• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
اس وقت پاکستان کے اندر اور پاکستان کے باہر خطے کے جو حالات ہیں ، ان میں بہت سے امکانات جنم لے رہے ہیں ۔ پاکستان داخلی سطح پر دہشت گردی اور انتہا پسندی کے خلاف فیصلہ کن جنگ لڑ رہا ہے ۔ ملک کی مشرقی اور مغربی سرحدوں پر صورت حال مسلسل کشیدہ ہے اور پاکستان کی مسلح افواج کو یہاں بھی ’’ انگیج ‘‘ ( Engage ) رکھا جا رہا ہے ۔ پاکستان کی مسلح افواج اپنی نئی ’’ ڈاکٹرائن ‘‘ کے ساتھ ان سیکورٹی ایشوز سے نبرد آزما ہو رہی ہیں ۔ پشاور میں پاک فضائیہ کے کیمپ پر دہشت گردوں کے حالیہ حملے نے یہ بات واضح کر دی ہے کہ پاکستان کے دشمن پاکستان کے اندر اور باہر سے پاکستان کیخلاف جنگ کر رہے ہیں ۔ اس کے ساتھ ساتھ سیاسی اور جمہوری حکومتوں کی خراب حکمرانی سے بھی مسائل پیدا ہو رہے ہیں ۔ ان حالات میں مستقبل کے حوالے سے امکانات کا جائزہ لیا جا سکتا ہے ۔
یہ کہنا درست نہیں ہے کہ پاکستان میں دہشت گردی اور انتہا پسندی ’’ نائن الیون ‘‘ کے بعد شروع ہو ئی ۔ جنرل ضیاء الحق کے زمانے سے ہی ملک انتہا پسندی اور دہشت گردی کی لپیٹ میں آ گیا تھا ۔ ضیاء الحق کے طویل عرصہ اقتدار میں ملک کی بنیادیں ہل گئیں ۔ملک صدیوں پیچھے چلا گیا ۔ اس کے بعد پاکستان میں جمہوریت تو ضرور آئی اور انتخابات بھی ہوئے لیکن جمہوریت کو پنپنے کا موقع نہیں ملا ۔ ملک نہ تو دہشت گردی سے نجات حاصل کر سکا اور نہ ہی جمہوری ادارے مضبوط ہو سکے ۔ ضیاء الحق کے بعد سویلین حکومتیں قائم ہوئیں لیکن ’’ سویلین آرڈر ‘‘ نافذ نہ ہو سکا ۔ اس کا بنیادی سبب یہ ہے کہ سیاست میں ان سیاست دانوں کا عمل دخل بہت زیادہ ہو گیا ، جو ضیاء الحق کی آمریت کی پیداوار ہیں ۔ آمریت کے خلاف لڑنے والے کچھ سیاسی جماعتوں کے بعض رہنماؤں کے سوا باقی سب آمریت کی پیداوار تھے۔ ان لوگوں نے جو سیاست رائج کی ، اس کی وجہ سے نہ جمہوریت مضبوط ہو سکی اور نہ جمہوری حکومتیں عوام کیلئے کچھ کر سکیں ۔ جمہوری حکومتوں کے بارے میں ناکام اور کرپٹ حکومتوں کا تاثر پیدا ہوا ۔ اسی طرح ضیاء الحق کے بعد تمام سویلین اور آمرانہ حکومتوں میں دہشت گردی بھی جاری رہی ۔ دہشت گردی کے خلاف آپریشن ہوئے لیکن خاطر خواہ کامیابی نہ مل سکی ۔ ساتھ میں محترمہ بے نظیر بھٹو اسی انتہا پسندی اور دہشت گردی کا شکار ہوئیں اور دہشت گردی اور انتہا پسندی اس کے بعد بھی جاری رہی ، چاہے جنرل پرویز مشرف کا دور ہو یا جنرل کیانی کا ۔ دہشت گردی کے ساتھ ساتھ پاکستان کی مغربی اور مشرقی سرحدوں پر بھی بہت کشیدگی رہی اور پاکستان کی مسلح افواج کو داخلی عدم استحکام کے ساتھ ساتھ سرحدوں پر پیدا ہونے والی صورت حال سے بھی نمٹنا پڑا۔ پاکستان سیکورٹی ایشوز میں الجھا رہا اور ایک سیکورٹی اسٹیٹ سے ایک ڈیموکریٹک اسٹیٹ کی طرف سفر نہ کرسکا۔ پاکستان میں پہلی دفعہ موجودہ آرمی چیف جنرل راحیل شریف کے دور میں انتہا پسندی اور دہشت گردی کے خلاف جنگ کو ایک قومی جنگ کے طور پر لیا جا رہا ہے اور پوری قوم اس جنگ میں شریک ہے ۔ اس جنگ میں پہلی مرتبہ ایسی کامیابیاں حاصل ہوئی ہیں ، جنہیں برسر زمین لوگ محسوس کر ہے ہیں ۔ یہ جنگ دہشت گردوں اور انتہا پسندوں پر مکمل فتح حاصل کرنے تک جاری رکھنے کا عوام اور فوج کا عزم ہے ۔ پہلی مرتبہ فوج نے اپنی ’’ ڈاکٹرائن ‘‘ کو تبدیل کرتے ہوئے ملک میں ہونے والی دہشت گردی، کرپشن اور انتہا پسندی کو پاکستان کی سلامتی کیلئے سب سے بڑا چیلنج اور سب سے بڑا سیکورٹی ایشو قرار دیا اور دہشت گردی ، کرپشن اور انتہا پسندی کے خاتمے کیلئے ایسی حکمت عملی طے کی ، جو پہلے کبھی نظر نہیں آئی ۔ یہی وجہ ہے کہ فوج اور سیکورٹی اداروں کو پاکستان کے عوام کی وسیع تر حمایت حاصل ہے ۔ لوگوں میں یہ امید پیدا ہو چکی ہے کہ پاکستان سیکورٹی ایشوز سے کامیابی کے ساتھ نبرد آزما ہو رہا ہے اور وہ ایک لبرل جمہوری ریاست کے طور پر ترقی کیلئے پر امن ماحول قائم کرنے کی طرف گامزن ہے۔پاک چین اقتصادی کاریڈور ملک کی معاشی ترقی اور خطے میں مثبت تبدیلیوں کی نشاندہی کر رہا ہے۔ اس صورت حال میں میڈیا اور محفلوں میں آرمی چیف جنرل راحیل شریف کی مدت ملازمت کی باتیں ہو رہی ہیں ۔ ماضی میں بھی کئی جرنیلوں کی مدت ملازمت میں توسیع کی گئی ۔ جنرل اشفاق پرویز کیانی کو بھی مدت ملازمت میں توسیع دی گئی تھی جبکہ جنرل (ر) پرویز مشرف خود بھی آرمی چیف کی حیثیت سے پانچ سال کی توسیع حاصل کر چکے تھے ۔ پاکستان کی سویلین قیادت ماضی کے تجربات کی روشنی میں بعض خدشات سے دوچار ہو سکتی ہے لیکن اس امر سے کوئی انکار نہیں کر سکتا کہ دوران جنگ سپہ سالار کی تبدیلی نہیں ہوتی ۔ آج پاکستان کا پہلا اور آخری مسئلہ دہشت گردی اور انتہا پسندی ہے ۔ ملک اور قوم اس وقت تک ترقی نہیں کر سکتے اور نہ ہی جمہوریت مستحکم ہو سکتی ہے جب تک دہشت گردی اور انتہا پسندی ، کرپشن، اقربا پروری اور بیڈ گورنننس ختم نہ ہوں ۔ دہشت گردی کے خلاف جنگ کو منطقی انجام تک پہنچانے کیلئے جنرل راحیل شریف کی مدت ملازمت میں اگر توسیع دی جائے تو کوئی حرج نہیں ہے بلکہ یہ ضروری ہے۔ حالات ماضی کے مقابلے میں بہت مختلف ہیں ۔ جہاں تک جنرل راحیل شریف کی عوام میں بڑھتی ہوئی مقبولیت کا سلسلہ ہے ، اس کی بلا جواز سیاسی توضیح کرنا مناسب نہیں ہے۔ کہا جاتاہے جنرل ضیاء الحق ، جنرل پرویز مشرف اور جنرل کیانی نے پاکستان کے سیکورٹی ایشوز کے حوالے سے کچھ ڈلیور نہیں کیا اور کرپشن کو فروغ دیا۔
