• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
گزشتہ جمعے کالم کا ناغہ کمر درد کی وجہ سے ہوا اور اِس وقت احوالِ حاضرہ پر لکھنے بیٹھا ہوں، تو پورا جسم اور سارا ذہن مسائل کی تمازت سے جل رہا ہے اور پتہ نہیں چل رہا کہ درد کہاں کہاں ہے۔ کوئی چالیس بیالیس برس پہلے کا ذکر ہے کہ میں اپنے محترم دوست جناب مصطفیٰ صادق کی معیت میں کوئٹہ کا سفر ٹرین کے ذریعے کر رہا تھا، میری طبیعت اُس وقت خاصی خراب تھی اور لمبی مسافت کے لیے دل آمادہ نہیں تھا، مگر میں اُن کے اصرار کے آگے انکار نہ کر سکا ۔ اُن کا بھٹو صاحب سے اعتماد کا رشتہ قائم تھا اور ملک میں جب کوئی غیر معمولی صورتِ حال پیدا ہوتی، تو وہ اُن سے ملاقات کا اہتمام کرتے اور مجھے اپنے ساتھ لے کر جاتے۔ راستے میں اُبھرتے ہوئے بحران کے جملہ پہلو زیرِبحث آتے اور ممکنہ آپشنز کا احاطہ بھی کیا جاتا۔ یہ غالباً اگست کا مہینہ تھا اور قادیانیوں کو غیر مسلم اقلیت قرار دینے کی بحث قومی اسمبلی میں جاری تھی جو طویل تر ہوتی جا رہی تھی۔ اِس طوالت کے باعث یہ تاثر پیدا ہو رہا تھا کہ حکومت ایک واضح فیصلے تک پہنچنے میں لیت و لعل سے کام لے رہی ہے۔ اِن دنوں ایک ہفتے کے دورے پر وزیراعظم بھٹو کوئٹہ آئے ہوئے تھے اور مصطفیٰ صادق صاحب اُن سے علیحدگی میں ملاقات کر کے معلوم کرنا چاہتے تھے کہ قادیانیوں کو اقلیت قرار دینے کا اعلان کب کیا جائے گا۔ انہوں نے دو تین ہفتے پہلے سات ستمبر کی تاریخ دی تھی اور اعلان اِسی تاریخ کو ہوا تھا۔ اِس پانچ روزہ قیام کی تاریخی اہمیت کے علاوہ میں جس امر کی نشان دہی کرنا چاہتا ہوں کہ مصطفیٰ صادق صاحب نے مجھ سے ایک روز پوچھا کہ درد کہاں ہو رہا ہے؟ میں نے کراہتے ہوئے جواب دیا کہ یہی تو پتہ نہیں چل رہا کہ درد کہاں ہے۔ وہ میرے جواب پر قہقہہ لگا کر ہنسے تھے اور مجھے بھی اپنے جواب پر خاصی حیرت ہوئی تھی، مگر آج یہ محسوس کر رہا ہوں کہ جب درد بہت گہرا ہو اور انگ انگ میں اُتر چکا ہو، تو اِسے کسی خاص مقام پر تلاش کرنا محال بلکہ ناممکن ہو جاتا ہے۔ مجھ پر آنے والے حوادث کے جو آثار آشکار ہو رہے ہیں، انہوں نے مجھے نیم جاں کر دیا ہے اور حضرتِ غالبؔ کا یہ شعر بار بار زبان پر آ رہا ہے ؎
رات دن گردش میں ہیں سات آسماں
ہو رہے گا کچھ نہ کچھ گھبرائیں کیا؟
میں نے اپنے آپ سے بار بار سوال کیا ہے کہ تم نے اپنی تحریروں اور اپنی گفتگو میں ہمیشہ اُمید کا پیغام دیا ہے اور قوم کو مایوسی اور پست حوصلگی سے نکالا ہے، تو اب خود یاسیت کا شکار کیوں ہو گئے ہو۔ شاید اِس لیے کہ ہم نے بے عقلی، نادانی یا عاقبت نااندیشی میں اپنے ہی خلاف اعلانِ جنگ کر دیا ہے۔ 6؍اکتوبر کی صبح ہمارے آزاد خیال اور نہایت سنجیدہ انگریزی روزنامے ’ڈان‘ میں ایک ایسی اعلیٰ سطحی اجلاس کی رُوداد شائع ہوئی جو قومی سلامتی کے ایشوز کا جائزہ لینے کے لیے اِن کیمرہ دو روز پہلے منعقد ہوئی تھی۔ اِس میں وزیراعظم نوازشریف، آرمی چیف جنرل راحیل شریف، وزیرداخلہ جناب نثار علی خاں، وزیر خزانہ جناب اسحاق ڈار، وزیر اعلیٰ پنجاب شہباز شریف، سیکرٹری خارجہ جناب اعزاز چوہدری اور ڈائریکٹر جنرل آئی ایس آئی لیفٹیننٹ جنرل رضوان اختر شامل تھے۔ انہوں نے یقینی طور پر پوری گہرائی کے ساتھ قومی سلامتی کی صورتِ حال کا تفصیلی جائزہ لیا ہو گا اور قومی حکمتِ عملی کے مطابق آئندہ کا لائحہ عمل ترتیب دیا ہو گا۔ موضوع کی حساسیت کے پیشِ نظر اِس اجلاس کی کارروائی صیغۂ راز میں رکھی گئی اور اِسی لیے کوئی پریس ریلیز جاری ہوئی نہ کسی اخبار نے اگلی صبح کوئی خبر شائع کی نہ کسی ٹی وی چینل نے اِس اہم اجلاس کی رُوداد بیان کی۔ تیسرے روز ڈان میں سیرل المیڈا کے نام سے پہلے صفحے پر بہت بڑی خبر شائع ہوئی جو کئی پہلوؤں سے ٹائم بم سے کم تباہ کن اور ہلاکت خیز نہیں تھی۔
ایک ایسے اجلاس کی رُوداد شائع کرنا جسے صیغۂ راز میں رکھنا مقصود تھا، اخلاقی اور صحافتی اعتبار سے کسی طور مناسب اور قابلِ فہم نہیں تھا۔ جناب المیڈا نے اپنی اسٹوری میں اِس امر کا ذکر کیا ہے کہ اُن سے کسی بھی شخص نے آن ریکارڈ گفتگو نہیں کی اور کوئی صاحب بھی اپنے نام سے کوئی بیان دینے کے لیے تیار نہیں تھے، تو انہیں آف دی ریکارڈ باتیں شائع کرنے سے یکسر اجتناب کرنا چاہئے تھا۔ پھر اِس اسٹوری میں پاکستان کے نہایت ذمہ دار صاحبانِ مناصب سے جو مکالمے اور مباحث منسوب کیے گئے، اُن کی بنیاد پر بھارت میں خوشی کے شادیانے بجائے گئے اور پاکستان کے خلاف ایک چارج شیٹ جاری کی گئی۔ عالمی ابلاغِ عامہ میں پاکستانی فوج کے امیج کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچا اور یہ تاثر پھیلا کہ سول حکومت کالعدم جہادی تنظیموں کا قلع قمع کرنا چاہتی ہے جبکہ عسکری طاقتیں اُن کی پشت پر کھڑی ہیں۔ اِس سنسنی خیز رپورٹ کی اشاعت کے باعث سول ملٹری تعلقات میں بہت بڑی دراڑ پڑتی نظر آرہی ہے اور پاکستان کی عظیم فوج پر ایک غصے کی کیفیت طاری ہے جو دہشت گردی اور بھارتی جارحیت کے سامنے ایک ناقابلِ تسخیر چٹان کی طرح کھڑی ہے اور داخلی امن و امان قائم کرنے میں لازوال قربانیاں دے رہی ہے۔ وزیراعظم ہاؤس نے اِس رپورٹ کی دوبار تردید جاری کی ہے، دفترِ خارجہ نے اِن مباحث اور پریزینٹیشن سے لاتعلقی کا اظہار کیا ہے جو سیکرٹری خارجہ سے منسوب کی گئی ہیں۔ وزیراعلیٰ پنجاب کے ترجمان نے بھی اخبار میں شائع شدہ رپورٹ کی تردید کی ہے۔ کورکمانڈر کانفرنس کے بعد جو پریس ریلیز جاری ہوئی، اِس میں سے سیرل المیڈا کی اسٹوری کو من گھڑت قرار دیا ہے اور جس شخص نے فتنہ پرور کہانی فیڈ کی ہے، اِس کا سراغ لگانے کے لیے آرمی چیف نے وزیراعظم سے دوبار ملاقات کی ہے اور اُن تک فوج کا اضطراب پہنچا دیا ہے۔ ہمیں تاریخ کے مطالعے سے اندازہ ہوتا ہے کہ بعض اوقات غیر محتاط رپورٹنگ بڑے بڑے حادثات کو جنم دیتی ہے، اِس لیے جناب نوازشریف کو خبر فیڈ کرنے والوں کا سراغ لگانے اور اُنہیں انصاف کے کٹہرے میں لانے کے لیے ترجیحی بنیادوں پر سرکاری مشینری کو بروئے کار لانا چاہئے۔ اِس معاملے میں جس قدر تاخیر ہو گی، اِس قدر ناگہانی کے امکانات بڑھتے جائیں گے۔ ہم ایک انتہائی ناخوشگوار صورتِ حال کی دلدل میں اِس وقت دھنستے جا رہے ہیں جس وقت بھارت کی حکمران جماعت، میڈیا اور سفارت کار پاکستان کو دنیا میں تنہا کر دینے اور عالمی پابندیاں لگوانے کی سرتوڑ کوششیں کر رہے ہیں۔
بھارت اپنے ہمسائیوں سے تعاون کے بجائے اُن پر اپنی بالادستی قائم کرنے کی پالیسی پر بگٹٹ دوڑے چلا جا رہا ہے، اِس کے نتائج بھی ہولناک دکھائی دے رہے ہیں۔ نریندر مودی کی سرکار نے مقبوضہ کشمیر میں ایک قیامت برپا کر رکھی ہے۔ پیلٹ گنز سے سینکڑوں افراد بینائی سے محروم کر دیے گئے ہیں اور اتنے ہی جامِ شہادت نوش کر چکے ہیں۔ چھروں سے ہزاروں جسم چھلنی کر دیے گئے ہیں، مگر آزادی کا جذبہ فزوں تر ہوتا جا رہا ہے۔ بین الاقوامی ذرائع ابلاغ مظلوم کشمیریوں کی دردناک اور جسم کے رونگٹے کھڑے کر دینے والی کہانیاں شائع کر رہے ہیں۔ بھارت کے اندر علیحدگی کی تحریکیں زور پکڑتی جا رہی ہیں۔ مسلمان، سکھ اور دلت برہمن راج کے مظالم کے خلاف اکٹھے ہو رہے اور معاشرے سے کٹتے جا رہے ہیں۔ وزیراعظم نریندر مودی نے پاکستان کو تنہا کرنے کے لیے پانچ ممالک (برکس) کے سربراہوں کا اجلاس گوا میں بلایا، مگر چین اور روس نے بھارتی عزائم کی ہمنوائی سے انکار کر دیا اور اعلامیے میں انسانی حقوق کے تحفظ اور دہشت گردی کے بنیادی اسباب کے الفاظ بھی شامل کر دیے۔ بھارت نے اپنے خلاف ہی جنگ شروع کر دی ہے اور وہ آتش فشاں کے دہانے پر کھڑا ہے اور کسی وقت بھی کوئی حادثہ رونما ہو سکتا ہے۔ یہ دھماکہ خیز صورتِ حال پورے خطے کے لیے بے حد خطرناک ثابت ہو سکتی ہے، اِس لیے دونوں ملکوں کی سیاسی اور عسکری قیادتوں کو غیر معمولی دانش مندی اور بالغ نظری سے کام لینا ہو گا اور عالمی برادری کو تنازع کشمیر کے پُرامن تصفیے کے لیے مثبت کردار ادا کرنا ہو گا۔ پاکستان کے سیاسی قائدین اور عوام کو اِس حقیقت کا پورا اِدراک ہونا چاہئے کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے فراہم کردہ نعمتوں اور امکانات کا زیادہ سے زیادہ فائدہ اُٹھانا اور سجدۂ شکر بجا لانا چاہئے۔ چین پاک اقتصادی راہداری کا عظیم الشان منصوبہ اِس خطے کی تقدیر بدل سکتا اور پاکستان کو نئی عظمتوں سے ہمکنار کر سکتا ہے۔ اِسی طرح پاکستان کا متفقہ دستور جو اسلامی اور جمہوری اعتبار سے دنیا کے بہترین دساتیر میں شامل ہے، وہ قوم کو متحد اور معاشرے کو مربوط رکھ سکتا ہے، اِس کی حفاظت ہم سب پر لازم ہے۔ دستوری نظام کو زیادہ سے زیادہ مستحکم بنانے سے ہم اپنے وطنِ عزیز کو اقوامِ عالم میں بلند مقام دلوا سکتے ہیں۔


.
تازہ ترین