• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
سولہ دسمبر2014ءکو آرمی پبلک اسکول پشاور پر ہونے والے حملے میں دہشت گردوں کے چھ سہولت کاروں کو گرفتارکرنے کیلئے بہت تگ ودو کرنی پڑی۔ آٹھ ماہ بعد، پاک فوج کے حکام کو اس میں کوئی شک نہیں کہ حال ہی میں ایک فوجی عدالت سے سزاپانے والے ملزمان اُس خونی واقعے میں ملوث تھے اور اُنھوں نے اُن چھ خودکش حملہ آوروں کو پناہ اور سہولت فراہم کی تھی جنھوں نے ایک سو پچیس بچوں سمیت ایک سو اکیاون افراد کو ہلاک اور ایک سو سینتالیس کو زخمی کردیا تھا۔
جب ( یا اگر) سزائے موت پانے والے ان پانچ افراد کی سزا پر عمل درآمدہوجاتاہے ....... چھٹے شخص کو عمر قید کی سزا سنائی گئی…۔ گو کہ ابھی انکے پاس’’ ملٹری کورٹ آف اپیل‘‘ میں اپیل کرنے کا حق ہے، توآرمی پبلک اسکول سانحے کا ایک باب بند ہوجائے گا۔اس کا دوسرا مرحلہ اورنگ زیب عرف خلیفہ عمر منصور ،آصف عرف حاجی کامران ، جو اس آپریشن کے کمانڈر تھے اور ان کے باس، تحریک ِطالبان پاکستان کے لیڈر ، مولانا فضل اﷲ کو تلاش کرکے کیفر کردار تک پہنچانا ہے۔ جب فوج نے شمالی وزیرستان میں کارروائی کا آغاز کیا تو یہ تینوں فرار ہوکر افغانستان چلے گئے تھے۔ اُنہیں وہاںسے واپس لاکر انجام تک پہنچانے کیلئے وقت، کوشش اور اگر ممکن ہوسکے تو افغان حکومت اور نیٹو فورسز کا تعاون درکار ہوگا۔
اُس وحشیانہ حملے کے تینوں ذمہ داروں کی تلاش یقیناً جاری رہے گی کیونکہ جب تک وہ انصاف کے کٹہرے تک نہیں لائے جاتے، اے پی ایس کا زخم نہیں بھرے گا۔ موجود فوجی کمان نے اس حملے کے ذمہ داروں کو منطقی انجام تک پہنچانے کا عہد کررکھا ہے۔ آرمی چیف جنرل راحیل شریف کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ اُنھوں نے اُس سانحے میں ہلاک ہونیوالے بچوں کی تصاویر اپنے آفس ٹیبل کی دراز میں رکھی ہوئی ہیں تاکہ اُن کی یاد کبھی بھی دل سے محو نہ ہونے پائے اور ان کی ہلاکت کا انتقام لینے سے توجہ نہ ہٹنے پائے۔ کور کمانڈر پشاور، لیفٹیننٹ جنرل ہدایت الرحمٰن ، جو ایک سادہ اور پیشہ ورسپاہی اور گلگت بلتستان سے تعلق رکھنے والے پہلے جنرل ہیں اوراس وقت فاٹا میں ہونے والے آپریشن کو کمان کررہے ہیں، بھی کام کو ادھورا چھوڑنے پر یقین نہیں رکھتے ۔ اس واقعے کی اب تک کافی معلومات دستیاب ہوچکی ہیں۔ اے پی ایس پر حملے میں مختلف شعبوںسے تعلق رکھنے والے کئی ایک افراد ملوث تھے۔ اُن سب نے مل کر معصوم طلبہ اور غیر مسلح اساتذہ پر ظلم کی انتہا کردی۔ ان ملزمان میں ایک پیش امام، ایک کلرک اور ایک رکشہ ڈرائیور بھی شامل ہیں۔ انھوں نے مبینہ طور پر خود کش حملہ آوروں کو پنا ہ دی، لاجسٹک سپورٹ فراہم کی اورحملے کی جگہ پر پہنچنے میں مدد کی۔ایسا لگتا ہے کہ اسکول کے قرب وجوار میں رہنے والے افراد ان حملہ آوروں کو دیکھ چکے تھے لیکن اُنھوں نے ڈر کے مارے قانون نافذ کرنے والے افراد کو اطلاع نہیں دی۔ ان چھ حملہ آوروں کی تصاویرحملے کے ماسٹر مائنڈ خلیفہ عمر منصور نے ان کے مشن پر جانے سے پہلے اپنی ویب سائٹ پر لگادی تھیں۔ ان حملہ آوروں کا تعلق فاٹا اور خیبر پختونخوا کے مختلف علاقوں، جیسا کہ باڑا، تیرہ، مہمند ایجنسی اور حتیٰ کہ پشاور سے تھا۔وہ سب پشتو بولنے والے افراد تھے، اگرچہ کچھ خوفزدہ اور زخمی بچوں نے بعد میں میڈیا کوبتایا کہ اُن میں سے کچھ عربی اور انگریزی بھی بول رہے تھے۔ آرمی اسکولوں، جن میں اے پی ایس بھی شامل تھا، کو حملے سے چند ماہ پہلے انتہا پسندوں کی طرف سے دھمکی موصول ہوئی تھی، لیکن اسے معمول کے مطابق ہی سمجھا گیا، چنانچہ سیکورٹی کو مزید سخت کرنے کی ضرورت محسوس نہ کی گئی۔ اس کے علاوہ فوجی کمانڈر ہر دستیاب فوجی کو کم اہم جگہوںسے نکال کر شمالی وزیرستان کی طرف روانہ کررہے تھے جہاں مقامی اور غیر ملکی انتہا پسندوں کے خلاف فیصلہ کن ضرب ِ عضب شروع ہوچکی تھی۔ یہ بات بھی ناقابل ِ یقین حد تک حیرت انگیز تھی جب آئی ایس پی آر کی طرف سے دعویٰ کیا گیا کہ اے پی ایس حملے کے سہولت کار، حضرت علی، مجیب الرحمن سبیل، مولوی عبداسلام، تاج محمد، عتیق الرحمن (جن کو سزائے موت سنائی گئی) اور کفایت اﷲ (جسے عمر قید ملی) کا تعلق توحید الجہاد گروپ سے تھا۔ جیسا کہ فوجی افسران نے نشاندہی کی، دہشت گردی کی دنیا میں یہ کوئی نیا گروپ نہیں تھا۔ اس نے سب سے پہلے 2012 میں پاکستان میں ہونیوالی دہشت گردی کی ایک کارروائی کی ذمہ داری قبول کی تھی۔ یہ بہت سے اہم اہداف کے تعاقب میں تھا۔ پہلے اس کا نام تحریک ِطالبان گیدار(ٹی ٹی جی) تھا اور اس کی قیادت طارق آفریدی کررہا تھا۔ یہ بھی اُن گروہوں میں سے ایک تھا جنھوں نے انٹیلی جنس ایجنسیوں کو چکما دینے کیلئے اپنے نام اور حکمت ِعملی کو تبدیل کرلیا تھا۔
اے پی ایس کے بعد بہت سی قیاس آرائیاں کی گئیں۔ کچھ تبصرے احمقانہ جبکہ کچھ لاعلمی کا مظہر تھے۔ کچھ نے وارسک روڈ پر فوجیوں اور پولیس کے سپاہیوں کے گشت نہ کرنے کو کسی قسم کی سازش سے تعبیر کیا۔ دعویٰ کیا گیا کہ افغان مہاجرین اسکول کی کینٹین چلارہے تھے اور اُنھوں نے حملہ آوروں کو سہولت فراہم کی۔ بعد میں پتہ چلا کہ کینٹین کا ٹھیکیدار نوشہرہ سے تعلق رکھنے والا ایک پاکستانی شہری ہے اور ابھی بھی یہ ٹھیکہ اُسی کے پاس ہے۔اس میں کوئی شک نہیں کہ حملہ اُن اداروں کی سیکورٹی کی ناکامی کا نتیجہ تھاجو شہریوں کی جان ومال کے تحفظ کے ذمہ دار ہیں۔ چونکہ یہ ایک آرمی پبلک اسکول تھا، اس لئے اس میں زیرتعلیم اٹھارہ سو طلبہ کی حفاظت کی ذمہ داری فوج پر ہی عائد ہوتی تھی۔ حملہ آور مبینہ طور پر ایک دوردراز کے مقام، تیراہ وادی سے آئے تھے، چنانچہ بیس مقامات سے زیادہ چیک پوسٹوں پر تعینات فوجیوں، خاصہ داروں اور پولیس کے سپاہیوں کے علاوہ انٹیلی جنس ایجنسیوں کے اہل کاروں کی ذمہ داری تھی کہ ان کوا پنے ہدف ، اے پی ایس ، جو پشاور چھائونی میں واقع ہے، تک پہنچنے سے روکا جاتا۔
