• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
دنیا نہایت تیزرفتاری سے تبدیل ہورہی ہے اور ہر ہفتے نئی ایجادات وجود میں آرہی ہیں جن میں سے بیشتر ہماری زندگیوں پر اثر انداز ہو رہی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ترقی یافتہ ممالک تحقیق کی اہمیت کو سمجھتے ہوئے سائنس ، ٹیکنالوجی اور جدت طرازی میں سرمایہ کاری کر رہے ہیں اور امیر اقوام مزید امیر ہو رہی ہیں۔
آئیے سائنس ، ٹیکنالوجی اور جدت طرازی کے شعبے میںجاری چندجدید پیشرفتوںکا سر سری جائزہ لیتے ہیں اور اپنا احتساب کرتے ہیں کہ ہم اس وقت کہاں کھڑے ہیں اور دنیا کہاں جارہی ہے۔ جدید شعبوں میں تیزی سے ترقی کی جانب بڑھتا ہوا ایک شعبہ خود کار موٹر گاڑیوںکاہے۔خود کار گاڑیوں کے نمونے تیار ہو چکے ہیں اور تجارتی بنیادوں پر دستیاب ہیں۔ اگلے پانچ سے دس سالوں میں ڈرائیوروں کے بغیر گاڑیاں ، بسیں اور ٹرک ہمارے زیر استعمال ہوں گی۔ یہ ٹیکنالوجی مکمل طور پرتیار ہے بس حفاظتی اقدامات ، بیمہ اور ٹریفک قوانین پر نظر ثانی کرنے کی ضرورت ہے حتیٰ کہ بہت سے صنعت کاروں نے بغیر ڈرائیور کی گاڑیوں کو ٹیکسی کے طور پر استعمال کرنے کے طریقہ کار پر بھی غور کرنا شروع کر دیا ہے۔ ایک جرمن کمپنی نے ایک ایسی گاڑی بنائی ہے جس کا پورا سامنے کا ڈیش بورڈ فوراً تبدیل ہو کر ایک دفتر کی طرح بن جاتا ہے اور ایک ایسی (ultrasonic) ٹیکنالوجی ایجا دکی ہے جو کہ پارکنگ کیلئے موجود خالی جگہ کا اندازہ لگا سکتی ہے اور گاڑی خود پارک ہو جاتی ہے۔
اسی طرح طب ّ کے شعبے میں بھی ایسے دلچسپ آلات دستیاب ہیں جو آپ کی صحت کی نگرانی کرسکتے ہیں اور جیسے ہی کوئی غیر معمولی صورتحال کی ابتداء ہوتی ہے اسکی فوراًرپورٹ دے دیتے ہیں۔ جیسے جیسے بڑھتی ہوئی عمر کے لوگوں کی آبادی میں اضافہ ہوگا ویسے ویسے اس قسم کے آلات کے استعمال میں بھی اضافہ ہوتا جائے گا۔ اسکے علاوہ ان آلات میں ایسی مصنوعات شامل ہونگی جن میں بائیو میٹرک معلومات فراہم کرنے کی وسیع فہرست ہوگی جیسے گلوکوز کی سطح جانچنے کیلئے (’’iHealth‘‘)، جسمانی درجہء حرارت (بخار کی کیفیت) معلوم کرنے کیلئے تھرمامیٹر، خواب آشوبی کیلئے ("Sleep Number ")، الکحل کی سطح کیلئے ("Alcohoot") وزن معلوم کرنے کیلئے "Withingsخون فشار جانچنے کیلئے ("QardioArm" - Qardio) ، جزباتی حالت معلوم کرنے کے لئے ("Zensorium")، درد کو روکنے کے لئے ("Quell") وغیرہ شامل ہیں۔ دریں اثناء جلد ہی ایسے آلات دستیاب ہونگے جو مندرجہ بالا تمام کیفیات جا نچنے والے آلات کا مجموعہ ہونگے جو کہ آپ کی صحت سے متعلق تمام زاویوں سے جانچ کریں گے اور دوائیاں بھی تجویز کریں گے تاکہ مرض بڑھنے سے پہلے اسکا علاج ہو جائے۔
