• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
اس انتہائی خستہ اور لذیذ خبر کا تعلق شارجہ سے ہے۔ ایک خلیجی اخبار کے مطابق شارجہ میں شادی کے کچھ عرصہ بعد شوہر نے بیوی کو میک اپ کے بغیر دیکھ کر طلاق دے دی۔ شوہر نے بیوی پر دھوکے کا الزام لگاتے ہوئے کہا کہ اس کی اہلیہ نے کاسمیٹک سرجری کے ساتھ ساتھ جو لمبی گھنی پلکیں لگائی ہوئی تھیں وہ بھی نقلی تھیں۔ اس دھوکے اور جعلسازی کی تفصیلات میں جائیں تو فحاشی کا الزام بھی لگ سکتا ہے کیونکہ’’طبی مداخلت‘‘ کے نتیجہ میں نہ صرف چہرہ بلکہ جسم بھی تبدیل ہوسکتا ہے۔ ڈھیلی جلد کے ساتھ ساتھ دیگر بہت سے جسمانی پرزے بھی اچھی طرح کسے جاسکتے ہیں۔مجھے یہ خبر پڑھ کر اپنی جمہوریت یاد آئی اور ساتھ ہی یہ خیال بھی گزرا کہ جس دن میرے ہم وطنوں نے بغیر میک اپ کے اس کا اصلی چہرہ دیکھ لیا،وہ نہ صرف’’کھڑے کھلوتے‘‘ تین طلاقیں دے ماریں گے بلکہ بہت ممکن ہے، اس کی ہڈی پسلی بھی ایک کردیں کیونکہ ہماری یہ جمہوریت جو دیکھنے میں مارلن منرو یا مدھوبالا لگتی ہے، درحقیقت کسی پچھل پیری سے بھی زیادہ بدصورت اور ڈرائونی ہے جس کی تاز ہ ترین مثالیں ن لیگ اور ق لیگ کے وہ انٹرا پارٹی الیکشن ہیں جن کے نتیجہ میں ان’’سیاسی صنعتوں ‘‘ کے مالکان بلا مقابلہ واپس آگئے ہیں جسے جمہوری زبان میں منتخب ہونا کہا جاتا ہے۔صدقے جائوں ایسی جمہوریت کے جس میں پیپلز پارٹی کے اندر جعلی اصلی بھٹوئوں اور ن لیگ میں شریفوں کے علاوہ اور کوئی سیاسی مصلی اس قابل ہی نہیں پایا جاتا کہ قیادت سنبھال سکے۔ فکری طور پر فیشن زدہ تو اس پر واہ واہ کرسکتے ہیں، مجھ جیسے کودن کو، یہ ننگی نوٹنکی ہضم نہیں ہوتی سو میں ہمیشہ اس پرانی کہانی والے بچے کی طرح یہ کہتا رہوں گا کہ........’’بادشاہ ننگا ہے‘‘۔ درباری بھلے بے لباس بادشاہ کے لباس کی تعریفیں کرتے رہیں، ’’ہم پرورش لوح و قلم کرتے رہیں گے‘‘۔باپ کے بعد بیٹا اور اس کے بعد پوتا انسانیت کی تذلیل، قوم کی توہین، ملوکیت کی یادگار و پیداوار، جینوئن بیعت کی نفی ہے اور اس کے پیچھے ا زلی ا بدی دانش ہے کیونکہ اقتدار کا کسی مخصوص خاندان میں منجمد یا محصور ہوجانا ایسے ہی ہے جیسے رکے پانی کا جوہڑ جسے چھپڑ کہتے ہیں، گندگی، غلاظت، بدبو کا گڑھ ا ور’’ڈینگی‘‘ کا گھر ہوتا ہے جس سے فصلیں بھی زہریلی ہوجاتی ہیں اور انسانی نسلیں بھی جبکہ چلتا پانی پاک ہوتا ہے، انسانوں، حیوانوں اور فصلوں کے لئے آب حیات ہوتا ہے، اسی لئے مغربی جمہوریتوں میں فورڈ ہی نہیں ریگن اور اوبامے بھی آتے رہتے ہیں، مخصوص لوگ’’مامے‘‘ بن کر نہیں بیٹھ جاتے۔چند مخصوص خاندانوں کی اجارہ داری کا مطلب ہی یہ ہے کہ سسٹم نے 99فیصد جمہو ر یعنی عوام کو اقتدار کے کھیل سے ہی آئوٹ کردیا جس کے بھیانک ترین نتائج مختلف قسم کی ذلت و محکومیت کی شکل میں بھگتنے پڑتے ہیں اور ’’ساورنٹی‘‘ نام کی شے صرف آئینوں اور تقریروں تک ہی باقی رہ جاتی ہے۔ کیا کبھی آپ نے زرعی ایکٹویٹی پر غور کیا جس کی ابتداء لینڈ پریپریشن یعنی زمین تیار کرنے سے ہوتی ہے اور زمین کی تیاری کا مطلب یہ ہے کہ بیج ڈالنے سے پہلے مٹی کو اچھی طرح الٹایا پلٹایا جائے۔ نیچے کی مٹی اوپر اور اوپر کی نیچے کی جاتی رہے، ورنہ زمین بتدریج بانجھ اور بنجر ہوتی چلی جاتی ہے۔ ہم جیسے موروثیت زدہ معاشروں کے ساتھ یہی کچھ ہوتا ہے جس کے نتیجہ میں وہ بانجھ اور بنجر ہوتے چلے جاتے ہیں یا کم از کم ان کی’’فی ایکڑ پیداوار‘‘ اتنی نہیں ہوتی جتنی ہوسکتی ہے۔ اک اور فیکٹر بھی بہت دلچسپ ہے کہ مسلسل ایک ہی فصل کاشت کرتے چلے جانے سے بھی پیداوار بری طرح متاثر ہوتی ہے، اس لئے اقتدار کو مخصوص طبقوں تک محدود کرنے سے گورننس کا معیار گھٹیا سے گھٹیا تر ہوتا چلا جاتا ہے جو ہمارے ہاں عرصہ دراز سے ہورہا ہے  اور ہم نے اسے آئینی اور قانونی تحفظ بھی دے رکھا ہے۔ہر شعبہ حیات میں ہمارے ہر طبقہ کے بچوں نے کمالات دکھائے ہیں لیکن ’’قانون سازی‘‘ کے دروازے ان پر بند ہیں اور جن کی اولادوں نے اقتدار کے ٹھیکے سنبھال رکھے ہیں ان میں سے بیشتر تو شاید نہ فوج میں کمیشن کے لئے کوالیفائی کرسکیں نہ ہی ’’پی سی ایس‘‘ کا  معمولی سا امتحان پاس کرسکیں لیکن اک واردات کے تحت اسمبلیوں میں یوں پہنچ جاتے ہیں جیسے کوئی’’ماسی کے ویہڑے‘‘ میں داخل ہوتا ہے۔اللہ کو حاضر ناظر جان کر کہیں کہ کیا’’جمہوریت‘‘ پر قابض خاندانوں میں سے کوئی اگر اپنا’’ری ٹارڈڈ‘‘ بچہ بھی’’منتخب ‘‘ کرانا چاہے تو کیا یہ’’غیور اور باشعور‘‘ عوام اس کا رستہ روک سکتے ہیں؟مجھے اسی’’جمہوریت‘‘ سے نفرت ہے جس کی اصل شکل، حقیقی چہرہ عوام دیکھ لیں تو کھڑے کھلوتے اسے طلاق دے دیں لیکن.......دیکھنے کے لئے تو آنکھوں کی ضرورت ہوتی ہے۔


.
تازہ ترین