• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
محمد علی باکسر کا لیفٹ ہک (دایاں گھونسہ ) اپنے حریف کے اوسان خطا کرنے کے لئے کافی ہوا کرتاتھا۔ برادرم حسن نثار کاجملہ بھی کانوں میں سائیں سائیں کرادیتاہے ۔18اکتوبر کو ’’جنگ ‘‘میں شائع ہونے والے اپنے کالم میں انہوں نے موجودہ حکومت کی معاشی پالیسیوں کو ’’ڈاری معیشت‘‘ کا عنوان دیا ہے ۔ وطن ِ عزیز کے دکھیارے عوام کو جن مسائل کا سامنا ہے ان میں روٹی ،کپڑا،مکان کے ساتھ صحت ،تعلیم اور حصول ِانصاف اہم ہیں۔یہ سب چونکہ اشرافیہ کی پرابلم نہیں ہے اسلئے وہ ان مسائل کے حل کے لئے کوشاں بھی دکھائی نہیں دیتے۔ان کامسئلہ اقتدار ہے ، پاورگیم ہے ۔دراصل یہ ایک طبقاتی جنگ ہے جو اس ملک کی اشرافیہ اورعوام کے مابین لڑی جارہی ہے مگر بدقسمتی سے اشرافیہ ہمیشہ اس میں فاتح اورعوام مفتوح ہوتے ہیں۔یہ سلسلہ اس وقت تک جاری رہے گا جب تک عوام اپنے حقوق کی جنگ کے سپہ سالار خود نہیں بنتے۔ حبیب جالب نے جس طبقے کے خلاف شاعری کی تھی وہی اپنے جلسوں کا ’’عوامی درجہ حرارت‘‘ بڑھانے کے لئے ان کی شاعری استعمال کرتا ہے ۔ اشرافیہ کی طرف سے عوام کے حقوق اور مسائل سے لاتعلقی کے اس دائمی رشتے کانقشہ اقبال ؒ نے بھی یوں کھینچا تھاکہ
فلک نے ان کو عطا کی ہے خواجگی کہ جنہیں
خبر نہیں روشِ بندہ پروری کیا ہے
ہماری سیاست ،جمہوریت اور آمریت کی کوکھ سے جنم لینے والی معیشتیںاسی طرح ’’ایوارڈ یافتہ‘‘ رہی ہیں۔کسی بھی دور میں عوام نے سکھ کا سانس نہیں لیاالبتہ پہلے سے زیادہ دکھوں اور مسائل کا موازنہ کرنے بیٹھے تو انہیں گزرا ہواوقت ایک حسین ماضی لگتاہے اور عوام NOSTALGIA( ماضی پرستی) کا شکار دکھائی دیتے ہیں۔معیشت کی طرح اگرچہ ہماری ثقافت بھی ناموافق اور ناسازگار حالات سے نبرد آزمارہی مگر اس سے وابستہ چند فنکار اور ان کا فن ایسا ضرور تھا جسے دنیا بھر نے سراہاہے۔ مبارک علی فتح علی قوال کی جوڑی کو پیشکش کی گئی کہ وہ پاکستان سے بھارت منتقل ہوجائیں تو انہیں سونے میں تول دیاجائے گا۔دونوں حضرات نے یہ پیشکش قبول نہ کی اور اپنے ہی ملک میں سماع کی محافل سجاتے رہے ، فن ِ قوالی کے یہ شہنشاہ استاد نصرت فتح علی خاں کے والد اورتایاتھے ۔ بعض دوسرے کلاسیکل گوئیوں کو بھی بھارتی شہریت کی پیشکش کی گئی لیکن کوئی وہاں نہ گیا ۔ان میں شام چوراسی گھرانے کے استاد نزاکت علی خاں استاد سلامت علی خاں، استاد امانت علی خاں ،استاد فتح علی خاںپٹیالہ والے ،مہدی حسن ،نورجہاں اور استاد نصرت فتح علی خاںشامل ہیں۔مہدی حسن کے بارے میں لتامنگیشکرکا یہ جملہ کسے بھولاہوگاکہ ’’ مہدی حسن کے گلے میں بھگوان بولتے ہیں‘‘۔
گزشتہ دنوں ریڈیو پاکستان کی عمارات کو عالمی اداروںکے لئے گروی رکھ کر اس پر قرضہ لینے کے حوالے سے خبر سامنے آئی توبعض فنکاروں نے اڈا پلاٹ سمجھ کر میرا محاصرہ کر لیا۔وہ اپنی تشویش کااظہار اپنے مخصوص انداز میں کررہے تھے اورمجھے یوں محسوس ہورہاتھاجیسے وہ میری’’ خبر‘‘نہیں لے رہے بلکہ میرے ساتھ ’’خبرناک ‘‘ کررہے ہیں۔عالی جاہ! کچھ کیجئے آپ کو شہنشاہ ِ غزل مہدی حسن کے کھرج اور آکار (بھاری بھرکم آواز اور لہجہ ) کا واسطہ ہے۔