• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
سیاسی کھیل تماشوں کے درمیان کس کے پاس اتنا وقت ہے کہ وہ قوم کے مستقبل سے تعلق رکھنے والے سنجیدہ مسائل پر غور کرے۔ سویہ سوال بھی سرکار، این جی اوز یا کسی تھنک ٹینک کیلئے کوئی اہمیت نہیں رکھتا کہ ہمارا تعلیمی نظام کس بری طرح زوال کا شکار ہے ۔یہ ہمہ پہلو زوال تعلیمی اداروں میں موجود سہولتوں،اساتذہ کی تربیت،موزوں اساتذہ کی دستیابی، اچھی انتظامیہ، نصاب تدریس اور معیار تعلیم غرض تمام ہی متعلقہ شعبوں میں جھلک رہا ہے۔ کہنے کو ہماری شرح خواندگی میں اضافہ ہو رہا ہے۔ گریجویٹس کی تعداد بڑھ رہی ہے اور پہلے سے کئی گنا زیادہ پی ایچ ڈی پیدا ہو رہے ہیں۔ لیکن عملا یہ افسوسناک حقیقت روز بروز پختہ تر ہوتی جا رہی ہے کہ معیار تعلیم تشویشناک حد تک گر رہا ہے۔ حال ہی میں ملک کی اعلیٰ ترین انتظامیہ یعنی سی ایس ایس کے امتحانی نتائج نے تعلیم کے شعبہ سے دلچسپی رکھنے والے افراد کو چونکا دیا ہے۔ فیڈرل پبلک سروس کمیشن (FPSC) کی جاری کردہ رپورٹ کے مطابق اعلیٰ ملازمتوں کیلئے 9643 امیدواروں نے تحریری امتحان دیا۔ان میں سے صرف202 امیدوار امتحان میں کامیاب قرار پائے۔ یہ شرح محض 2.09 فیصد ہے۔ جو گزشتہ پانچ سالوں کے دوران کامیاب امیدواروں کی کم ترین شرح ہے۔ تشویشناک امر ہے کہ 2011 سے کامیاب امیدواروں کی شرح مسلسل کم ہو رہی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ خواتین کیلئے مخصوص درجنوں نشستیں کئی برسوں سے خالی پڑی ہیں۔
بنیادی تعلیم سے اعلیٰ تعلیم تک کم و بیش یہی صورتحال دکھائی دیتی ہے۔ گزشتہ کئی دہائیوں سے ہم پرائمری تعلیم کا سو فیصد ہدف حاصل کرنے کیلئے کوشاں ہیں۔مگر تاحال ناکام ہیں۔ اقوام متحدہ کی جاری کردہ گلوبل ایجوکیشن مانیٹرنگ رپورٹ2016 کے مطابق پاکستان پرائمری تعلیم کے ضمن میں دنیا سے پچاس برس پیچھے ہے۔ توقع ظاہر کی گئی ہے کہ شاید 2060 تک پاکستان یونیورسل پرائمری تعلیم کا ہدف حاصل کر سکے ۔ موثر منصوبہ بندی کا فقدان ہماری ناکامی کی بنیادی وجہ ہے۔ دوسری بڑی وجہ یہ کہ ہر معاملہ سیاست کی نذر ہو جاتا ہے۔ کسی ایک سیاسی جماعت کی پالیسی یا منصوبہ بندی کو ، آنے والی حکومت آگے بڑھانے سے گریزاں رہتی ہے۔سوآج تک کسی بھی تعلیمی پالیسی پر مکمل عمل درآمد نہ ہو سکا۔ اٹھارہویں آئینی ترمیم کے بعد تعلیم صوبوں کی ذمہ داری ہے۔ ہر حکومت تعلیم کو اپنی ترجیح اول قرار دیتی ہے۔ تاہم حقیقت حال اسکے برعکس دکھائی دیتی ہے۔ پنجاب میں شہباز شریف صاحب تعلیم کے حوالے سے اچھے اقدامات کرتے نظر آتے ہیں۔ تاہم ترجیح کا معاملہ یہ ہے کہ ہائیر ایجوکیشن کے لئے کوئی باقاعدہ یا کل وقتی وزیر مقرر نہیں ۔ جامعات کے وائس چانسلرز کی تقرری جیسا نہایت اہم معاملہ، ماضی میں بھی تاخیرکا شکار ہوتا رہا اور اب بھی یہی حال ہے۔ عمران خان صاحب بھی تعلیم کے حوالے سے بہت سے بلند و بانگ دعوے کرتے رہے ۔یہاں تک کہ صوبے میں تعلیمی ایمرجنسی کا اعلان بھی فرما چکے۔ تاہم سنجیدگی کا عالم یہ ہے کہ انکا مقرر کردہ وزیر تعلیم ایف اے پاس ہے۔ اور وہ بھی ڈی گریڈ کیساتھ۔ سندھ حکومت نے سب سے پہلے صوبائی ہائیر ایجوکیشن کمیشن قائم کیا ۔ مگر ایک ایسے شخص کو اس ادارے کا سربراہ مقرر کر دیا جو پی ایم ڈی سی کے سربراہ کے طور پر ملک بھر میں میڈیکل کی تعلیم کے انتہائی بگاڑ کا ذمہ دار سمجھا جاتا ہے۔ ان ترجیحات کیساتھ نظام تعلیم میں بہتری کیونکر آسکتی ہے۔
