• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
ویسے تو اتفاق رائے نام کی کوئی شے اس مملکت خداداد میں شاید ہی پائی جاتی ہو، مگر قومی اداروں کی تباہی اور بربادی کے پروگرام میں پوری قوم حیران کن حد تک یکسو اور متفق رہی ہے۔ آج اگر ہم گونا گوں مسائل کا شکار ہیں اور گرداب سے نکلنے کی سبیل بن نہیں پارہی، تو اس کی وجہ قومی اداروں کے ساتھ لبرٹی لینے اور اٹھکیلیاں کرنے کی ہماری مجرمانہ روش کے سوا کچھ اور نہیں۔ فی الوقت موضوع سخن الیکشن کمیشن ہے اور اس عظیم المرتبت ادارے کو جس قدر بے وقعت ہم نے بنا دیا ہے، اس کی مثال شاید ڈھونڈے سے بھی نہ ملے۔ دنیا بھر کا قاعدہ ہے کہ انتخابات ہوتے ہیں، تو تھوڑی بہت رد و کرح کے بعد قبول کرالئے جاتے ہیں اور اگر کبھی کوئی غیرقانونی حرکت ہوئی ہوتو اس کا ازالہ کردیا جاتا ہے۔ مگر ہمارے ہاں معاملہ بالکل الٹ ہے۔ یہاں ہارتا کوئی نہیں ہے اسے ہرایا جاتا ہے، دھاندلی ہوتی ہے، پنکچر لگتے ہیں، اور الیکشن کمیشن سمیت پورے انتخابی عمل پر سوالیہ نشان لگا دیا جاتا ہے۔ آدھی ٹرم گزر جاتی ہے مگر انتخابی عذر داریوں کے فیصلے نہیں ہوپاتے۔ زیادہ دن نہیں گزرے کہ دھرنے کی شکل میں ایک نیا سیاسی ہتھیار دریافت ہوا ہے۔ جو کبھی حکومت کے خلاف دیا جاتا ہے، اور کبھی الیکشن کمیشن کو دھمکانے کے لئے استعمال ہوتا ہے۔ اور یہ انہونی بھی دیکھی کہ جس کا جب جی چاہے الیکشن کمیشن کو مستعفی ہونے کی تڑی لگا دے۔ بعض سیاسی جماعتوں نے یہ حرکت موجودہ چیف الیکشن کمشنر جسٹس رضا خان کے ساتھ کرنے کی کوشش کی، تو دبائو میں آنے کے بجائے انہوں نے انہیں آئین و قانون کی راہ دکھائی، اور بتایا کہ الیکشن کمیشن موقر آئینی ادارہ ہے۔ جس کی تشکیل ایک پیچیدہ اور صبر آزما عمل ہے، بلدیاتی انتخابات سر پر ہیں، لہٰذا اسے کھیل تماشہ بنانے کی اجازت نہیں دی جاسکتی۔ آئینی مدت پوری ہونے تک الیکشن کمیشن کے جملہ ارکان کام کرتے رہیں گے، اور اگر کسی کو شکایت ہے تو سپریم جوڈیشل کونسل کے دروازے کھلے ہیں۔
یہ بھی عجب تماشہ ہے کہ الیکشن کمیشن کے ساتھ اس طرح کی لبرٹی صرف ہمارے ہاں ہی لی جاتی ہے۔ جبکہ دنیا بھر میں الیکشن کمیشن کو ایک نہایت اہم ادارے کے طور پر لیا جاتا ہے۔ اور اس کی قدر و منزلت اور وقار کا یہ عالم ہوتا ہے کہ دیگر ریاستی ادارے اس کے سامنے بونے دکھائی دیتے ہیں۔ بھارت کی مثال دیتا ہوں تو بعض دوستوں کو اچھا نہیں لگتا۔ مگر کیا کیا جائے، اگر حکمت پڑوس میں بکھری پڑی ہو، تو دھیان اسی طرف چلا ہی جاتا ہے۔تو دل تھام کر سنئے کہ بھارت میں انتخابات کے اعلان کے ساتھ ہی ملک کی حکمرانی عملی طور پر الیکشن کمیشن کو منتقل ہوجاتی ہے۔ اور ادارہ ڈی فیکٹو گورنمنٹ کی حیثیت اختیار کرلیتا ہے۔ بلکہ اس کا رعب و دبدبہ اصل حکومت سے بھی بڑھ کر ہوتا ہے اس کی مثال یوں سمجھ لیجئے کہ 2014ء کے انتخابات کا اعلان ہوا تو آرمی چیف جنرل بکرم سنگھ ریٹائر ہورہے تھے۔ اور ان کی جگہ جنرل دلیر سنگھ کو بھارتی سپاہ کا سربراہ مقرر کیا جانا تھا۔ الیکشن کمیشن کی اجازت سے وزارت دفاع نے جس کی سمری وزیر اعظم کو بھجوا رکھی تھی۔ 12؍مئی 2014ء کو الیکشن کے سب مراحل مکمل ہوچکے تھے، مگر وزیر اعظم کو سمری پر دستخط کرنے کی ہمت نہیں پڑ رہی تھی۔ چنانچہ الیکشن کمیشن سے دوبارہ رجوع کیا گیا اور اس کی جانب سے کلیئرنس آجانے کے بعد وزیر اعظم ڈاکٹر منموہن سنگھ آرمی چیف کے تقرر نامہ پر دستخط کرپائے تھے۔ اور الیکشن کمیشن کی مستعدی کا یہ عالم ہے کہ ہمارے سے دس گنا زیادہ ووٹروں کو مرحلہ وار انتخاب میں کچھ اس سرعت اور حکمت سے بھگتا دیا جاتا ہے کہ کوئی دھاندلی کی شکایت نہیں کرتا۔ جہاں صندوقچیاں، مہریں، مقناطیسی سیاہی اور گز گز لمبی انتخابی فہرستیں قصہ پارینہ بن چکیں۔ جہاں الیکٹرانک ووٹنگ مشین (EVM) کا راج ہے اور 2004ء کے بعد کے سبھی انتخابات مکمل طور پر EVM کی مدد سے کرائے گئے ہیں۔ جہاں چیف الیکشن کمشنر سمیت ہر سطح کے انتخابی عملے کو ہماری طرح انتخاب کے بعد مجرموں کی طرح کٹہرے میں کھڑا نہیں کیا جاتا بلکہ ان پر تعریف و توصیف کے ڈونگرے برسائے جاتے ہیں۔
شاید اس کی وجہ یہ ہو کہ ہمارے برعکس بھارت نے انتخابی عمل کو ابتدا ہی سے سنجیدگی سے لیا ہے، اور غیرضروری تجربات نہیں کئے۔ جبکہ ہم تو آج تک یہ فیصلہ ہی نہیں کرپائے کہ کیا انتخابات کا عمل ایک طرح کی عدالتی کارروائی ہے، یا ایک انتظامی معاملہ ہے۔ جبکہ بھارت نے روز اول ہی سے اسے خالصتاً انتظامی معاملہ قرار دے دیا تھا۔ اور یہ ذمہ داری انتظامی افسروں کو سونپی گئی۔ آزادی کے بعد پہلے عام انتخابات کا معاملہ اٹھا تو ملک کے سویلین چیف الیکشن کمشنر کے طور پر سکمار سین کا انتخاب ہوا۔ جن کا تعلق آئی سی ایس سے تھا اور تقرر کے وقت مغربی بنگال میں چیف سیکرٹری کے طور پر خدمات سرانجام دے رہے تھے۔ الیکشن کمشنرز کے انتخاب کے لئے انہیں فری ہینڈ دیا گیا۔ جس کے لئے موصوف نے اپنے ماتحت ڈویژنل کمشنروں کو ترجیح دی۔ مارچ 1950ء میں نیا عہدہ سنبھالنے کے بعد سکمار سین وزیر اعظم نہرو سے ملاقات کے لئے گئے، تو انہیں انتخابات کے فوری انعقاد کے حوالے سے پرجوش پایا۔ موصوف چاہتے تھے کہ سال ختم ہونے سے پہلے انتخابات کا عمل مکمل ہوجائے، مگر سکمار سین نے دھیرج کی صلاح دی۔ جو آئی سی ایس کے ساتھ ساتھ ایک ریاضی دان بھی تھے اور لندن یونیورسٹی سے اس مضمون میں گولڈ میڈل لے رکھا تھا۔ چنانچہ حساب کتاب لگا کر وزیر اعظم کو بتایا کہ ایک برس تو انتخابات کی تیاریوں میں ہی لگ جائے گا۔ اٹھارہ کروڑ کے لگ بھگ ووٹر ہیں، زیادہ تر ان پڑھ، ان کی شناخت، رجسٹریشن، انتخابی عملے کا تقرر و تربیت، انتخابی نشانات کا چنائو، بیلٹ پیپرز کی چھپائی، صندوقچے، انمٹ سیاہیاں اور نہ جانے کیا کیا کچھ ریاضی دان سکمار سین کے حساب کتاب نے نہرو کو بے حد متاثر کیا۔ اور وہ موصوف کے دئیے گئے ٹائم ٹیبل کے قائل ہوگئے۔ چنانچہ پکی تیاریوں کے ساتھ بھارت کے پہلے عام انتخابات کا آغاز 1951ء کے اواخر میں ہوا اور یہ عمل 1952ء کے اوائل تک چلتا رہا۔ انتخابات کی شفافیت کی بات چلی تو وزیر اعظم نہرو نے کہا ’’الیکشن کمیشن اپنے رولز اینڈ ریگولیشنز خود بنائے۔ بدعنوانی کی سب راہیں بند کرنے کی دستاویز خود تیار کرے، اسے قانونی حیثیت دلانا سرکار کی ذمہ داری ہوگی‘‘۔یوں بھارت ابتدا ہی سے ایک نہایت معتبر و موثر الیکشن کمیشن کی بنیاد رکھنے میں کامیاب ہوگیا اور یہ اصولی فیصلہ بھی ہوگیا کہ آئندہ بھی چیف الیکشن کمشنر اور الیکشن کمشنر صاحبان انڈین ایڈمنسٹریٹو سروس (IAS) سے ہی آیا کریں گے۔ اس فیصلے پر اس شدومد سے عمل ہوتا آیا ہے کہ اس وقت تک بھارت میں بیس چیف الیکشن کمشنر آچکے ہیں اور تقریباً سبھی کا تعلق IAS سے ہے۔ اس کے برعکس ہمارے ہاں مستقل اور ایکٹنگ ملاکر آج تک 26چیف الیکشن کمشنرز متعین ہوچکے ہیں۔ جن میں سے ابتدائی چار۔ ایف،ایم خان، اختر حسین، جی معین الدین اور این۔اے فاروقی کا تعلق سول سروس سے تھا ا ور باقی سب عدلیہ سے آئے۔ ایک روایت پڑ جائے تو اس کا توڑنا مشکل ہوجاتا ہے۔ جبکہ دنیا مانتی ہے کہ انتخابات کا انعقاد ایک خالصتاً انتظامی معاملہ ہے، مخصوص تربیت اور تجربے کے اعتبار سے جج صاحبان جس کے لئے موزوں نہیں ہوتے۔ پاکستان میں یہ آواز پہلی بار جولائی 2014ء میں سنی گئی۔ چیف الیکشن کمشنر کا عہدہ خالی ہوا تو سپریم کورٹ کے سینئر جج جسٹس جواد ایس خواجہ کو ایکٹنگ چارج لینے کی پیشکش ہوئی۔ جس پر انہوں نے معذرت کرتے ہوئے کہا تھا۔ کہ وہ ایک جج ہیں، بیورو کریٹ نہیں، ان کے اس کمنٹ سے جو میں سمجھ پایا ہوں، وہ یہ ہے کہ کمیشن کی سربراہی کے حوالے سے انہوں نے اپنا فیصلہ بیورو کریٹس کے حق میں دے دیا، کہ انتخابات ایک انتظامی معاملہ ہے نہ کہ عدالتی۔ یہ ایک سوچ ہے، حرف آخر نہیں۔ یہ فوڈ فار تھاٹ ہے۔ ایک طرح کی لائوڈ تھنکنگ ہے، اور دعوت عام ہے یاراں نقطہ دان کے لئے۔
تازہ ترین