• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
گزشتہ کالم میںباباا سکرپٹ کے حوالے سے کچھ باتیں تحریر کرچکا ہوں اس ملاقات کے دوران باباا سکرپٹ کی کچھ مزید تلخ و شیریں باتیں لکھنےجارہاہوں، بات پی ٹی آئی کے دھرنے سے شروع ہوئی تو میں نے باباا سکرپٹ سے پوچھا کہ کیا عمران خان ناکام سیاستدان ہے ؟ اور اگر عمران خان کا یہ آخری راؤنڈ ناکام ہوگیاتو عمران خان کی سیاست ختم ہوجائے گی؟بابا اسکرپٹ نے ایک مصنوعی سا لیکن بلند قہقہ لگایا، جس کے باعث انہیں کھانسی کا ایک ایسا دورہ پڑا کہ میں ڈر گیا لیکن بابا کے ملازم نے فوراً انہیں پانی میں ایک چمچ شہد ملا کر دیا جسےپیتے ہی بابا کی طبیعت سنبھل گئی، باباا سکرپٹ نے مجھے دکھانے کےلیے کہ انہیں کھانسی قہقہے کی وجہ سے نہیں ہوئی، ایک مرتبہ پھر قہقہ لگایا اور کہنے لگے مجھے یہ تو معلوم نہیں کہ عمران خان کو کبھی مرکزی حکومت ملے گی یا نہیں لیکن یہ ضرور کہوں گا کہ ایک اگر عمران خان کا دھرنا ناکام بھی ہوگیا تو ان کی سیاست کو کچھ خاص نقصان نہیں ہوگا، لیکن تمہیں یہ بتادوں کہ دھرنا غیر معمولی ہوگا اور کٹا کٹی ضرور نکلے گا اور جو تمہارپہلا سوال ہے کہ کیا عمران خان ایک ناکام سیاستدان ہے‘‘ میرا سوال دھرا کر باباا سکرپٹ خاموش ہوگئے ، باباا سکرپٹ کی یہ خامی مجھے عمو ماًـ زچ کردیتی ہے کہ بات کرتے کرتے ایسا پاز(Pause)دیتے ہیں کہ سامنے بیٹھا اور ان کی بات سننے والا جزبر ہوجاتاہے اور کرسی پر پہلو بدلتا رہتا ہے ، اس پاز کے دوران باباا سکرپٹ مختلف ایکشن کرتے ہیں کبھی اپنے ملازم کو بلا کر کچھ ہدایات دینے لگتے ہیں کبھی سگار سلگانے لگتے ہیں اور کبھی کافی کی چسکی لے کر اس کے قصیدے پڑھنے لگتے ہیں اور کبھی کھانسی کے رومانس میں مبتلا ہوکرپریشان کردیتے ہیں، اس بار باباا سکرپٹ نے کھانسی کے دورےکے باوجود کچھ دیر خاموشی کے بعداپنا سگار سلگایا اور اس کے کش لینے لگے اور ہوا میں دھوئیں کا مرغولہ چھوڑتے ہوئےکہنے لگے کہ عمران خان نے جب قومی اسمبلی کی پہلی نشست جیتی تھی تو مجھے یا د ہے کہ بہت سارے سیاسی پنڈتوںنےجو پہلے کہا کرتے تھے کہ سیاست بڑی ظالم چیز ہے جس روز عمران خان قومی اسمبلی کی سیٹ جیتیں گے اس روز معلوم ہوگا کہ سیاسی جماعت بنانا اور ووٹ حاصل کرنا دو الگ الگ باتیں ہیں، سیٹ جیتنے کے بعد انہی تجز یہ نگا رو ں نے یہ لکھنا اور کہنا شروع کیاکہ عوام نے عمران خان کو ورلڈ کپ کی جیت کا انعام دیا ہے بس عمران خان کی یہی سیاسی حد ہے کہ وہ ورلڈ کپ کے بدلے ایک سیٹ جیت لے ورنہ سیاست ایک بہت رحم اور مشکل فیلڈ ہے، سیاست میں جلسے کے ذریعے ناصر باغ، لیاقت باغ، موچی دروازہ یا دیگر بڑی جلسہ گاہوں کو بھرنا بہت مشکل بلکہ عمران خان کےلیے ناممکن بات ہے ، باباا سکرپٹ نے گلاس میں بچے ہوئے شہد والے پانی کو ایک مرتبہ پھر ہلا کر اپنے حلق میں انڈیلا اور ساتھ ہی سگار ایک کش لیا اور مسکراتے ہوئے کہنے لگے کہ پھر کپتا ن نے مینار پاکستان پر جلسہ کرکے ایک بار پھر سیاسی پنڈتوں کو منہ میں انگلی دبانے پر مجبور کردیا اور ساتھ ہی ان پنڈتوںنے کہنا شروع کردیا، جلسہ جلسہ کھیلنا اور بات ہے ووٹ کی سیاست بالکل برعکس ہے بلکہ ووٹ کےلیے عوام کو باہر نکالنا بہت مشکل بلکہ ناممکن ہوتاہے ، لیکن پھر اس ناکام سیاست دان نے 70لاکھ سے زائد ووٹ حاصل کرکے دوسری بڑی سیاسی جماعت ہونے کا اعزاز حاصل کرلیانہ صرف ایک صوبے میں حکومت قائم کرلی بلکہ ملکی سیاست کا ایک اہم کردار بن گیا لیکن اس سے بھی اہم بات یہ ہے کہ عمران خان جسے ناکام سیاست دان کہہ کر کچھ لوگ تسکین حاصل کرنے کی کوشش کررہے ہیں وہ دیکھیں کہ ضمنی انتخابات میں اس کے بعض امیدوار چند ہزار ووٹوںسے ہارے ہیںحالانکہ چاہےپیپلزپارٹی کا دور ہو یا مسلم لیگ(ق) کی حکومت ،ضمنی انتخا با ت میں ان کے امیدواروں کو کوئی نہیں ہرا سکتا تھا،اس لیے پی ٹی آئی کا سخت مقابلہ کرنا بھی ایک غیر معمولی کامیابی ہے ، ان سارے حالات میں اگر تم عمر ا ن کو ناکام سیاست دان کہنا چاہتے ہو تو ضرور کہو بلکہ میں بھی تمہارا ساتھ دیتے ہوئے کہوں گا کہ ’’ہاں وہ ناکام سیاست دان ہے ‘‘۔


.
تازہ ترین