں کے دوران جو قتل عام ہوا ، وہ ٹھوڑی پھاٹک اور خیرپور ناتھن شاہ کا تسلسل ہے ۔ ایسی خوف ناک جنگ دنیا کی کسی بھی جمہوریت پسند قوم پر مسلط نہیں کی گئی ہے ۔دنیا کی کوئی قوم ایسی صورت حال سے دوچار نہیں ہو گی کہ دہشت گردی بھی جمہوریت کے لیے خطرہ ہو اور دہشت گردی کے خلاف جنگ بھی جمہوریت کے لیے خطرہ بن جائے ۔نئے نئے طریقے سامنے آ رہے ہیں ۔ فلپائن میں پرامن عوامی طاقت انقلاب کی کامیابی کے چند اہم اسباب ہیں ۔ جمہوری تحریک میں فلپائن کی فوج کے ایک بڑے حصے نے عوام کا ساتھ دیا تھا ۔ فلپائن کا چرچ بھی عوام کے ساتھ کھڑا ہو گیا تھا ۔ فلپائن کے سیاست دانوں نے پر امن انقلاب کے بعد سب سے پہلے اداروں سے کرپشن کا خاتمہ کیا اور خود احتسابی کو فروغ دیا ۔ انقلاب کے بعد فوج سمیت تمام ریاستی اداروں کی تنظیم نو کی گئی۔ پاکستان میں یہ سب کچھ نہیں ہوا۔ اس لیے فلپائن کے لوگ عالمی یوم جمہوریت پر جشن مناتے ہیں اور ہم افسردگی، مایوسی اور بے یقینی میں یہ دن گذارتے ہیں۔ پاکستان کے عوام نے جمہوریت کی خاطر لاکھوں لاشیں اٹھائی ہیں۔ تاریخ میں ایسی قربانیوں کی مثال نہیں ملتی۔ اس کے باوجود ہمیں پتہ ہی نہیں ہے کہ 15 ستمبر 2016 ء ہم کن حالات میں منائیں گے۔ سیاست دان قصور وار ہیں لیکن پاکستان کے عوام تو قصور وار نہیں ہیں۔
تازہ ترین