کچھ حلقوں کی طرف سے یہ تنقید بھی کی گی کہ جب سولہ دسمبرکی صبح دہشت گردوں نے اے پی ایس پر حملہ کیا تو فوجی اہل کار وں نے وہاں پہنچنے میں تاخیر کردی۔ اس ضمن میں اگر فوجی کمانڈروں کی بات پر یقین کیا جائے تو فوج کی کوئیک ری ایکشن فورس اے پی ایس تک آٹھ منٹ میں پہنچ گئی تھی اور اس نے فوراً ہی جونیئر سیکشن کو محفوظ بنایا کیونکہ حملہ آور اُس طرف جاکر چھوٹے بچوں کو ہلاک کرنے کے منصوبےپر بات کرتے سنے گئے تھے۔ انسپکٹر جنرل ایف سی اور دو بریگیڈئیر، جن میں سے ایک کی اہلیہ کو اُس وقت دہشت گردوں نے زندہ جلادیا جب وہ چھوٹے بچوں کو فرار ہونے میں مدد کررہی تھیں، بھی چند منٹ کے اندر وہاں پہنچ گئے تھے۔ فوج کے پاس موجود جدید آلات کی مدد سے حملہ آوروں اور ان کے افغانستان میں موجود ماسٹر مائنڈ دہشت گردوں کے درمیان گفتگو سن لی گئی ۔ اس سے حاصل ہونے والی معلومات سے اس دہشت گردی کی گھنائونی کارروائی کا تمام تانا بانا سمجھ میں آگیا۔ حملے کے اگلے روز آرمی چیف، جنرل راحیل شریف اور آئی ایس آئی کے سربراہ، لیفٹیننٹ جنرل رضوان اختر افغانستان گئے اور صدر اشرف غنی سے کابل میں ملاقات کرتے ہوئے افغان سرزمین سے جڑی ہوئی اس دہشت گردی کے ذمہ داروں کے خلاف کارروائی کا مطالبہ کیا۔ اس میں ملوث کچھ سہولت کاروں کو گرفتار کرلیا گیا۔ ایک گرفتاری بہاولنگر جیسے دوردرازمقام سے بھی ہوئی۔ اسکے بعد یکے بعد دیگرے گرفتاریاں عمل میں آتی گئیں۔
دہشت گردی کی اس کارروائی کے موقع پر کچھ نے دلیری کی تاریخ بھی رقم کی۔ا سکول کی شہید پرنسپل، طاہرہ قاضی، آڈیٹوریم میں نشستوں کی پہلی قطار میں بیٹھی ہوئی تھیں جب ایک فوجی ڈاکٹر طلبہ کو ابتدائی طبی امداد پر لیکچر دے رہا تھا۔ اُس وقت دہشت گردوں نے حملہ کرکے چاروں طرف گولیوںکی بوچھاڑ کردی۔ طاہرہ قاضی صاحبہ فوراً ہی باہر آئیں اور فوجی حکام کو حملے کی اطلاع دی۔ اس کے بعد وہ اپنی جان پر کھیل کر آڈیٹوریم میں داخل ہوئیںتاکہ طلبہ کو بچاسکیں ۔ اُس وقت آڈیٹوریم میں داخل ہونے کا مطلب موت کے سوا کچھ نہ تھا۔ چنانچہ محترمہ بجاطور پر بہادری کے اعلیٰ ترین اعزاز کی مستحق ہیں، اور اسی طرح دیگر اساتذہ اور طلبہ بھی جو اس واقعے میں شہید ہوئے۔ نائیک الطاف کا تعلق فوج کی انجینئرنگ کور سے تھا، لیکن اُس نے قوانین کی خلاف ورزی کرتے ہوئے اسکول کی دیوار پھلانگی اور بچوں کو بچانے کے لئے اندر کی طرف بھاگا۔ اُسے گارڈ نے خبردار کیا کہ وہ رک جائے لیکن وہ نہ رکا ۔ آخر کار اُس نے اپنی جان دے دی۔
دراصل اے پی ایس سانحہ اپنی مثال آپ تھا۔ دنیا بھر نے اس دلخراش سانحے کی مذمت کی۔ اس حملے کے ذمہ داروں کو پکڑنا اور سزا دینا پاکستان کیلئے ایک بہت بڑا چیلنج تھا۔ اسکول کے بچوں کے لہو نے قوم کو متحد کردیااور دہشت گردی کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کےلئے نیشنل ایکشن پلان بنایا گیا۔ اس حملے کے سہولت کاروں کو بے نقاب کرکے کیفر کردار تک پہنچاناپہلااہم قدم تھا، لیکن ابھی پاکستان کو امن اور استحکام کی منزل حاصل کرنے کیلئے بہت سے سنگ ِمیل عبور کرنے ہیں۔
تازہ ترین