ایک اور جدید ٹیکنالوجیــ 3Dچھپائی کے بے شمار استعمال’’ انفجار عظیم تہلکے‘‘ سے کم نہیں ہے ۔ ابتدائی طور پر اس ٹیکنالوجی کو صرف کثیر سالمی موادکے لئے استعمال کیا گیا لیکن حال ہی میں اس کا استعمال دیگر اجزاء مثلاً لوہے، پیتل ، چینی کے برتن، اور چونا پتھر کے ساتھ کامیابی سے کیا گیا ہے۔ پہلا مکمل دھات سے تیار کردہ جیٹ طیار ے کا انجن اسی ٹیکنالوجی کو استعمال کرتے ہوئے گزشتہ سال آسٹریلیا کی جامعہ موناش کے سائنسدانوں نے 3Dچھپائی کے ذریعے تیار کیا تھا۔ ایک معروف کمپنی اس 3Dچھپائی کے ذریعے چاکلیٹ کو مختلف ڈیزائینوں میں بنا رہی ہے ۔ ایک قلم جسے"3D Doodler" کا نام دیا گیاہے اس میں سے پلاسٹک کا باریک تار نکلتا ہے جو کہ ٹھوس اجزاء کو 3D چھپائی کے عمل کےذریعے بنانے میں مدد کرتا ہے ۔ 3Dچھپائی کے ذریعے انسانی کولہے کی ہڈی، جبڑے کی ہڈی ھی بنائی گئی ہیں اور حال ہی میں انسانی گردوںاور جگر کے حصوںکو بھی 3D چھپائی کے ذریعے بنایا گیا ہے۔
ایک اور جدیداورتیز ترین ٹیکنالوجی(Internet of Things" (IoT)) ہے۔ جو ہمارے ارد گرد کی تمام چیزوں سے ہمار ا تعلق بناتی ہے۔ مثلاً ایسے چھوٹے آلات ہماری روز مرہ کی استعمال کی چیزوں کے اندر نصب ہوتے ہیں جنہیں ہم اسمارٹآلات کہتے ہیں۔ اب نابینا افراد اپنی زبان کے ذریعے دیکھ سکتے ہیں ۔ ایک امریکی کمپنی نے ایک ایسا کیمرہ ایجاد کیا ہے جو کہ نابینا افرادکی آنکھوں پر ایک عینک میں نصب ہوتا ہے اور وہ لالی پاپ جیسے آلے کےذریعے منہ سے دماغ تک تصاویر بھیجتا ہے اس سے ایک حد تک بینائی واپس آجاتی ہے۔ ایک فوری ترجمہ کرنےکا آلہ بھی تیار کر لیا گیا ہے جو کہ زبان سے ادا ہوتے ہی فقرے کے ساتھ ساتھ ترجمہ کر تا جاتا ہے یعنی اگر کوئی انگریزی میں کسی چینی سے بات کررہاہو تو وہ چینی شخص انگریزی کی بجائے چینی زبان ہی میں سن رہا ہوگا اور یہی اگلے فرد کے ساتھ ہوگا کہ وہ انگریزی میں اس چینی کا جواب سن رہا ہوگا ۔
ایک کمپنی نے ایک ایسا گملہ دریافت کیا ہے جس میں درجہ حرارت ، نمی، سورج کی روشنی، اور کھاد کی سطح کی پیمائش کے سینسر لگے ہوئے ہیں۔ ان میں کسی بھی چیز کی مقدار میں کمی بیشی ہو گی تو فوراً آپ کے اسمارٹ فون پر اطلاع آجائے گی۔ اسی طرح مربوط اسمارٹ گھر بھی بنائے گئے ہیں جو کہ خود کار طریقے سے روشنی، حرارت ، فرج وغیرہ کی کارکردگی کو کنٹرول کرتے ہیں۔ حتیٰ کہ آپ کیلئے تازہ اور گرم کھانا تیار کرتے ہیں تاکہ آپ گرم گرم کھانا نوش فرمائیں۔ امریکی دفائی تحقیقی فنڈنگ ایجنسی نے ایسی جاسوس مکھی ایجادکی ہے جو میلوں دور بیٹھے آرمی چیف یا وزیر اعظم کی گفتگو کو براہ راست امریکی جاسوس کو فراہم کر سکتی ہے۔ اب سوچ کے ذریعے چیزوں کھسکایا یا ہلایا جاسکتا ہے ۔ ایک دماغ پڑھنے والی ٹوپی کے ذریعے سوچ کے احکامات کمپیوٹر سے منسلک ہوتے ہیں جن کے ذریعے گاڑی یا وہیل چیئر کو چلایا جا سکتا ہے۔ برقی ملبوسات بھی اب تجارتی بنیادوں پر دستیاب ہیں جن میں بے شمار رنگ و ڈیزائن نصب ہیں محض ایک بٹن دبانے سے آپ کے لباس کا رنگ اور ڈیزائن فوراًتبدیل ہو جاتا ہے ۔ اسکے علاوہ ایسے کپڑے بھی ایجاد ہو گئے ہیں جن کا رنگ آہستہ آہستہ چند گھنٹوں میں تبدیل ہوتا ہے۔ایسے جدید آلات بھی تیار کرلئے گئے ہیں جن میں روبوٹ نصب ہوتے ہیں ان میں جراحی کے آلات بھی شامل ہیں تاکہ جراحی کے عمل کو آسان او ر محفوظ بنایا جا سکے۔ سپاہیوں میں روبوٹ کے مصنوعی اعضاء لگانے سے انکی صلاحیتوں میں ڈرامائی تبدیلی آجاتی ہے اور ان کی جسمانی صلاحیتوں میں اضافہ ہوجاتا ہے جس کےذریعے وہ بھاری وزن آسانی سے اٹھا سکتے ہیں، دوڑنے اور چھلانگ لگانے کیلئے ان میں حیرت انگیز صلاحیت پیدا ہوجاتی ہے۔