نورجہاں کا ’کرنیل نی جرنیل نی ‘ اور استاد نذر حسین کی وہ غزل یاد کیجئے جسے ملکہ ترنم نے امر کردیا ہے ’ رات پھیلی ہے تیرے سرمئی آنچل کی طرح‘ ۔ ایسا سنگیت اب دوبارہ کہاں تخلیق ہوگا؟ طبلہ نواز استاد میاں شوکت حسین کی دَم دار تہائیاں، عبدالستار تاری خاں کی ٹھاہ دونی ( طبلے کی تیز لے )اور غلام علی کی غزل’ چپکے چپکے رات دن آنسو بہانایاد ہے ‘۔طفیل نیازی کا تذکرہ کرتے ہوئے تو اس مدعی کا کلیجہ منہ کو آنے لگاتھا۔حضورِانور ! طفیل نیازی کے ’چڑیاں داچنبے ‘ دا خیال کرلو۔واہ کیالوک گیت ہے اور طفیل نیازی نے اسے کس مہارت سے گایاتھا؟ابھی اس مٹھاس کو محسوس کرپایاتھاجو طفیل نیازی کے شہد جیسے دوآبی لہجے کا خاصا تھی کہ وہ دوبارہ لسان گردی پراتُر آیا ۔ الحاج عالم لوہار کا چمٹا،بالی جٹی کی چھلانگیں،عنایت حسین بھٹی کاجگر چھلنی ہے دل گھبرا رہا ہے محبت کا جنازہ جارہاہے ‘ ۔ لوک گلوکار شوکت علی کا ’ ساتھیو مجاہدو ‘ ۔ اس ملی نغمے میں تو مسعود رانا بھی شوکت علی کے ساتھ نغمہ سرا تھے۔ میں نے موسیقی سے اپنی دلچسپی کے اظہار کا ثبوت فراہم کرتے ہوئے لقمہ دیا تو گویا ہوئے۔۔۔ حضور! آپ بات کرنے کا موقع تو دیں ،مسعود رانا کا ’تانگے والہ خیر منگدا ‘ نوٹ کریں۔ یہی نہیں فضل حسین کا ’بھاگ یہاں سے بھاگ ‘۔ ہائے ہائے کیاکیایاد کرائوں فریدہ خانم کی وہ جان لیوا غزل ’ وہ مجھ سے ہوئے ہم کلام اللہ اللہ‘ اور استاد چھوٹے غلام علی خاں کی راگ سوہنی میں گائی پنجابی کی یہ استھائی ’ وے میاں کیئاں کیتیاں ساڈے نال برائیاں ‘( ارے میاں تم نے ہمارے ساتھ کونسی کونسی برائی نہیں کی)۔
یوںتو سبھی فنکار حسب ِتوفیق اپنے اس ’’بیرسٹر‘‘ کو لقمے دے رہے تھے مگر وہ تنہا بھی کسی احتجاجی ریلی سے کم نہ تھا۔میںنے صرف اتنا کہاکہ آپ میرے سامنے یہ ٹائر کیوں جلارہے ہیں ،کیا آپ مجھے پرویز رشید سمجھ رہے ہیں؟بالکل نہیں۔۔پرویز رشید صاحب آجکل صرف ایک ہی ریڈیو سنتے ہیں۔ وہ کونسا ؟
میں نے پوچھا تو فنکار جھینپے بغیر بولا ’ایف ایم عمران خان۔ یہ سنتے ہی وہاں موجود سب افراد نے زور دار قہقہہ لگایا۔ اس کے بعد وہ ملکی سیاست پر پھبتیاں کسنے لگے۔ ان فنکاروں کا کہناتھاکہ اندرون ملک تو بہت سے شعبے اور ان سے وابستہ افراد ایوارڈیافتگان ہیں مگر بیرونی دنیامیں صرف ہمارے کھلاڑیوں اور فنکاروں کو ہی یہ اعزازحاصل ہے۔فنکاروں کی گفتگو کچھ تمثیلی رنگ اختیار کرگئی ایک نے کہاکہ مغل ِ اعظم میرے خواب میں آئے ،کہہ رہے تھے ،مجھے شک ہے ریڈیو کے ساتھ ساتھ لاہور کا شاہی قلعہ ،جہانگیر اور نورجہاں کے مقبرے بھی افسر شاہی کی نگاہ میں ہیں۔فنکار نے شرارتی اندازمیں کہامغل اعظم بڑے ناراض تھے ،کہہ رہے تھے پہلے بھی فرنگیوں نے ہمیںایسٹ انڈیا کمپنی کے روپ میںتنگ کیاتھااب پھر ہمارے سرپرستوں (موجودہ حکومت) کو مغل اثاثہ جات سے قرض اٹھانے کامشورہ دے رہے ہیں۔لیکن اس سے قبل میں کچھ کہتافنکار نے اپنے ’’ٹی او آرز‘‘میں یہ اضافہ کیاکہ وزارتِ خارجہ کے ساتھ ساتھ عوام کوبھی برداشت کا ’’پرائڈ آف پرفارمنس ایوارڈ‘‘ دینا چاہئے کیونکہ فنکاروں کی طرح ایسے عوام بھی اورکہیں نہیں۔ قتیل شفائی سے معذرت کے ساتھ’’جو ظلم تو سہتے ہیں،بغاوت نہیں کرتے ‘‘۔


.
تازہ ترین