• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
بہت دنوں کے بعد شانتی کی ای میل آئی تھی وہ میرے پروگرام کے بارے میں آگاہی چاہ رہی تھی۔ نیویارک میں اقوا م متحدہ کی کسی تقریب میں اس کو جانا ہے مجھے بھی ان ہی دنوں کینیڈا جانا ہے۔ اس نے لکھا ہے۔ کینیڈا جاتے ہوئے نیویارک میں ملنے کا سوچو۔اس کا یہ خیال برا نہیں کم از کم اس طرح سے نیویارک میں پرانے دوستوں سے ملاقات ہوسکے گی۔ ہمارے پرانے دوست عظیم میاں اور آفاق خیالی کی بھی مصاحبت حاصل ہوگی ۔ انہی دنوں ہمارے اور آپکے وزیراعظم جناب نوازشریف بھی امریکہ میں ہونگے اور ان کی مصروفیت میں اقو ام متحدہ میں شرکت کے علاوہ بھارتی وزیراعظم سے رسمی ملاقات کا موقع ممکن ہے۔ سو میں نے سوچا کیوں نہ اس بہانے دوستوں اور عزیزوں سے یاد اللہ بھی ہو جائیگی۔ شانتی دیوی کی اس ای میل میں کچھ سوال اور ایک فرمائش بھی تھی۔ سوال تو اس کے ایسے کہ ان کا جواب وزیراعظم پاکستان ہی دے سکتے ہیں ۔ ہم پسینہ بہا کر روٹی کمانے والے لوگ ایسے سوالوں کا کیا جواب دے سکتے ہیں ۔
شانتی دیوی کے سوال اگرچہ خلوص نیت سے ہیں مگر سیاسی سوالوں میں خلوص کہاں! ان میں نیت ہی ہوتی ہے وہ اچھی ہو یا بری ۔ اس کا فیصلہ ذرا مشکل ہوتا ہے۔ شانتی پوچھتی ہے پاکستان میں اردو زبان کیلئے کافی ہنگامہ ہورہا ہے۔ کیا اردو اتنی بے چاری ہے کہ سپریم کورٹ کو فیصلہ دینا پڑا۔ کیا اردو زبان سے پاکستان میں کوئی انقلابی تبدیلی آسکتی ہے اردو زبان کی کتابوں کا دیگر زبانوں میں ترجمہ نظر نہیں آتا۔ پھر اس نے ایک کتاب کی فرمائش بھی کردی ہے۔ اب اس بی بی سے کون پوچھے کہ انقلاب کیلئے کسی زبان کی ضرورت نہیں ہوتی۔ انقلاب کے جراثیم تبدیلی لانے والوں کے دماغ میں پرورش پاتے ہیں اور تبدیلی کیلئے ان کے ہم سفر بھی ان جراثیم سے متاثر ہو کر گروہ۔ پھر ہجوم اور تحریک کی شکل اختیار کر جاتے ہیں۔ ماضی میں عوامی انقلابات کے پیچھے سر پھرے لوگ ہی نظر آتے ہیں۔ جو پہلے لوگوں کے ذہن میں تبدیلی لاتے ہیں اور بعد میں نظام تبدیل ہوتا ہے اب اردو کا معاملہ۔ اس سے انقلاب تو ممکن نہیں۔ ہاں نفاذ اردو میں اگر سرکار سنجیدہ ہو جو نظر نہیں آتا۔ سپریم کورٹ نے حق ادا کردیا اورپہلے بھی کرتی آئی ہے اب نظام نے وہ حق دلوانا ہے۔ ایسے کئی فیصلے اور حقوق، سرکار اور نظام کی چوکھٹ پر پڑے ہیں۔ فیصلہ آگیا۔ عوام نے سن لیا بس اتنا ہی کافی ہے۔ہمارے ہاں بدقسمتی سے فیصلے بولتے نہیں اور سرکار بہری ہوتی ہے سو جیسا ہے ویسا ہی رہتا ہے۔ اب یہ اردو کا مقدر کہ اس کے ساتھ کیا ہوتا ہے!اس نے جس کتاب کی فرمائش کی ہے وہ بھی اردو زبان کی نامور شاعرہ اور ادیب محترمہ کشور ناہید کی کتاب ’’مٹھی بھر یادیں‘‘ چند دن سے سوشل میڈیا پر اس کتاب کا خوب ذکر ہورہا ہے۔ یہ کتاب گزرے دنوں میں دل میں بسنے والوں والے لوگوں کی ادھوری ملاقاتوں کا ذکر ہے۔ اس بات کا بھی جواب ہے کہ مٹھی میں ماضی آسکتا ہے فقط یادوں کی شکل میں۔ اس کتاب میں کافی لوگوں کا ذکر ہے جسے خاکہ تو نہیں کہا جاسکتا ہے۔ ایک تاثر سا ایک کسک کا احساس اپنی الفت کا اظہار ہے۔ کشور ناہید کی مٹھی میں ادیب، شاعر، صحافی، مصنف، فنکار سب ہی بند ہیں بس ایک شخص کا تذکرہ نہیں ملتا جس کا ذکر تو ہے وہ ہیں اپنے عہدکے بابا جناب اشفاق احمد۔ کیا کشور ناہید سے صرف نظر ہوئی ہے ایسی سوچ مناسب نہ ہوگی۔اب شانتی دیوی کی فرمائش ایسی ہے کہ اس کو ٹالنا ممکن نہیں۔ پھر اس کے ہم پرکتابوں کے حوالے سے قرض بھی بہت ہیں۔