ایک اور اہم شعبہ جو کہ ہماری زندگیوں پر بہت تیزی سے اثر انداز ہوگا وہ شعبہ ہے اگلی نسل کی جینیات کا علم۔ جانوروں اور پودوں کے جینیات کی جلد اور سستی ترتیب کےذریعے ترمیم کردہ پودے اور جانور بنائے جاسکتے ہیں۔ جگمگانے والے پھول اسی ٹیکنالوجی کےذریعے تخلیق ہو ئے ہیں جن میں جگنوؤں کے چمکنے والے جینیات کو پھولوں میں پیوست کیا گیا جس کے نتیجے میں رات کے اندھیرے میں چمکنے والے پھول تشکیل کئے گئے ۔ سماجی و اقتصادی ترقی کا دارومدار تحقیق و ترقی پر سرمایہ کاری کرنے پر منحصر ہے۔ مثال کے طور پر ایک موبائل فون بنانے والی کمپنی کا سالانہ تحقیق و ترقی کا بجٹ 14 ارب ڈالر ہے جبکہ اسکے مقابلے میں ایک کمپنی کا بجٹ صرف 8 ارب ڈالر سالانہ ہے۔ یہی اس موبائل فون بنانے والی کمپنی کی ترقی کی سب سے بڑی وجہ ہے۔ یہی چین کے عروج کا راز بھی ہے۔چین ہر سال ہزاروں طلبہ کو اعلیٰ تعلیم کے لئے دنیا کی اعلی جامعات میںبھیجتا ہے جو واپس آکر اپنے ملک میں عمدہ کارکردگی کے مراکز قائم کرتے ہیں۔ گزشتہ سال چین نے 523,700 طلباء کو جدید تعلیم و تربیت کیلئے مغربی ممالک بھیجا اور 409,100طلباء2015ء میںاپنی تعلیم مکمل کرکے وطن واپس لوٹے ہیں۔ سنگا پور (جس کی آبادی کراچی کی آبادی کی ایک چوتھائی ہے اور کوئی قدرتی وسائل بھی نہیں ہیں) کے عروج کا راز ایسی جامعات کا قیام ہے جو کہ اعلی تکنیکی صنعتوں کے فروغ کیلئے قائم کی گئیں۔ سنگاپور کی برآمدات 518ارب ڈالر سالانہ ہیں جبکہ پاکستان کی برآمدات صرف 23ارب ڈالر سالانہ پر ہی منجمد ہیں۔ان مندرجہ بالا مثالوں کی روشنی میں ہمیں اندازہ کرنا ہے کہ ہم اس وقت اس علمی دور میں کس سطح پر کھڑے ہیں۔
بے شک سڑکیں (Motorways)اور ذرائع نقل و حمل بھی ملک کے لئے اہم ہیں لیکن اب ہمیں ان سے آگے سوچنا ہے۔ آج کے دور میں ترقی کے چار اہم ستون ہیں ۱۔ علم ۲۔ سائنس ٹیکنالوجی اور جدت طرازی ۳۔ انصاف تک فوری رسائی ۴۔ ایک بصیرت انگیز، ایماندار اور تکنیکی ماہرین کی حامل حکومت جو کہ سماجی و اقتصادی ترقی کے لئے علم کی اہمیت کو سمجھتی ہو۔ سماجی و اقتصادی اعتبار سے تیز ی سے ترقی کرنے کے لئے حکومت میںتکنیکی ماہر وزراء اور سیکریٹریوں کی ضرورت ہے اور ہر وزارت کو اس شعبے سے متعلق بہترین مفکرین (think tanks)کی حمایت حاصل ہونی چاہئے کیونکہ علم پر مبنی معیشت (knowledge economy) کے مجموعوں کو قائم کرنے کے لئے ہمیں اپنی نوجوان نسل کی صلاحیتوں کو تعلیم و تحقیق کے ذریعے بھر پور طریقے سے اجاگر کرنا ہوگا کیونکہ دنیا میں بہترین پیشہ ورانہ صلاحیتوں کی مالک افرادی قوت ہی اس ملک کی حقیقی دولت ہے۔


.
تازہ ترین