• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
وطن کی آبرو، قوم کا فخر، ادارے کی حرمت، کیپٹن اسفند یار اعزازی تلوار کے ساتھ فوج میں شامل ہوا، پہلی منزل میں بہترین جنگی چالوں پر تمغہ حاصل کرکے کیپٹن بنا، اسفند یار کے اساتذہ، فوج میں اس کے انسٹرکٹر، ساتھی نوجوان افسر سب کا خیال تھا کہ یہ نوجوان’’فور اسٹار‘‘ جنرل ہوگا مگر وہ تیز رو مسافر کیپٹن کی وردی میں ساری منزلیں طے کرتا ہوا میجر طفیل، کیپٹن سرور، میجر شبیر شہید اور عزیز بھٹی کی صفوں میں شامل ہوگیا۔ سب عہدے سارے اعزازات پلک جھپکتے میں پیچھے رہ گئے۔ شہید کے والد ڈاکٹر فیاض بخاری نے بیٹے کی شہادت کو اپنا فخر بنالیا۔ ایمان کا یہ اعلیٰ درجہ نصیب والوں کا حصہ ہے، جس نے تعزیت کے لئے آنے و الوں کی تعزیت قبول کرنے سے انکار کردیا کہ شہید زندہ ہے تو پھر’’تقریب کیسی؟ شہید کو کاندھے دینے میں باپ کا کندھا جھکا نہ آنسو بھر آئے نہ دل ڈوبا، طمانیت کی تصویر ڈاکٹر فیاض بخاری کی آواز اس وقت کپکپاگئی جب اس نے اپنے ملک کے قائدین سے درخواست کی کہ خدا کے لئے’’اس ملک اور اس کے غریبوں کی دولت کو لوٹنا بند کردو، اس قوم کے مستقبل پر رحم کرو جس نے آپ ایسے لوگوں کو اپنا رہنما چن لیا‘‘۔
کیپٹن اسفند یار کی شہادت پر’’ٹوبہ ٹیک سنگھ‘‘کی اسماء نے لکھا یہ ہمارا ہیرو کیپٹن اسفند یار دہشت گردوں کو جہنم واصل کرکے شہید ہو کر جنت کو چلا گیا۔ ہمارا یہ شہزادہ چھوٹی عمر میں وہ مقام حاصل کرگیا جو کھرب پتی سیاستدان کبھی حاصل نہیں کرسکتے۔ اللہ کی قسم یہ مجاہد فوجی اپنا خون دیتے ہیں تو ہم لوگ سکون کے ساتھ چین کی نیند سوتے ہیں۔ جنت ہمارے شہیدوں سے بھری پڑی ہے۔
؎میرے چارہ گر کو نوید ہو، صف دشمناں کو خبر کرو
وہ جو قرض رکھتے تھے جان پر، وہ حساب آج چکا دیا
کرو کج جبیں پہ سر کفن، مرے قاتلوں کو گماں نہ ہو
کہ غرور عشق کا بانکپن، پس مرگ ہم نے بھلا دیا
جو رکے تو کوہ گراں تھے ہم، جو چلے تو جاں سے گزر گئے
رہ یار ہم نے قدم قدم ،تجھے یادگار بنادیا
غازیوں کی بہو، شہداء کی ہمسائی اسماء حمید نے خوبصورت تحریر شیئر کی، یہ سادہ مگر پر اثر خیالات روزنامہ جنگ کے قارئین کی نذر ہیں۔ اسماء حمید کہتی ہیں، بہت غلغلہ برپارہا ہے۔ مقتدر لبرل حلقوں میں کہ جس فوج کے غازیوں، شہداء کی عقیدت پر یہ قوم پاگل ہوئی جاتی ہے وہ دراصل غاصبوں پر مبنی مسلح ادارہ ہے جو قوم کے وسائل کھا کر ہضم کرگیا ہے، انہیں خراج عقیدت پیش کرنے کی بجائے ان سے حساب لینے کی ضرورت ہے۔ اس نقطہ نظر پر غور کیا تو سمجھ میں آیا کہ واقعی کچھ حساب تو نکلتے ہیں اس فوج کی طرف ہمارے بھی۔ میں پوٹھوہار کے جس پسماندہ دیہی علاقے سے تعلق رکھتی ہوں وہاں کے ہر دوسرے گھر کا ایک نہ ایک سپوت پاک فوج کا حصہ ہے۔ پلنگ پوش ، تکیے کے غلاف، ٹین کے بکس، انگیٹھی تو اپنی جگہ، فوجی جوان کے بیڈ منٹن کے ریکٹ، پرانی بندوق تک کڑھائی سے سجے غلاف نظر آئیں گے، آپ کو جو عام نظر نہیں دیکھ سکتی وہ ان دھاگوں کے ٹانکوں میں کڑھے اداسی کے آنسو ہیں، آخری ٹانکے کا دھاگہ دانتوں سے کاٹتے ہوئے ، محاذ پر گئے فوجی کی نئی نویلی دلہن کے دل سے جو آہ نکلتی ہے وہ بھی سنی نہیں جاسکتی۔ اسے سو سماجی روایات کے مطابق اپنی اداسی بھی سسرالیوں سے چھپانی ہوتی ہے۔ ہماری یہ دیہاتی خواتین، اپنے بھائیوں، بیٹوں، شوہروں کی اداسی ان رنگ برنگے دھاگوں میں پرو دیتی ہیں، تنہا زندگی کی ساری بے رنگی ان دھاگوں سے تحریر کردیتی ہیں۔ ان علاقوں میں انٹر نیٹ عام نہیں ہے اور جہاں فوجی جوان تعینات ہے وہاں موبائل فون کا سگنل ہی مسئلہ ہیں۔ ڈاکیے ابھی بھی آتے ہیں ،خط کے لفافے دھندلی آنکھوں سے کھولے جاتے ہیں، جی ہاں ان آنسوئوں، آہوں، کڑھائی میں پروئے انتظار ا ور نظروں کی دھندلاہٹ کا حساب تو بنتا ہے جو ان سے لیا جانا چاہئے، ضرور لیا جانا چاہئے۔ ہمارے یہ بہادر برفیلے موسم کی شدت یا کسی معرکے میں اپنی نوعمری کے زمانے میں ہاتھ پائوں کٹوا بیٹھتے ہیں اور پھر یہ ضد کہ ہمیں دوبارہ محاذ جنگ پر بھیج دیا جائے۔ بے رحم گلیشیئر کے اوپر لگی اینٹی ایئر کرافٹ تک جیسے تیسے پہنچا دیا جائے میں بیٹھے بیٹھے دشمن کو نشانہ بنالوں گا۔ کیا یہ پاگل پن ہے؟ اس پاگل پن کا حساب واقعی لینا چاہئے جی ہاں الائونس تو دیا جاتا ہے ہمارے ٹیکس کے پیسوں سے اس معذوری کے عوض اس جوان کے کٹے بازوئوں ، ٹوٹی ٹانگوں کے الائونس کا حساب دیا جائے ہم ٹیکس گزاروں کو، اگر یہ ٹیکس نہ دینا پڑے تو ہماری زندگی کتنی آسان، کتنی خوشگوار ہوجائے۔ ان پیسوں سے ہم اپنی شامیں زیادہ رنگین اور پرلطف بنا سکتے ہیں۔ ہماری شاموں کا لطف کم کرنے کا حساب تو دینا ہوگا۔ یہ زلزلے، سیلاب، خشک سالی، قحط کے ستائے شہری جب ان کے بارے میں اپنی ’’فیس بک‘‘ پر اپنی شستہ انگریزی میں بیان داغ رہے ہوتے ہیں۔
یہ فوجی اس وقت لینڈ سلائیڈ، بپھری موجوں، وبائی امراض، زہریلے حشرات الارض جیسی چھوٹی چھوٹی پریشانیوں سے بے فکر خدمت کو پہنچ جاتے ہیں۔ خبریں آئیں کہ شمالی علاقہ جات میں فوجی جوان اپنے حصے کا راشن دیتے رہے، خواتین کی میتوں کو اپنے کمبل سے ڈھانپئے ، یہ راشن، یہ کمبل میرے ٹیکس سے خریدا ہوا ہے، یہ بے کفن میتوں، افلاس زدہ بچوں پر کیوں خرچ ہوا ، اب اس کا حساب تو بنتا ہے۔ چلچلاتی دھوپ میں میرا ائیر کنڈیشنر وقت لیتا ہے گاڑی کو ٹھنڈا کرنے میں ، حفاظتی ناکوں پر اور میرے بچوں کے اسکول کے با ہر، لمبے بوٹ، موٹی وردی اور ہیلمٹ پہنے چمکتی بندوق ہاتھ میں لئے چوکس کھڑے رہتے ہیں۔ جنتا سنا ہے کافی لمبا دورانیہ ہوتا ہے ان کی ڈیوٹی کا میرے بچوں کی حفاظت کے لئے، مگر ان کے بھی تو بچے ہوں گے جن کے سر پر بے یقینی کی تلوار لٹکتی رہتی ہے۔ پھر کیا ہوا اس کی تنخواہ بھی ملتی ہے انہیں۔ اس تنخواہ کا حساب ہونا چاہئے۔ ایفی ڈرین، حج ا سکینڈل، رینٹل پاور ، ترکی والا ہار، یہ سب بعد میں ہوتا رہے گا۔
یہ ملک مستقل حالت جنگ میں ہے۔ فوجی جب اگلے مورچوں پر ہوتے ہیں تو ان کے گھروں میں بے خواب راتیں گزرتی ہیں، کیا ان کیلئے بھی کوئی حساب کا پیمانہ ہے؟ ہمارے ٹیکس کے پیسوں سے شہداء کی میتیں ان کے گھروں میں پہنچائی جاتی ہیں۔ ماں یا نئی نویلی دلہن کے ہاتھ پر اس کی ٹوپی اور وردی رکھی جاتی ہے تو اس وقت سارے حساب بے معنی ہونے لگتے ہیں یہ جو ہم متوسط طبقے کے لوگ ہیں جنہیں ہمارے ملک کیInteligenciaنام نہاد نظریاتی قرار دیتی ہے ، جی ہاں، ہمارا بھی ایک رومانس ہے۔یہ ملک زمیں، آسمان، اس کے دریا، سمندر، اس کی فوج اس کا نظریہ یہ سب ہمارا ہے۔ آپ ہم سے ہمارے خواب چھین کر نہ لے جائیے۔ کالی بھیڑیں ہر جگہ ہوتی ہیں ہر محکمے میں ہوتی ہیں لیکن غازی اور شہید ایک ہی ادارے کے پاس ہیں۔ ہمیں ہماری احمقانہ محبت میں مبتلا رہنے دیجئے۔ پاک فوج سے محبت ہمارا’’کلچر‘‘ ہے۔ بچپن سے جب فوجی پریڈ ہوتی تھی تو پاکستان ٹیلیوژن کے سامنے سارا خاندان بیٹھ جاتا ۔ ایس ایس جی کے کمانڈو جب اللہ اکبر کا نعرہ لگاتے ہوئے گزرتے تو لگتا تھا کہ ہمارا رواں رواں ان کے ساتھ پریڈ کرتا ہوا گزر رہا ہے۔ جب قومی جھنڈا زمین پر گرنے سے پہلے پیراٹروپر تھام لیتے تو آنکھیں دھندلا جاتیں۔ ہم ہیں جذباتی لوگ اور ہمارے جذبوں کی امین ہے۔ مجھے یاد ہے میں اپنے بیٹے کو اردو کی کتاب میں ’’نشان حیدر‘‘ پڑھارہی تھی(اصرار ہے کہ نصاب سے غیر ضروری اسباق نکالے جانے پر) جب آخری سطر میں شہید کے باپ کا جملہ پڑھا کہ’’اگر میرے اور بیٹے ہوتے تو انہیں بھی وطن پر قربان کردیتا‘‘ تو میری آواز بھرا گئی۔ماں کو جذباتی ہوتے دیکھا تو پوچھا امی کیا وہ ہمارے کوئی انکل تھے اور میں نے اسے پیار سے بتایا کہ پاک فوج کے سارے شہید اور غازی تمہارے انکل ہیں۔ ہم نے یہی سیکھا کہ فوجی یا تو’’ ڈھول سپاہی‘‘ ہوتا ہے یا’’فوجی بھائی‘‘ یہ لٹیرے غاصب، پراپرٹی ڈیلر وغیرہ کے خطاب تو بے رحم سیاستدانوں کی ایجاد ہے۔’’ڈھولے‘‘ سے اور’’بھائی‘‘ سے محبت کی جاتی ہے، عشق ہوتا ہے اور عشق میں حساب کیسا؟ ہاں ان کی سلامتی کی دعائیں ہمارا فرض بنتا ہے۔ چھ ستمبر کو میری ساس نے جو ایک غازی کی بیوہ ہیں، بڑا کھانا بنوایا ہے حسب معمول گوشت کا سالن، چاول، سویاں، حساب تو دینا ہوگا۔ کیا کسی لبرل کو؟؟
تازہ ترین