سو ایک ایسا موقع ملا ہے کہ اس کے ساتھ حسن سلوک ہوسکتا ہے۔سو فیصلہ ہوگیا کہ ٹورنٹو کے راستے میں نیویارک آتا ہے اور وہاں رکنا ہے۔ شانتی دیوی سے نئی کتابوں، دنیا کی سیاست، امریکہ کی دوستوں پر مہربانیوں پر بھاشن بھی لینا ہے۔ اقوام متحدہ میں نئی بدلتی دنیا کی سیاست پر منافقانہ گفتگو کا بھی علیحدہ مزا ہوگا۔ اس دفعہ اقوام متحدہ میں ایران کا ایک نیا انداز ہوگا۔ اس کو خطے میں ایک حیثیت ملنے جارہی ہے۔ عربی اور عجمی سیاست مزید تعصب کا شکار ہوگی۔ مسلمانوں کے حسب سابق دعوے بہت ہونگے۔ مگر ان کی قسمت بدلتی نظر نہیں آتی۔
جناب وزیراعظم پاکستان کی بھارتی ہم منصب سے ملاقات یقینی تو نہیں مگر دوست اور مہربان کوشش کررہے ہیں چند دن پہلے پاکستان کی سرحدی نگرانی کرنیوالے دستوں کے کمانڈر نے بھی بھارتی ہم منصب سے بھارت میں ملاقات کی تھی۔ جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ دونوں ملکوں کی افواج۔ جنگ کے معاملات میں عقل اور دانش سے کام لے رہی ہیں۔ کشمیر پاکستان کی شہ رگ کے علاوہ خطے میں کچھ لوگوں کے حقوق کا معاملہ بھی تو ہے۔ اگر دونوں ملک جمہوریت پر یقین رکھتے ہیں تو ان کو اپنے طور پر کوئی فیصلہ کرنے کا حق نہیں۔ مگر جمہوریت کا راگ الاپنے والے عوام کے مزاج کو نظر انداز کر دیتے ہیں۔ اس وقت بھارت بھی ایسی صورت حال سے دوچار ہے۔ مقبوضہ کشمیر میں حریت پسندوں کی سرگرمیوں میں اضافہ ہوتا جارہا ہے اور عالمی رائے عامہ سب کچھ دیکھ رہی ہے مگر کاروباری مفادات کی وجہ سے اس پر توجہ نہیں دی جارہی۔ اب چین کو اندازہ ہوا ہے کہ خطے کی جنگی صورت حال اس کی ترقی کے معیارکیلئے خطرہ ہے۔ سو وہ پاکستان کو بھارت اور افغانستان میں مثبت کردارکیلئے آمادہ کررہا ہے۔ اس دفعہ پاک بھارت تعلقات میں امریکہ کے علاوہ چین کا بھی خاموش کردار ہوگا۔اب میں شانتی کو ای میل کررہا ہوں کہ میں کینیڈا کے راستے میں نیویارک رکوں گا وہ دوستوں کو اطلاع کردے۔ میاں عظیم سے ملنا آسان ہوگا۔ ان کو تو اقوام متحدہ میں دبوچا جاسکتا ہے۔ اقوام متحدہ نیویارک آفس کے کیفے ٹیریا میں انکے پلے سے خوب کھایا بھی جاسکتا ہے۔ مگر آفاق خیالی کا معاملہ دوسرا ہے۔ وہ تو ہر وقت جوش اور طًیش میں رہتے ہیں۔ ان کا جوش تو سب دوستوں کو اچھا لگتا ہے مگر ان کے طیش کی سمجھ میں نہیں آتی۔ اتنی عمر کے باوجود ان کے اندر کا طیش کس کیلئے بھڑکتا ہے۔ خیر ان سے پاک بھارت تعلقات پر کچھ نیا سننے کو ملے گا۔ کچھ کچھ دروغ گوئی بھی ہوگی ۔
سکون مستقل، دل بے تمنا شیخ کی صحبت
یہ جنت ہے تو اس جنت سے دوزخ کیا برا ہوگا
تازہ ترین