• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
شیخ رشید احمد نے مخالف سیاسی جماعتوں کو’’جگتو فرنٹ‘‘ قرار دیا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ شیخ رشید احمد سب سے زیادہ دیکھے اور سنے جانے والے سیاستدان ہیں۔ جیسے جیسے اسلام آباد کا سیاسی موسم گرم ہوتا جارہا ہے شیخ صاحب بھی سرگرم ہوتے جارہے ہیں۔ صحافتی تجزیہ کاروں میں سے حسن نثار صاحب بہت پاپولر ہیں۔ خوبصورت لفظ لکھنے والا سیدھی باتیں کرتا ہے۔ گزشتہ شب ایک ٹی وی پروگرام میں حسن نثار(لائلپوری) نے دیسی جمہوریت کے خوب لتے لئے حالانکہ اس روز لاہور میں میاں شہباز شریف بلا مقابلہ اپنی پارٹی کے صوبائی صدر منتخب ہوئے تھے۔ اس سے ایک روز پہلے بڑے میاں صاحب نے بھی یہی کارنامہ سرانجام دیا تھا۔ مسلم لیگ (ن) کے چیئرمین سے لے کر نائب صدور اور سیکرٹریوں تک سب بلامقابلہ منتخب ہوئے۔ ویسے اس بلامقابلہ جمہوریت میں اس تکلف کی کیا ضرورت تھی، ایک پریس ریلیز جاری کردیتے تو ا چھا تھا، اگر یہ ممکن نہیں تھا تو کسی سے خبر’’ لیک ‘‘ کرائی جاسکتی تھی۔ ایک عرصے سے نظر انداز کئے گئے چودھری جعفر اقبال کو تکلیف دینے کی کیا ضرورت تھی مگر اس کا مثبت پہلو یہ ہے کہ ایک اچھا تصویری پروگرام ہوگیا۔ پہلے تصویر صرف اخبار میں چھپتی تھی ا ب ٹی وی اور فیس بک کے علاوہ سوشل میڈیا کے تمام زاوئیے ا س کا جائزہ لیتے ہیں۔ اتنے عہدوں کے بلامقابلہ انتخاب کے وقت مسلم لیگ (ن) کے مرکزی سیکرٹری جنرل کا چنائو نہ ہوسکا۔ سنا ہے کہ اس عہدے کے لئے انجینئر امیر مقام کا انتخاب ہوچکا ہے بس اعلان ہونا باقی ہے۔’’بلامقابلہ‘‘ والے دن ان کا نام جان بوجھ کر ظاہر نہیں کیا گیا کیونکہ امیر مقام کے ماضی میںدو چار مقامات پر مشرف نظر آتے ہیں، مشرف کاذکر آتے ہی (ن)لیگ کے کارکن، ماروی میمن سے بھی زیادہ جذباتی ہوجاتے ہیں۔ مسلم لیگ (ن)کی ہمیشہ سے یہ روایت رہی ہے کہ اس کا سیکرٹری جنرل صوبہ خیبر پختونخوا سے ہوتا ہے جس طرح پیپلز پارٹی کا سیکرٹری جنرل ہمیشہ صوبہ پنجاب سے آتا ہے۔پیپلز پارٹی سے یاد آیا کہ پچھلے دنوں ’’سلام شہداء ریلی‘‘ میں کی گئی دھمال پر جب اعتراضات آئے تو مولا بخش چانڈیو کہنے لگے کہ.....’’ان لوگوں کے پاس کوئی قلندر نہیں ہے اس لئے انہیں دھمال کا پتہ نہیں ہے‘‘۔ لوگوں کا تو پتہ نہیں اگر امین فہیم زندہ ہوتے تو وہ مولابخش چانڈیو کو کم از کم بتا دیتے کہ دھمال اور ٹھمکے میں تھوڑا سا فرق ضرور ہوتا ہے۔
بات دور نکل گئی ہے میں چاہتا تھا کہ خوبصورت اور ہیرو کالم نگار حسن نثار کی باتیں بتائوں، انہوں نے پاکستان کی موجودہ جمہوریت کو ملوکیت قرار دیا ہے، ساتھ ہی ارشاد فرمایا ہے کہ یہ بادشاہت کی جدید قسم ہے، ایک بات انہوں نے بہت پتے کی بیان کی ہے کہ پاکستانی جمہوریت میں اکثریت محروم ہے اور اقلیت ایوانوں میں برا جمان ہے۔ اس سچ کو کوئی نہیں چھپا سکتا کیونکہ حقیقت حال یہی ہے، آپ اندازہ لگائیں کہ اس جمہوریت میں سندھ اور پنجاب نے ایک عرصے تک بلدیاتی انتخابات ہی نہیں کروائے وہ تو سپریم کورٹ کی مہربانی کہ جس نے ان دونوں صوبوں کی حکومتوں کو مجبور کیا کہ بلدیاتی انتخابات کروائے جائیں۔ دنیا کی کوئی بھی جمہوریت بلدیاتی نظام کےبغیر کیسے مکمل ہوتی ہے۔ یہ انوکھا کام بھی ہمارے سیاستدانوں نے کردیا۔ خیر عدالتی حکم پر انتخاب تو کروادیا مگر بلدیاتی اداروں کے سربراہ ایک سال سے نہیں بن رہے۔ سندھ میں اب بن گئے ہیں مگر پنجاب میں ا بھی بھی بلدیاتی ا نتخاب نامکمل ہے، جو لوگ ایک سال پہلے یونین کونسل کے چیئرمین بنے تھے وہ بذات خود مذاق بن کر رہ گئے ہیں۔ نہ ان کے پاس کوئی اختیارہے، نہ دفتر، فنڈز کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ اب آتے جاتے لوگ انہیں مذاقاً کہتے ہیں’’آئیے چیئرمین صاحب‘‘ اس فقرے پر چیئرمین صاحب اپنا’’چہرہ‘‘ چھپانے کی کوشش کرتے ہیں، کچھ تو اکتاہٹ میں یہ بھی کہہ جاتے ہیں’’اس سے تو اچھا تھا ہم ہار جاتے‘‘ ۔ پنجاب میں ا گلے مہینے بلدیاتی اداروں کو مکمل کرنے کی تیاریاں ہورہی ہیں۔ اس مرحلے پر ان خدشات کا اظہار کیا جارہا ہے کہ کسانوں اور مزدوروں کی مخصوص نشستوں پر تاجر، وکلاء، پراپرٹی ڈیلر اور دیگر سرمایہ دار آجائیں گے، اس کے بعد وہ چیئرمین اور ڈپٹی چیئرمین، میئراور ڈپٹی میئر بن جائیں گے۔ پتن ڈیویلپمنٹ آرگنائزیشن نے اسلام آباد کے بلدیاتی انتخابات کے حوالے سے ایک رپورٹ شائع کی ہے۔ یہ رپورٹ پڑھنے سے تعلق رکھتی ہے۔ اس رپورٹ کے مطابق کسانوں اور مزدوروں کے نام پر 35فیصد تاجر، 15فیصد ،پراپرٹی ڈیلرز اور8فیصد وکلاء منتخب ہوئے ہیں۔ اتفاق سے گیارہ فیصد مستحقین بھی آگئے ہیں۔ نوازنے کی پالیسی پر عمل کرتے ہوئے ڈپٹی میئر کی ایک سیٹ کو تین سیٹوں میں تبدیل کیا گیا۔ اب ایک ڈپٹی میئر کے بجائے تین ڈپٹی میئر ہیں۔ اس نیک مقصد کے لئے نیا آرڈیننس جاری کیا گیا۔ کسانوں اور مزدوروں کی سیٹوں پر آنے والوں نے اپنے کاغذات میں تاجر اور وکیل لکھا ہوا ہے۔ یہ ہماری جمہوریت کی خوبصورت تصویر ہے جو سرور باری اور ان کی ٹیم نے پیش کی ہے۔ دانیال عزیز کو پریس کانفرنسوں سے فرصت ملے تو وہ قوم کو بلدیاتی نظام کی خوبصورتیاں بتائیں۔ ان کے بغیر یہ کام کوئی نہیں کرسکتا۔
آج کل ہر طرف دو نومبر زیر بحث ہے۔ عمران خان کہتے ہیں کہ دونومبر کو اسلام آباد بند کردیں گے جبکہ میاں نواز شریف اور ان کی ٹیم کہتی ہے کہ ایسا نہیں ہونے دیں گے۔ پتہ نہیں کیا ہوتا ہے، دونوں پرعزم ہیں۔ میرے دوستوں پرویز ملک اور شائستہ پرویز ملک کی بیٹی سعدیہ کی چار نومبر کو شادی ہے مگر میں چونکہ اسلام آباد میں ہوں اگر اسلام آباد بند ہوگیا تو میں لاہور نہیں جاسکوں گا ا سی لئے میں نے احتیاطی تدابیر کے طور پر شائستہ پرویز ملک کو پیشگی مبارکباد دے کر یہ بھی کہہ دیا ہے کہ اگر اسلام آباد نے مجھے رستہ دیا تو پھر ضرور آئوں گا ورنہ معذرت۔
جن دنوں اسلام آباد میں سیاسی ماحول عروج پر ہوگا انہی دنوںامریکہ میں سیاسی ماحول بام عروج پر ہوگا۔ امریکہ سے جو تازہ اطلاعات مل رہی ہیں ان کے مطابق ہیلری کلنٹن آگے ہے بلکہ بہت آگے ہے۔ یہودی اب بھی اس کوشش میں لگے ہوئے ہیں کہ کسی طرح ٹرمپ کا راستہ ہموار کیا جائے مگر ٹرمپ کے لئے ہر آنے والا دن نئی مشکلات لارہا ہے۔ دراصل ٹرمپ نے خود کو بڑے غلط لوگوں سے وابستہ کرلیا ہے۔ اس نے ہندوستان اور ہندوئوں سے محبت کا برملا اظہار کیا ہے ۔ ٹرمپ بے چارے کو کیا پتہ کہ آج کل ہندوستان کا ستارہ گردش میں ہے، ہندوئوں کے سارے جوتشی پریشان ہیں کہ ستاروں کی چال کو کیسے درست کیا جائے، جو اپنی چالیں درست نہیں کرسکتے وہ ٹرمپ کی چال کیسے درست کریں گے۔ مسئلہ ویسے بھی ٹرمپ کی ’’چال‘‘ ہی کا تو ہے، عائشہ مسعود ملک کا شعر یاد آرہا ہے کہ؎
دوستی کا کوئی بھی موسم نہیں تھا درمیاں
بدگمانی تب ہٹی جب روبہ رو باتیں ہوئیں


.
تازہ ترین