بلا شبہ بہت سے اچھے اقدامات بھی ہو رہے ہیں۔ پی ایچ ڈی کرنے والوں کی تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے ، بین الاقوامی کانفرنسوں میں شرکت بڑھ رہی ہے، ہزاروں تحقیقی مقالے شائع ہو ہے ہیں۔ یہ سب مثبت اشارے ہیں۔ تاہم تعداد بڑھانے کی دوڑ میں ہم نے معیار کو فراموش کیا ہے۔ 1947 میں جب پاکستان کی پہلی تعلیمی کانفرنس کا انعقاد ہوا تو کہا گیا کہ جامعات کو محض اسناد بانٹنے والے اداروں کے بجائے تعلیم و تحقیق کا مرکز ہونا چاہئیں۔ مگر افسوس کہ آج ہماری بیشتر جامعات ڈگریاں بانٹنے کی فیکٹریاں بن چکی ہیں۔ نجی اداروں نے تو چلیں تعلیم کو کاروبار کا درجہ دے رکھا ہے۔لیکن سرکاری جامعات بھی رو بہ زوال ہیں۔ایک اہم وجہ یہ کہ اساتذہ کی زیادہ تر توجہ تحقیقی مقالوں کی مطلوب تعداد پوری کرنے پر مرکوز ہے۔ تاکہ اگلے گریڈ میں ترقی حاصل کر سکیں۔سو ہر گزرتے دن کیساتھ کلاس روم میںانکی توجہ کم سے کم ہوتی جا رہی ہے۔ رہی سہی کسر انتظامی ذمہ داریوں اور داخلی سیاست نے پوری کر دی ہے۔ خود نوجوان بھی حصول علم کے بجائے محض ڈگری حاصل کرنے میں کوشاں نظر آتے ہیں۔ اپنی معلومات یا ذہنی استعداد کار بڑھانے میں انہیں کوئی دلچسپی نہیں۔ اس برس ایم فل اور پی ایچ ڈی جیسے اہم پروگراموں میں داخلہ کے خواہشمند امیدواروںکی معلومات کا معیار اور ذہنی استعدادحیران کن حد تک کم تھا ۔ بیشتر نجی ادارے تو داخلہ ٹیسٹ جیسے تکلفات سے ماورا ہوتے ہیں۔ بہت سی نامور سرکاری جامعات کے کئی شعبوں میں پی ایچ ڈی کا ایک بھی امیدوار داخلہ امتحان پاس نہ کر سکا۔ ایم فل میں بھی امیدوار بمشکل پاس ہو سکے۔ نتیجہ یہ ہے کہ یا تو ان جامعات میں پی ایچ ڈی پروگرام شروع ہی نہ ہوسکے۔ یا پھر رعایتی نمبرز دے کر سیٹیں فل کرنے کا اہتمام کیا گیا۔
اس صورتحال میں ذرا سوچئے کہ ہم آگے بڑھ رہے ہیں یا پستی کی جانب گامزن ہیں۔ اس پہلو پر تحقیق ہونی چاہیے کہ ہمارے نوجوانوں کی کم علمی کی وجہ کیا ہے۔ اور ایسے کونسے عوامل ہیں جو انکی ذہنی استعداد کار کو محدود یا کم کرنے کا باعث ہیں۔ مگر ایسے معاملات کا سراغ لگانے کے بجائے کبھی ہمیںانگریزی اور اردو کی بحث میں الجھا دیا جاتا ہے۔ کبھی ہم دینی مدارس کی اصلاح احوال کا نعرہ سنتے ہیں ۔ کبھی نصاب سازی کی باتیں ہوتی ہیں۔ کبھی یہ معاملہ زیر بحث رہتا ہے کہ شعبہ تعلیم صوبائی حکومت کے اختیار میں ہو یا مرکز کے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ان تمام بحثوں سے قطع نظر ہمارے ارباب اختیار مل بیٹھیں اور کوئی متفقہ تعلیمی پالیسی وضع کریں اور آنے والے برسوں میں اسکے عمل درآمد پر جت جائیں۔


.
تازہ ترین