پاکستان کے عوام یہ محسوس کر رہے ہیں کہ جنرل راحیل شریف کی نہ صرف سمت درست ہے بلکہ خارجی، داخلی اور گورننس کے امور میں کرپشن کے خاتمے کو لوگ پسند کر رہے ہیں بلکہ عوام چاہتے ہیں کہ بلا تفریق سیاست دانوں، کاروباری افراد اور بیوروکریسی میں کرپشن میں غرق لوگوں کو عبرت ناک سزا دی جائے اور لوٹی ہوئی رقم واپس لائی جائے۔ہمارامسئلہ یہ ہےکہ ہمارے ہاں جمہوریت کا غلط مطلب لیا گیا ہے ۔ یہ ٹھیک ہے کہ پاکستان میں سیاست کو خراب کرنے میں بھی بعض غیر جمہوری قوتوں کا ہاتھ ہے لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ لوگ جمہوری حکومتوں سے مطمئن نہیں ہیں ۔ جمہوریت عوام کی فلاح و بہبود اور بہتری کیلئے ہوتی ہے ۔ جب تک جمہوریت عوام کو گڈ گورننس، کرپشن اور اقربا پروری سے پاک نظام ڈلیور نہ کرے اور ان کیلئے تعلیم، اسپتال، روزگار اور امن قائم نہ کرئےتب تک وہ جمہوریت نہیں ہوتی ۔ جمہوریت دنیا کے دیگر ملکوں میں بھی ہے ۔ جہاں وہ ڈلیور کر رہی ہے ، وہاں عوام خوش ہیں اور جہاں جمہوریت ڈلیور نہیں کر رہی وہاں کے عوام پریشان ہیں ۔ پاکستان ایسے ہی ملکوں میں شامل ہے ۔ پاکستان کے عوام آمریت کیخلاف ہیں۔ انہوں نے جمہوریت کیلئے طویل جدوجہد کی ہے اور بے مثال قربانیاںبھی دی ہیں لیکن آمریت کے بعد جمہوریت بھی صرف اشرافیہ کی حکومت بن کر رہ گئی ہے۔ 1200سے زائد ارکان پارلیمنٹ اور انکے عزیز و اقارب اور دوستوں کی من مانی کو جمہوریت نہیں کہا جا سکتا۔
اگر آج وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف یہ کہہ رہے ہیں کہ انہیں ہٹا کر کوئی دوسرا اقتدار میں آنا چاہتا ہے یا اپوزیشن لیڈر خورشید احمد شاہ جمہوریت کو بچانے کیلئے پارلیمنٹ کو اپنا کردار ادا کرنے کیلئے تیار کر رہے ہیں یا سینیٹ کے چیئرمین میاں رضا ربانی قوم کو خبردار کر رہے ہیں کہ جمہوریت کو بچانے کی آئینی ڈھال بھی کمزور ہو گئی ہے تو اس کی وجہ صرف اور صرف یہ ہے کہ سیاسی جماعتوں کو عوام میں پذیرائی حاصل نہیں ہے ۔ دنیا بھر میں پاکستان کی سیاسی حکومتوں کی کرپشن کی کہانیاں سنائی جا رہی ہیں ۔ یہاں تک کہ سفارتی محفلوں میں بھی یہی باتیں ہو رہی ہیں۔ میاں رضا ربانی کا یہ کہنا درست ہے کہ جمہوریت کو صرف عوام ہی بچا سکتے ہیں لیکن اس حقیقت کو بھی نظر انداز نہیں کیا جا سکتا کہ سیاسی جماعتیں عوام سے کٹ کر دور ہوچکی ہیں اور وہ ان حکمرانوں سے تنگ ہیں۔ ان حالات میں دہشت گردی ، کرپشن اور انتہا پسندی کے خلاف جنگ کو مکمل فتح یابی تک جاری رکھنا بھی ضروری ہے اور سرحدوں پر کشیدگی سے پیدا ہونے والے سیکورٹی ایشوز سے نمٹنا بھی لازمی ہے ۔ جمہوری حکومتوں کو اس بات سے خوف زدہ نہیں ہونا چاہئے کہ جنرل راحیل شریف کیوں مقبول ہو رہے ہیں اور انہیں جنرل راحیل شریف کی مدت ملازمت میں توسیع کے معاملے پر بھی کنفیوژ نہیں ہونا چاہئے ۔ اس پیچیدہ صورت حال میں جمہوری حکومتوں کو گورننس پر زیادہ توجہ دینا چاہئے ۔ عوام کے مسائل حل کرنا چاہئیں اور احتساب کا مضبوط نظام قائم کرنا چاہئے ۔ اگر جمہوری حکومتیں اس پر توجہ دے دیں تو جمہوریت کی گاڑی پٹری سے اترے بغیر آگے چل سکتی ہے اور یہ بہترین موقع بھی ہے کہ پاکستان ایک سیکورٹی اسٹیٹ سے ایک پرامن جمہوری قومی ریاست بنا دیا جائے ۔ سیاسی قوتوں کے تدبر کا امتحان ہے ۔
تازہ ترین