• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
چراغ جب بجھنے لگتا ہے تو اس سے پہلے پھڑپھڑاتا ہے ،اس آخری حدت کے بعد فنا ہی اسکا مقدر ٹھہرتی ہے۔پاک فضائیہ کے بڈھ بیر کیمپ پر حملے کی صورت میں یہی آخری پھڑپھڑاہٹ نیست و نابود ہوتے ان دہشت گردوں کی ہے ، فنا ہونا جن کے مقدر میں لکھا جا چکا ہے،پاکستان کی مسلح افواج کی طرف سے شمالی وزیرستان سے خیبر ایجنسی تک جاری آپریشن ضرب عضب نے ان دہشت گردوں پرپاک زمین تنگ کر دی ہے جوایک سال پہلے تک ملک بھر میں دندناتے پھر رہے تھے۔ ہر طرف خوف کے سائے تھے اور وہ جہاں چاہتے موت رقص کرنا شروع کر دیتی۔کوئی دن ایسا نہ تھا جب بے گناہ اور معصوم افراد کے خون سے ہولی نہ کھیلی جاتی ہو۔ ریاست اور اس کے اداروں کا مورال اتنا پست ہو چکا تھا کہ ان وحشیوں کے ساتھ امن معاہدوں کیلئے کمزوری دکھائی جا رہی تھی۔ اسی عرصے میں دفاعی اور عسکری تنصیبات پر بھی حملے شروع ہو گئے اور جب مہران اور کامرہ ائیر بیس کے بعد کراچی ائیرپورٹ بھی دہشت گردوں کیلئے ترنوالہ ثابت ہوا تو عسکری قیادت نے شمالی وزیرستان میں غیر اعلانیہ سرجیکل اسٹرائکس شروع کردیں۔ سیاسی قیادت ستمبر دو ہزار تیرہ میں دہشت گردی کیخلاف منعقدہ کل جماعتی کانفرنس کے فیصلوں اور فروری دو ہزار چودہ میں دہشت گردی سے نمٹنے کیلئےپارلیمنٹ میں پیش کی گئی قومی سلامتی پالیسی پر عمل درآمد میں ہچکچاہٹ کا شکار تھی اور اسے بدستور دہشت گردوں سے مذاکرات کرنے میں دلچسپی تھی لیکن جب پانی سر سے گزرنے لگا تو عسکری قیادت نے اقتدار کے تحفظ میں مصروف سیاسی رہنمائوں کو اعتماد میں لیا اور آخری معرکے کے طور پر گزشتہ سال جون میں آپریشن ضرب عضب کا آغاز کر دیا۔ دہشت گردوں نے گزشتہ سال سولہ دسمبر کو آرمی پبلک اسکول پشاور میں معصوم بچوں کو نشانہ بنا کر بربریت کی جو تاریخ رقم کی اس نے سیاسی و عسکری قیادت سمیت پوری قوم کو دہشت گردوں کیخلاف متحد کر دیا۔ سیاسی اور عسکری قیادت کے درمیان ایسی ہم آہنگی دیکھنے کو ملی کہ اسی بے مثال قومی اتحاد کے طفیل صرف چند ماہ میں جنگی اعتبار سے شمالی وزیرستان جیسے دنیا کے دشوار ترین علاقے کو وطن دشمنوں سے پاک کرا لیا گیا۔ شہروں میں موجود دہشت گردوںکے سہولت کاروں کیخلاف کارروائی نے انہیں سرحد پار بھاگنے پر مجبور کر دیا جہاں افغان طالبان کے مختلف دھڑے اب ان شدت پسندوں کو پناہ دے رہے ہیں۔ جمعہ کی صبح پاک فضائیہ کے بڈھ بیر کیمپ میں مسلح افواج کے خاندانوں کو نشانہ بنانے کی مذموم کوشش بھی افغانستان سے آنیوالے انہی شدت پسندوں کی طرف سے کی گئی۔آرمی پبلک اسکول میں پھول جیسے بچوں کو شہید کرنیوالوں نے اس بار وضو کرتے اور اللہ تعالی کے حضور سربسجود نمازیوں کو نشانہ بنا کر ایک بار پھر ثابت کر دیا کہ ان کا اسلام سے دور کا بھی واسطہ نہیں ہے۔ اسلئے ایسے وحشیوں کو بھٹکے ہوئے قرار دے کرآج بھی ان سے بات چیت کرنے کی تجاویز دینے والوں کو اپنی سوچ پر نظر ثانی کرنی چاہئے۔ایسی تجویز حملے والے روز ہی جمعیت علمائے اسلام ف کے سینیٹر اور مولانا فضل الرحمان کے بھائی مولانا عطاء الرحمان نے سینیٹ اجلاس میں دی ہے۔ پاک فوج کے ترجمان میجر جنرل عاصم سلیم باجوہ نے حملے کے چند گھنٹوں کے بعد ابتدائی تحقیقات کی روشنی میں واشگاف الفاظ میں آگاہ کر دیا کہ حملے کا منصوبہ افغانستان میں بنایا گیا،کنٹرول بھی وہیں سے کیا گیا اور تمام حملہ آور بھی افغانستان ہی سے آئے تھے۔ انہوں نے یہ بھی واضح کیا کہ اس میں افغان حکومت اور ریاست ملوث نہیں ہو سکتی۔ پاک فوج کے ترجمان نے ہمسایہ ملک کی قیادت کو یہ بھی باور کرا دیا کہ انکے ملک میں پٹاخہ بھی چل جائے تو الزام پاکستان پر لگا دیا جاتا ہے تاہم وہ الزام نہیں لگا رہے بلکہ ٹھوس شواہد کی بنیاد پر حملہ آوروں کے افغانستان سے آنے کا کہہ رہے ہیں۔ اس بزدلانہ حملے سے ایک دن پہلے بھی افغانستان کے صوبے خوست سے نوے سے سو کے قریب دہشت گردوں نے پاکستان کی سرحد عبور کر کے حملے کرنے کی کوشش کی تھی جسے پاکستان کی مسلح افواج نے کامیابی سے پسپا کر دیا تھا تاہم اس دوران چار فوجی جوانوں نے جام شہادت نوش کیا جبکہ شدت پسند اپنے تین ساتھیوں کی لاشیں چھوڑ کر فرار ہو گئے۔ پاکستانی دفتر خارجہ نے اس پر افغان حکومت سے احتجاج بھی کیا تھا۔ماضی کا باب بند کرتے ہوئے پاکستان ڈاکٹر اشرف غنی کوخطے میں پائیدار امن کے قیام کیلئےہر دوستانہ پیشکش کر چکا ہے لیکن شاید ان پر پاکستان مخالف قوتوں کا اثر اتنا زیادہ ہے کہ وہ وعدوں اور یقین دہانیوں کے باوجود ایک قدم آگے بڑھتے ہیں تو دس قدم پیچھے ہٹ جاتے ہیں۔ بڈھ بیر حملے سے ایک دن قبل بھی وزیر اعظم کے مشیربرائے خارجہ امور سرتاج عزیز نے سینیٹ میں ایک بیان دیتے ہوئے واضح الفاظ میں کہا تھا کہ پاکستان نے افغان قیادت کو ہر طرح سے یقین دلایا ہے کہ وہ تمام دہشت گردوں کے خلاف بلا امتیاز کارروائی کر رہے ہیں۔گڈ اور بیڈ طالبان کی پالیسی ماضی کا باب بن چکی اسلئے افغان حکومت بھی پاکستان سے بھاگ کر افغانستان میں پناہ لینے والے دہشت گردوں کیخلاف کارروائی کرے۔انہوں نے یہ بھی بتایا تھا کہ پاکستان بارڈر مینجمنٹ کیلئےبھرپور اقدامات کر رہا ہے تاہم لاکھوں کی تعداد میں افغان مہاجرین کی آمد و رفت مشکوک افراد کے پاکستان میں داخلے کو روکنے میں بڑی رکاوٹ ہے۔ پاکستان خطے اور بالخصوص افغانستان میں امن کے قیام کیلئے افغان حکومت اور طالبان کے درمیان مذاکرات میں سہولت کار کا کردار بھی نہایت خلوص سے ادا کر رہا تھا اورمستقبل قریب میں بھی کرنے کیلئے تیار ہے تاہم تالی دونوں ہاتھوں سے بجتی ہے اسلئےافغان حکومت کو بھی پاکستان کی کوششوں کا جواب اسی خلوص نیت سے دینا چاہئے۔افغان قیادت پاک دشمن ایسی قوتوں کو اپنی سرزمین ہر گز استعمال نہ کرنے دے جو نہ صرف آپریشن ضرب عضب کی کامیابیوں سے خائف ہیں بلکہ وہ چین پاکستان اقتصادی راہداری منصوبے کو بھی ہر صورت ناکام بنانے کی مذموم سازشیں کررہی ہیں۔ وزیر اعظم نواز شریف ان ناپاک سازشوں کا اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں بھی پردہ چاک کرینگے۔ کہا جاتاہے کہ ہر شر میں خیر کا پہلو ہوتا ہے بڈھ بیر حملے نے دہشت گردی کیخلاف قائم اتحاد کی تجدید کر دی ہے یہی وجہ ہے کہ وطن کادفاع کرنے والے اسفند یار جیسے شیروں کو خراج تحسین پیش کرنے کے لئےنماز جنازہ میں ان کے بہادر والد کے ایک طرف آرمی چیف جنرل راحیل شریف کھڑے تو دوسری طرف وزیر اعظم محمد نواز شریف موجود تھے۔سیکورٹی کی خامیوں اور مایوسی کی باتیں کرنے والوں کو دہشت گردی کے حملوں سے متعلق اعدادو شمار کا موازنہ آپریشن ضرب عضب شروع ہونے کے پہلے کے حالات سے کرنا چاہئے انہیں اسفند یار شہید کے لہو سے روشن پاکستان کا چہرہ گلنار ہوتا نظر آئیگا۔
تازہ ترین